English   /   Kannada   /   Nawayathi

دوستو یہ زندگی کی ناؤ ہے

share with us

یونیسیف کی دعوت پر انہیں گاؤں میں سے ایک بلاچھورکو دیکھنے کا موقع ملا ، بالا چھور جانے کے لئے کپلا باڑی سے موٹر بوٹ پر سوار ہوئے اس بوٹ پر نیشنل رولر ہیلتھ مشن آسام سرکار اور یونیسیف کی مدد سے چلتا پھرتا کلینک بنایا ہوا تھا ۔ڈپٹی دائریکٹر ہیلتھ ضلع نل باری کے دفتر میں ڈاکٹر پی سی چکرورتی نے بتایا کہ چھور علاقہ میں صحت و ٹیکہ کاری کی سہولیات کو پبلک پرائیویٹ ساجھیداری کی بنیاد پر بوٹ کلینک کے ذریعہ باہم پہنچایا جاتا ہے ۔یہاں رضا کار تنظیم سینٹر فار نارتھ اسٹیڈیز اینڈ پالیسی ریسرچ اس کام کو کررہا ہے ۔ سینٹر کے کوارڈینیٹر پرویز احمد کے مطابق 2008میں پانچ بوٹ کلینک سے یہ کام شروع کیا گیا تھا 2009میں تین بوٹس کو اور بڑھایا گیا ہر بوٹ پر ایک اہل ( qualified) ڈاکٹر ایک DPOایک فارمیسی ایک لیبو ریٹری ٹیکنیشن ,2ANMتین ہیلتھ ورکر اور ایک خانسامہ ہوتے ہیں ۔کیونکہ ایک گاؤں جانے وہاں دوائیاں وغیرہ دیکر واپس آنے میں 10گھنٹہ کا وقت لگ جاتا ہے ۔
بالا چھور دو حصوں میں بٹا ہوا ہے موٹر بوٹ سے 7-6کلومیٹر کے سفر میں ایک گھنٹہ کا وقت لگا ۔ موٹر بوٹ سے اترنے کے بعد ایک کلو میٹر پیدل چل کر ہم ایسے مقام پر پہنچے جہاں سے ہمیں چھوٹی ناؤ لینی تھی اس ناؤ نے ہمیں گاؤں تک پہنچایا ۔ در اصل ہرہم پترا کی ایک چھوٹی سی شاخ نے اس گاؤں کے بیچ سے گزر کر اسے دو حصوں میں بانٹ دیا ہے یہ چھوٹی شاخ بھی اچھی خاصی بڑی ندی لگتی ہے اسے بغیر ناؤ کے پار نہیں کیا جا سکتا ۔اس گاؤں کی سیاح سعیدہ نے بتایا کہ گاؤں کی کل آبادی 992لوگوں پرمشتمل ہے اس میں ایک چھوٹا سا اسکول بھی ہے پانچ سال تک کے 150بچے ہیں ہر سال 23-24بچوں کی ولادت ہوتی ہے ۔زیادہ تر ولادت کا کام دلائی کے ذریعہ عمل میں آتا ہے ۔ با وجود اس کے کہ ولادت کے لئے اسپتال جانے کا رجحان بڑھ رہا ہے لیکن پھر بھی بہت کم خواتین ایسی ہیں جو اسپتال تک جا پاتی ہیں کیونکہ آنا جانا بہت ہی دشوار ہے ۔جب ندی میں پانی کم ہوتا ہے تب کئی کلو میٹر ریت میں سائیکل ، موٹر سائیکل یا پیدل چل کر ندی تک پہنچتے ہیں پھر ناؤ سے کپلا باری یا مکالمہ پھر وہاں سے پیدل یا سائیکل سے ہیلتھ سینٹر تک یہ اپنے آپ میں جوئے شیر لانے سے کم نہیں ۔بوٹ کلینک کے ذریعہ چھوٹی موٹی بیماری کا وہیں علاج کردیا جاتا ہے ۔ اس میں خون ، پیشاب وغیر کی جانچ کا انتظام بھی رہتا ہے ، ڈاکٹر مریض کو دیکھ کر مفت دوائیاں دیتے ہیں بوٹ کلینک مہینے میں 16دن کام کرتی ہے ہر وزٹ میں بوٹ کلینک سے 150سے 200لوگ استفادہ کرتے ہیں ۔بوٹ کلینک پر وہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہوتے ہیں جو ابھی ابھی پاس کرکے آئے ہوئے ہیں سرکار کی اس شرط کی وجہ سے کہ پوسٹ گریجویشن کرنے کے لئے دیہی علاقہ میں کام کرنا ضروری ہے سے گاؤں کے لوگوں کو فائدہ ہو رہا ہے ۔ ہماری موجودگی میں یہاں بچے بڑے عورتوں وغیرہ کو کل ملا کر 169لوگوں کودوائی دی گئی ۔
چھور گاؤں میں بجلی نہیں ہے البتہ یہ لوگ سولر لائٹ کا استعمال کرتے ہیں پینے کے پانی کے لئے ہینڈ پمپ کا انتظام ہے یہاں کی زیادہ تر آبادی بنگالی بولنے والے مسلمانوں کی ہے جو 100سالوں سے ان ٹاپوؤں کو آباد کئے ہوئے ہیں ۔یہ جوٹ اور چاول کی کھیتی کرتے ہیں بخار ہونے کی صورت میں ملیریا ہونے کا خطرہ بنا رہتا ہے نمی و پانی کی وجہ سے مچھر کبھی ختم نہیں ہوتے پانی کی وجہ سے پیٹ کی بیماریاں بھی ہوتی رہتی ہیں یہاں کے لوگ دوا کو گولی کے بجائے شربت کی شکل میں لینا پسند کرتے ہیں مجبوری میں گولی یا انجکشن کا استعمال کیا جاتا ہے ۔بالا چھور میں ایک چھوٹا سا اسکول بھی ہے اس میں پرائمری تعلیم کا بندوبست ہے اسکول جانے والوں میں ہمیں لڑکیوں کی تعداد زیادہ دیکھی جبکہ آبادی کے لحاظ سے ایک ہزار پر صرف 947لڑکیاں ہیں ضلع میں پرائمری ، مڈل ، ہائی اسکول ، ہائر سکنڈری اسکول کے علاوہ ایک آئی ٹی آئی ، گیارہ جونےئر کالج 13کالج ایک کامرس کالج ایک سنسکرت کالج اور ایک لاء کالج بھی ہے یہاں لڑکیوں کی اسکول ڈریس بہت خوبصورت لگتی ہے ہری ، لال ، نیلی ، کالی اور کئی دوسرے رنگوں کی پٹی والی سفید ساڑی اور قمیض ایسا لگتا ہے جیسے یہ کسی تقریب میں جا رہی ہوں ۔اسکولوں کی طرح ضلع میں ہیلتھ سروسیز کا بھی ہر سطح پر مناسب انتظام موجود ہے ، ضلع سول اسپتال ، فرسٹ ریفرل یونٹ (مکالمہ، تہو) بلاک پبلک ہیلتھ سینٹر ، منی پبلک ہیلھ سینٹر ، چھور ہیلتھ سینٹر ، صوبائی ڈسپنسری ، صوبائی ہیلتھ سینٹر ، اور جیل اسپتال وغیرہ ان کے علاوہ ریڈ کراس اسپتال ، پرائیویٹ نرسنگ ہوم اور بوٹ کلینک کے ذریعہ صحت کی خدمات انجام دی جا رہی ہیں ، ضلع کی سطح پر کی جا رہی ان کوششوں کی وجہ سے 12454بچوں کی 2013-14میں اسپتال میں ولادت ہوئی ۔1892بچے گھر میں پیدا ہوئے جبکہ2012-13میں یہ تعداد 12114اور 1690تھی ۔ اسپتالوں میں بچوں کی ولادت میں اضافہ کے ساتھ بچوں کو پولیو کا ٹیکہ 98.9فیصد لگانا بھی ممکن ہو سکا ہے ۔ڈائریکٹر ہیلتھ سروسیز بھارت لکشمی دیوری کے مطابق امینوئزیشن کا نل باری میں اچھا کام ہوا ہے یہاں ٹیکہ کاری کا 81.64فیصد پہنچنا اپنے آپ میں ایک بڑی کامیابی ہے جبکہ آسام صوبہ کی سطح پر یہ تناسب صرف 59.1فیصد ہی ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ ٹیکہ کاری اور صحت کی بہتر سہولیات کو باہم پہنچانے کے لئے صوبہ کو چار حصوں میں بانٹا گیا ہے اپر آسام ، براک ویلی ، سینٹرل آسام اور لوور آسام یہ بوڈو کا علاقہ ہے یہاں آیشو ( ایورویدک اور یونانی ) کے ڈاکٹروں کے ذریعہ ہی کام لیا جا رہا ہے ۔یہاں ڈاکٹروں کی کمی اور حالات کے ناسازگار ہونے کے باوجود یونیسیف کی تکنیکی مدد سے ٹیکہ کاری اور صحت کا کام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے انہوں نے کہا کہ نل باری سینٹرل آسام میں ہے یہاں با وجود چھور علاقہ میں آنے جانے کی دشواریوں کے چھور ہیلتھ سینٹر اور بوٹ کلینک کی وجہ سے امید افزا کام ہو رہا ہے ۔ ٹیکہ کاری اور صحت کے کاموں کے لئے بوٹ کلینک لائف لائن کا کام کرتی ہے یہ پوچھے جانے پر کہ سماجی سطح پر ٹیکہ کاری کی کسی رسم رواج یا غلط فہمی کے چلتے مخالفت تو نہیں ہوتی انہوں نے بتایا کہ موری گاؤں میں لڑکیوں کو ٹیکہ دینے سے ایک دو لڑکیاں بیہوش ہو گئی تھیں اس کی وجہ سے یہ افواہ اڑی کہ ٹیکہ لگوانے سے لڑکیاں ماں نہیں بنیں گی کئی لڑکیوں نے ٹیکے نہیں لگوائے لیکن عام طور پر مقامی لوگ ہماری ہیلتھ ٹیم کے ساتھ پورا تعاون کرتے ہیں ۔

زچہ بچہ ، پیدائش کے وقت ، ولادت کے بعد یا ولادت کے پانچ برسوں کے اندر ماں یا بچہ کی اموات کا تناسب 2012-13کے آنکڑوں کے مطابق کچھ اس طرح ہے MMR(مدر مورٹلٹی ریٹ ) ایک ہزار پر آسام میں 301ہے اور نل باری ضلع میں 254یعنی صوبہ کے مقابلہ میں کم ۔ آئی ایم آر ( اینفنٹ مورٹلٹی ریٹ) ولادت کے وقت بچہ کی موت آسام میں ایک ہزار پر 55کا ریکارڈ ہے جبکہ نل باری میں 58یہ تناسب زیادہ ہے اسی طرح ملک کے تناسب 37سے بھی یہاں اموات کا تناسب 46زیادہ ہے ۔ ڈی پی ایم ( ضلع پروگرام منیجر ) منالکشی بربجاری اور نل باری کے چیف میڈیکل آفیسر سی آر پاٹھک نے بتایا کہ یہاں دیہی علاقوں میں لڑکی کی شادی 12-14 برس کے بیچ کردی جاتی ہے لڑکیاں ماں بننے کے لئے جسمانی اور ذہنی طور پر تیار نہیں ہوتیں ایسی صورت میں جب وہ ماں بنتی ہیں تو سمجھ کی کمی کی وجہ سے اس طرح کی اموات کا ہونا فطری ہے ۔پھر چھور علاقہ میں با وجود بوٹ کلینک اور سب ہیلتھ سینٹر کی کوشش کے کم ہی عورتوں کو ولادت کے لئے اسپتال لا پانا ممکن ہوتا ہے خاص طور سے رات کے وقت کسی بھی چھور گاؤں تک ہیلتھ ٹیم کا پہنچنا ممکن نہیں اس کی وجہ سے پوسنیٹل ( ولادت کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماری ) اموات بھی ہوتی ہیں یہ تناسب ملک کے ایک ہزار پر 18سے کم 12ہے ۔ پانچ برس سے کم عم کے بچوں کی اموات کا تناسب دیکھ بھال کی کمی مناسب کھان پان کے نہ ملنے کی وجہ سے عمل میں آتا ہے یہ تناسب ایک ہزار پر 81ملک کے تناسب 71سے زیادہ ہے اسی طرح کم تجربہ والی عورتوں ( دائیوں ) کے ذریعہ ولادت کرانے کی وجہ سے بھی اموات ہوتی ہیں یہ تناسب بھی یہاں 7.3ملک کے تناسب 7سے زیادہ ہے ۔ سرکاری ہیلتھ سینٹرس میں ولادت کے لئے دیہی علاقوں سے آنے والی خواتین کو 14سو روپے ان کے کھان پان اور دیکھ ریکھ کے لئے دےئے جاتے ہیں جبکہ شہری علاقوں کی خواتین کو صرف ایک ہزار روپے ۔ حاملہ عورتوں کو مفت اسپتال لانے کے لئے آدرنیہ امبولنس کا بھی انتظام ہے جسے سہیا
یا ANMکے بلاوے پر بھیجا جاتا ہے ۔ ہر علاقہ میں تربیت یافتہ ایک یا ایک سے زیادہ سہیا یا ANMموجود ہیں جو امرجنسی میں بنیادی علاج کے لئے دوا وغیرہ دیکر پرائیوری ہیلتھ سینٹر یا سب سینٹر تک پہنچانے کا کام کرتی ہیں ۔ انہیں ہر کام کے لئے ایک انسینٹیو دیا جاتا ہے ۔۔
آسام میں مچھروں کی وجہ سے پھیلے وایرل جے ای (Japanese encephalitis) سے بچے و بڑوں کی اموات ریکارڈ کی گئی ہیں جے ای ویکسی نیشن کی خصوصی مہم چلائی گئی اس کے تحت ایک سال سے 15سال تک کے بچوں 15سے 65سال تک کے بڑوں کو خوراک دی گئی ۔ یہ خوراک دینے کا کام بوٹ کلینک کے ذریعہ بھی کیا گیا ہے بوٹ کلینک میں جو ٹیسٹ کئے جاتے ہیں ان میں حمل کے علاوہ ہیموگلوبن ، شوگر، البیومن ، بلڈ گروپ ، ایچ آئی وی ، اور ملیریا وغیرہ کی جانچ کی جاتی ہے ، ڈاکٹر بناکامتا داس CMOبوٹ کلینک نے دکھایا کہ بوٹ کلینک میں ایک کمرہ مریض کو چھور ہیلتھ سینٹر یا پرئمری ہیلتھ سینٹر تک لانے کے لئے بھی رکھا گیا ہے اس میں آکسیجن دینے ، ڈرپ لگانے و بنیادی علاج کرنے کی سہولت دستیاب ہے۔
یونیسیف کی تکنیکی مدد ، مقامی ہیلتھ کارکنان کی محنت اور سینٹر فار نارتھ اسٹڈیز اینڈ پالیسی ریسرچ کے کارکنان کی سماج کو صحت مند بنانے کی لگن قابل ستائش ہے اگر اسی طرح کی کوششیں ملک کے دوسرے حصوں میں بھی کی جائیں اور وہاں کے شعبہ صحت سے جڑے لوگ ، رضاکار ، ہیلتھ ورکر محنت و لگن سے کام کریں تو وہ دن دور نہیں جب ملک کی عوام صحت مند ہوگی ۔صحت مند عوام ہی صحت مند ملک کی تعمیر کرت سکتی ہے ۔۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا