English   /   Kannada   /   Nawayathi

عدلیہ جیسے آخری قلعہ کا بھی انہدام  اس کی آزادی پر عام آدمی کا اعتماد متزلزل

share with us



 عبدالعزیز 


    کسی ملک کیلئے آزادی حاصل کرنا مشکل کام ہے۔ اور آزادی کا تحفظ اس سے بھی مشکل کام ہے۔ ہندستان میں انگریزوں سے آزادی کی لڑائی لڑی گئی اور گاندھی جی کی سربراہی میں غلامی سے نجات حاصل ہوئی۔ جس وقت آزادی کی لڑائی لڑی جارہی تھی اس وقت ہی جنگ آزادی کے مجاہدین نے طے کیا تھا کہ ملک میں جمہوریت ہوگی۔ ہر ایک کو برابری کا حق حاصل ہوگا۔ ہر ایک کو اپنے اپنے مذہب پر عمل اور تبلیغ کرنے کی آزادی ہوگی۔ دستور ساز اسمبلی میں کئی ماہ کی بحث اور مباحثے کے بعد ملک کا دستور مرتب ہوا اور طے ہوا کہ ملک میں جمہوری نظام ہوگا۔ اسی کے مطابق دستور کا ڈھانچہ تیار ہوا۔ مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کے اختیارات اور دائرہئ کار کو آخری شکل دی گئی۔ جمہوریت کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ یہ تینوں ادارے آزاد اور خودمختار ہوں جب ہی جمہوریت باقی رہتی ہے، پنپتی ہے اور اس کی جڑ مضبوط ہوتی ہے۔ ان میں سے کوئی بھی ادارہ اگر اپنی آزادی سے محروم ہوجائے تو جمہوریت بے معنی ہونے لگتی ہے۔ یہ تینوں ادارے جمہوریت کے اہم ستون ہوتے ہیں۔ چوتھا ستون میڈیا ہوتا ہے جو اس کے فنکشن پر نظر رکھتا ہے۔ بدقسمتی سے نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد ہر جمہوری ادارہ متاثر ہوا اور بے معنی ہوتا چلا گیا۔ اس کے اختیارات میں کمی اور خرابی آنے لگی۔ ایک ادارہ جس کو عدلیہ کہتے ہیں اس میں کچھ جان باقی تھی لیکن نریندر مودی کے آنے کے بعد اس پر شب خوں شروع ہوا۔ اب ایسا لگتا ہے کہ یہ آخری قلعہ بھی منہدم کر دیا گیا۔ 
    جسٹس مدن بی لاکر نے جسٹس رنجن گگوئی کے راجیہ سبھا کی ممبری قبول کرنے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ “There has been speculation for sometime now about what honorific would Justice Gogoi get. So, in that sense the nomination is not surprising, but what is surprising is that it came so soon. This redefines the independence, impartiality and integrity of the judiciary. Has the last bastion fallen?”۔(کچھ دنوں پہلے یہ قیاس آرائی کی جارہی تھی کہ جسٹس گگوئی کی کیا قدر ومنزلت ہوگی؟اس لئے اس معنی میں ان کی نامزدگی حیرت انگیز یا تعجب خیز نہیں ہے بلکہ حیرت انگیز اور تعجب خیز یہ ہے کہ ان کی آؤ بھگت اتنی جلدی ہونے لگے گی۔ اس سے عدلیہ کی آزادی، غیر جانبداری اور سلامتی پر حرف آیا ہے اور عدلیہ جو ایک جمہوری نظام کا آخری قلعہ تھا اسے بھی سرنگوں کردیا گیا)۔ 
    جنوری 2018ء میں جسٹس رنجن گگوئی، جسٹس مدن بی لاکر، جسٹس چلمیشور اور جسٹس کورین جوزف نے پریس کانفرنس کرکے سپریم کورٹ کے سب سے سینئر جج کی حیثیت سے ایک پریس کانفرنس کو خطاب کیا تھا جس میں سابق جسٹس آف انڈیا دیپک مشرا کے طرز عمل پر تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ عدلیہ پر دباؤ ہے اورجمہوریت خطرے میں ہے۔ چار ججوں نے اس وقت جو چیف جسٹس کو خط دیا تھا اسے بھی پریس کے حوالے کیا تھا۔ ان میں سے ایک جج جسٹس کورین جوزف نے بھی گزشتہ روز جسٹس گگوئی پہ سخت تنقید کی ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ جسٹس گگوئی نے عدلیہ کی آزادی پر عام آدمی کے اعتماد کو متزلزل کیا ہے۔ جسٹس جوزف نے جسٹس گگوئی کو یاد دلایا ہے کہ ”ہم لوگوں نے ملک و قوم کے سامنے یہ کہا تھا کہ ہم اپنی ڈیوٹی کر رہے ہیں اور اپنا قرض اتار رہے ہیں۔ 12جنوری 2018ء کو ہم لوگوں نے یہ بات کہی تھی اور جسٹس گگوئی اس وقت ہم لوگوں کے ساتھ تھے۔ مجھے بڑا تعجب ہوا ہے کہ جسٹس گگوئی نے جو ہمت دکھائی تھی کس طرح عدلیہ کی آزادی، غیرجانبداری جیسے اصولوں پر سمجھوتہ کرلیا۔ جسٹس جوزف نے مزید کہاکہ ہماری عظیم قوم نہایت مضبوطی کے ساتھ دستور کے بنیادی ڈھانچے اور دستوری قدروں پر یقین رکھتی ہے۔ اور عدلیہ کی آزادی پر بھی اسے یقین ہے لیکن جسٹس گگوئی نے جو کچھ کیا ہے یا کرنے جارہے ہیں اس سے عدلیہ کی آزادی پہ حرف آتا ہے اور عدلیہ کے بنیادی اور مستحکم ڈھانچے پر آنچ آگئی ہے۔ جسٹس جوزف نے اپنے بیان میں عدلیہ کی آزادی کو مستحکم، مربوط اور مضبوط کرنے کیلئے جو کارروائیاں کی گئی ہیں اس کا بھی ذکر اپنے بیان میں کیا ہے اور کہا ہے کہ ان کوششوں پر ججوں کی اس طرح کی حرکتوں سے پانی پھرتا نظر آرہا ہے۔ 
    افسوسناک بات یہ ہے کہ ملک بھر کے قانون دانوں اور سیاست دانوں کی طرف سے جو تبصرے اور تنقیدیں جسٹس گگوئی کی نامزدگی پر ہوئی ہیں اس سے سنبھلنے کے بجائے اور ممبری سے انکار کردینے کے بجائے جسٹس گگوئی مودی حکومت سے سمجھوتے کا جواز نہایت غلط طریقے سے پیش کر رہے ہیں۔ ایسی اونچی شخصیت سے نہ یہ امید رکھی جاسکتی ہے اور نہ ہی یہ ان کے شایانِ شان ہے۔ وہ اس قدر نیچے اتر آئے ہیں کہ ان کی آواز نریندر مودی کی آواز سے بالکل ملنے جلنے لگی ہے بلکہ دونوں ہم آواز ہوگئے ہیں۔ جسٹس گگوئی نے کہا ہے کہ ”میں نے اس پیشکش کو اس لئے قبول کیا ہے کہ قوموں کی زندگی میں ایسا وقت آتا ہے جب قوم کی تعمیر کیلئے عدلیہ اور انتظامیہ میں ہم آہنگی ضروری ہوتی ہے۔ میں ایوان میں مضبوطی کے ساتھ عدلیہ کے نظام کے نقطہ نظر کو پیش کروں گا“۔ نریندر مودی 2014ء میں اقتدار کی کرسی پر بیٹھنے کے بعد ہی ججوں کی ایک کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”ملک کی تعمیر کیلئے عدلیہ اور انتظامیہ میں تال میل ہونا چاہئے“۔ اس وقت ہم جیسے لوگوں نے بھانپ لیا تھا کہ وزیر اعظم نریندر مودی عدلیہ کو بھی اپنے سانچے میں ڈھالنا چاہتے ہیں اور اس کے اختیارات پر شب خوں مارنے کی حتی الامکان کوشش جاری رکھیں گے۔ نریندر مودی کے حسب خواہ سابق چیف جسٹس آف انڈیا دیپک مشرا سپریم کورٹ کی بنچوں کی تشکیل کرنے لگے تھے اور فیصلے بھی دینے لگے تھے۔
     جسٹس لویا قتل کے مقدمے کی سماعت کیلئے جو بنچ تشکیل کی گئی تھی وہ بھی حکومت کے حسب خواہ تھی اور جو فیصلہ آیا وہ بھی حکومت کے عین مطابق تھا۔اسی طرح کی بنچوں کی تشکیل اور جانبدارانہ فیصلوں پر چار سینئر ججوں کو اعتراض تھا جس میں جسٹس گگوئی بھی شامل تھے۔ جسٹس گگوئی بھی اپنی مدتِ کار میں جسٹس دیپک مشرا کے ہی نقش قدم پر چلنے لگے تھے۔ ان کی خوش قسمتی تھی کہ کوئی ایسے چار سینئر جج نہیں تھے جو ان کے کام کاج پر سوال اٹھاتے۔ جسٹس گگوئی پر جنسی زیادتی کے الزام اور مقدمے کے بعد جسٹس گگوئی بہت زیادہ بدل گئے۔ اور ایسا لگتا ہے کہ حکومت کے سامنے وہ سرنگوں ہوگئے۔ ا س کے بعد ہی سے اہم اہم چیزوں کے جو فیصلے آنے لگے مثلاً ’تین طلاق‘، دفعہ 370، اجودھیا تنازع اور کالے قانون پر عجیب و غریب فیصلے تھے۔ کشمیری کے خصوصی اختیارات کے ختم ہونے کے بعد تاریخ پڑتی رہی۔ سی اے اے کے مقدمے کا بھی یہی حال رہا۔ تین طلاق اور رام مندر کا فیصلہ جسٹس گگوئی نے اپنی سربراہی میں کی۔ اب جبکہ انھوں نے راجیہ سبھا کی ممبری قبول کرلی اس سے پتہ چلتا ہے کہ معاملہ کیا تھا اور فیصلے کس طرح ہورہے تھے۔ 
    جسٹس گگوئی نے بھی یہ کہا تھا کہ ججوں کو ریٹائرمنٹ کے بعد حکومت کے عہدوں کی پیشکش قبول نہیں کرنی چاہئے اس سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہوتی ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ جسٹس گگوئی اپنی کہی باتوں کے خلاف خود چلنے لگے ہیں۔ جس سے عدلیہ پہ عام آدمی کا اعتماد اٹھتا جائے گا۔ انتظامیہ پہلے سے بھی زوال پذیر ہے۔ بدعنوان اور غلط قسم کے لوگوں کی وجہ سے عام آدمی اس سے پریشان ہیں۔ مقننہ میں 40% سے زیادہ مجرمانہ کردار کے حامل لوگ ہیں اور جب سے نریندر مودی، امیت شاہ جیسے لوگ قانون ساز اداروں میں آئے ہیں اس کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہوگئی ہے۔ عدلیہ پر کچھ لوگ اعتماد کرتے تھے اب اس پر سے بھی اعتماد اٹھتا جارہا ہے۔ جسٹس لاکر کا یہ کہنا کہ جمہوریت کا آخری قلعہ بھی گرگیا بالکل صحیح ہے۔ جسٹس جوزف نے بالکل سچی بات کہی ہے کہ جسٹس گگوئی جیسے لوگوں کا حکومت کی پیشکش کو قبول کرنے سے عام آدمی کا اعتماد عدلیہ کی آزادی سے متزلزل ہوجائے گا۔ اس طرح دیکھا جائے تو جمہوریت کے تینوں ستون گرتے پڑتے نظر آرہے ہیں۔ چوتھا ستون میڈیا ہوتا ہے۔ میڈیا کی حالت بھی بہت بری ہے۔ میڈیا کا 90% حصہ حکومت کی دلالی اور حاشیہ برداری کا کردار ادا کر رہا ہے۔ جنھیں گودی میڈیا یا مودی میڈیا کہا جاتا ہے۔ امید کی جو کرن ہے وہ عوام ہے۔ عوامی جدوجہد ہے۔ عوامی تحریک اور آندولن ہے۔ اسی سے امید پائی جاتی ہے کہ جمہوریت کی بحالی ممکن ہے۔ (یو این این)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا