English   /   Kannada   /   Nawayathi

عراق میں امن کے معدوم امکانات

share with us

ایرانی فوجی افسر جو عراق میں فوجی مشیر کے طور پر کام کررہے ہیں جنرل قاسم موسوی کے دعوے کے مطابق عراق کے جنگجو جیٹ ہوائی جہاز اور ہیلی کاپٹر جنگجوؤں پر بمباری کررہے ہیں نوری المالکی نے روس اور بیلا روس سے اس کے پرانے جنگی جہازوں کا بھی سودا کرلیا ہے جو آئندہ چند دنوں میں عراقی مورچوں پر پہنچ کر بمباری شروع کردیں گے ۔ نوری المالکی نے اعتماد ظاہر کیا ہے کہ فوج بہت جلد عراق کو ISISکے جنگجوؤں سے پاک کردے گی ۔
دوسری جانب آیت اللہ سیستانی اور مقتدیٰ الصدر دونوں نوری المالکی پر سیاسی اصلاحات کا دباؤ ڈال رہے ہیں دونوں کا کہناہے کہ آئندہ منگل (یکم جولائی) سے شروع ہونے والے پارلیمانی اجلاس سے قبل ملک میں عام مفاہمت کی حکومت قائم ہونی چاہئے جس میں عراقی سماج کے ہر طبقہ کو مناسب نمائندگی دی جائے مگر ایران شام امریکا اور روس کی حمایت حاصل ہونے کے بعد نوری المالکی نے آیت اللہ سیستانی اور مقتدیٰ الصدر دونوں کی تجویز مسترد کردی ہے ۔ گذشتہ اپریل میں ہوئے عراق کے پارلیمانی الیکشن میں کسی پارٹی کو مکمل اکثریت نہیں ملی تھی مگر نوری المالکی کی پارٹی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری تھی اب پارلیمنٹ نئے وزیر اعظم کا انتخاب کرے گی مگر پارلیمنٹ کی موجودہ صورت حال اور ملک میں شدید مسلکی تقسیم کے پیش نظر امکان ہے کہ نوری المالکی پھر وزیر اعظم منتخب ہوجائیں گے اور اگر ایسا ہوا تو عراق کے مسئلہ کا سیاسی حل کوسوں دور ہوجائے گا کیونکہ المالکی بیرونی حمایت کی بناپر اپنے مخالفین سے مفاہمت کے بجائے انہیں کچلنے کی پالیسی اختیار کریں گے جس کا صاف اشارہ وہ کئی بار دے چکے ہیں۔
ISIS ایک ایسا مجموعہ ہے جس نے بظاہر شدت پسندوں کے تمام گروہوں کو گرمایا اور انھیں سوشل میڈیا اور پروپیگنڈا کے ذریعے اپنے جہادی عزائم کا قائل کر کے شام اور عراق میں اپنی کارروائیوں میں شامل کیا، لیکن یہ طے کرنا بہت مشکل ہے کہ اس تحریک میں شامل تمام لوگ واقعی کٹڑ جہادی ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ عراق میں ISIS کی کارروائیوں میں حصہ لینے والے لوگوں میں اصل جہادیوں کی تعداد اس سے بہت کم ہے جو بتائی جا رہی ہے بلکہ عراق میں بھی وہی ہوتا دکھائی دے رہا ہے جو ہم شام میں پہلے ہی دیکھ چکے ہیں جہاں کئی افراد شدت پسند تحریکوں کو اپنے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ ان افراد کے بڑے سیاسی عزائم ایک دوسرے سے مختلف ہیں، تاہم ان سب میں یہ چیز مشترک ہے کہ یہ سب کے سب راسخ العقیدہ اسلامی رہنماؤں کا لبادہ اور طور اطوار اپنا لیتے ہیں۔ حالانکہ اصل اسلامی تعلیمات اور اسوہ رسول و اصحاب رسول کی جان بوجھ کر خلاف ورزی کرتے ہیں اس لیے یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ وہ راسخ القیدہ مسلمان ہیں اور اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ عراق میں بھی صورت حال شام سے مختلف نہیں ہے اورISIS کے نام کے تحت جو جہادی گروہ کارروائیاں کر رہے ہیں وہ بھی مختلف افراد اور ان کے پیروکاروں کا ملغوبہ ہے۔ISIS کے کئی ایک ارکان ایسے ہیں جو شام میں لڑنے کے بعد اب عراق میں ان کارروائیوں کا حصہ بن چکے ہیں جن میں جہادی طاقتیں ملک کے اہم قصبوں اور شہروں پر قبضہ کر رہے ہیں۔
اگرچہ عراق میں حالیہ عدم استحکم کے تانے بانے پڑوسی شام میں ایک عرصے سے جاری تنازعے سے ملتے ہیں، تاہم عراق کی شورش کا اصل ہدف شدت پسند اسلامی گروہوں کی حمایت کرنا نہیں بلکہ ملک کی داخلی سیاسی توڑ پھوڑ سے پیدا ہونے والے مسائل کو حل کرنا ہے۔ دوسری جانب برطانوی اخبار ڈیلی ٹیلیگراف کو انٹرویو دیتے ہوئے اسلامک آرمی آف عراق کے رہنما شیخ احمد الدباش کا کہنا تھا کہ ’عراق کے تمام سنی گروپ اب وزیرِاعظم نوری المالکی کے خلاف اکٹھے ہوگئے ہیں۔’اس میں عراقی فوج کا کچھ حصہ بھی شامل ہے، صدام حسین کے دور کے بعث پارٹی کے ارکان بھی اور کئی ملا بھی۔ الغرض ہر وہ شخص باہر آ گیا ہے جس کو (نوری المالکی) نے دبایا ہوا تھا۔‘یہ کہنا کہ عراق میں جو ہو رہا ہے وہ محض چند جنونی انتہا پسندوں کا کیا دھرا ہے، اس معاشرتی ناہمواری سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہوگا جو عراق میں حقیقتاً پائی جاتی ہے۔
بی بی سی کے نامہ گار نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ گذشتہ دنوں جب میں عراق کے مختلف علاقوں میں گیا تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ کچھ لوگ کس قدر غربت کی زندگی گذار رہے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہیں کہISIS کے زیر اہتمام دارالحکومت بغداد کی جانب مارچ کرنے والے گروہوں میں شامل تمام لوگ وہ جہادی ہیں جو سب کچھ تباہ کرنے اور ملک میں اسلامی خلافت قائم کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ بلکہ یہ تحریک دراصل شمال مغربی عراق کی غریب آبادیوں کی محرومیوں اور عراقی حکومت کی بدعنوانی اور بْری پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔جہاں تک عسکری محاز کا تعلق ہے، تو وہاں پر ISIS کے جنگجوؤں کی کارکردگی سرکاری فوجیوں سے بہتر رہی ہے۔میں نے جب کْرد پیش مرگا فوج کے افسران سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ ’ہمارے ہاں فوجیوں کی تربیت کا معیار بہت اچھا ہے، لیکن اس کے باوجود ہمارے فوجیوں کو تکریت میں اہم مقامات پر کنٹرول قائم رکھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔زیادہ تر مقامات پر ہم نے اپنا کنٹرول قائم رکھا، لیکن یہ اتنا آسان نہیں تھا۔ وہ (آئی ایس آئی ایس) کے لوگ تربیت یافتہ ہیں اور ان کے پاس اسلحہ بھی اچھا ہے۔‘
ISIS کے جنگجؤوں کی اچھی کارکردگی سے اس خیال کو بھی تقویت ملتی ہے کہ ان کی عسکری کارروائیوں کی نگرانی بعث پارٹی کے سابق فوجی افسران کر رہے ہیں۔ اس بات کی تصدیق کو اس وقت بھی ہوئی جب میں نے اس مسئلے پر کرکوک میں سیکورٹی اہلکاروں سے بات کی۔دیکھا جائے تو یہ ایک عجیب قسم کا اتحاد ہے کیونکہ صدام کے حامی بعثیوں اور اسلامی رجعت پسندوں کے اہداف ایک دوسرے سے یکسر مختلف، بلکہ متصادم ہیں۔ ان دونوں کے اہداف اس قدر متصادم ہیں کہ ان کا اتحاد آخر کار تحریک کے لیے نقصاندہ ثابت ہوگا۔ داعش کی جانب سے لڑنے والے افراد نورالمالکی کی ان پالیسیوں سے مایوس ہیں جس کے تحت انھیں الگ تھلگ رکھا جاتا رہا ہے۔عراق کے سرکاری حلقوں کو امید ہے کہ جلد ہی عراقی فوج، 300 امریکی فوجی ماہرین اور ایران کے حمایت یافتہ ملیشیا کی مدد سے داعش کی چڑھائی کو روکنے میں کامیاب ہو جائیگی تو پھر باغیوں کے حوصلے ٹوٹ جائیں گے اور ان کی باہمی تفریق سامنے آنا شروع ہو جائے گی۔تاہم ابھی تک یہ اتحاد قائم ہے اور جب تک ISIS بغداد کی جانب پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہے، آنے والے دنوں میں سرکاری فوج اورISIS کے درمیان لڑائی کی شدت میں اضافہ ہی ہوگا۔ لیکن اگر بغداد میں بیٹھی ہوئی حکومت کو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ عراق میں سیاسی اصلاحات اتنی ہی ضروری ہیں جتنی ضروری سکیورٹی ہے، تو عراق کے مسائل ایک طویل عرصے تک حل ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔
پڑوسی ممالک بھی آگ ٹھنڈا کرنے کے بجائے اس میں تیل ڈال رہے ہیں اور مغرب کو تو مانگی مراد ملی ہوئی ہے لیکن اگر یہ جنگ لمبی کھنچی تو دنیا کے ہر اس ملک کو متاثر کرے گی جہاں شیعہ اور سنی رہتے ہیں اور جو اپنی تیل کی ضرورت کے لئے اس خطہ پر انحصار کرتے ہیں اس کے لئے اس آگ کو بجھانا ہر ملک کے اپنے مفاد میں ہے نیز یہ کوئی عقل مندی نہیں ہے کہ عراق یا شام کی مسلکی آگ میں دوسرے ملکوں کو جلایا جائے اور وہاں امن عامہ کا مسئلہ کھڑا کیاجائے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا