English   /   Kannada   /   Nawayathi

یہ حادثہ بھی لکھوں معجزوں کے خانے میں

share with us

اوردونوں ملکوں کے سیاسی اورسیکورٹی تعلقات کومزیدمستحکم کرنے اورتمام شعبۂ ہائے زندگی میں تعاون کی ضرورت پرزوردیتے ہوئے امیدظاہرکی کہ حالیہ صدارتی انتخابات کے انعقادسے مصرمیں ترقی کے ایک نئے دورکاآغازہوگااورملک میں جاری سیاسی کشیدگی ختم کرنے میں بھی مددملے گی۔اسرائیل ہرمشکل وقت میں مصری حکومت کے ساتھ کھڑاہوگا۔السیسی نے اس کے جواب میں دونوں یہودی رہنماؤں سے اظہارتشکرکرتے ہوئے انہیں یقین دلایاکہ مصرتمام عالمی معاہدوں بشمول اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کی مکمل پاسداری کرے گا۔السیسی پرصہیونی استعمارکے صدقے واری جانے سے اس کی صدارت کی اصل حقیقت کھل کرپوری دنیاکے سامنے آگئی ہے ۔
السیسی نے مصرکاصدارتی انتخاب اس عالم میں جیتاہے کہ گزشتہ ایک برس سے کم عرصے کے دوران یعنی جب سے انہوں نے فوجی طاقت کی مددسے مصرکے اقتدارپرقبضہ کر رکھا ہے ،۲۵۰۰کے قریب شہری فوجی حکومت کی گولیوں کانشانہ بن چکے ہیں ،۱۶ہزارسے زائدتعدادان سیاسی کارکنوں کی ہے جنہیں پابندسلاسل کیاجاچکاہے اوران میں ۵۵۰ وہ بھی ہیں جن کے خلاف ماتحت عدالتوں نے موت کی سزاکاحکم دے رکھاہے۔اس کے برعکس جب۲۰۱۲ء میں مصرکے پہلے منتخب صدرڈاکٹرمحمدمرسی نے صدارتی انتخاب جیتاتوان کے ہاتھوں میں حکومت کی طاقت تھی نہ فوج کی حمائت۔اب جبکہ وہ مقیدہیں توان کے اہل خانہ سمیت مصرکے عوام کوعلم نہیں کہ ان کے ۲۰۱۲ء میں نہائت آزادفضاؤں میں منتخب کردہ صدرکوفوجی حکومت نے مصرکے کون سے شہرکی کس جیل میں کس حالت میں رکھاہواہے۔ان کے خلاف اگرکوئی جرم(اگراسے جرم ہی کانام دے لیاجائے) اب تک ثابت نہیں کیاجاسکااوراب تک کوئی الزام بھی سامنے نہیں لایاجاسکا۔
جنرل السیسی نے اب تک کون سا بڑاکارنامہ سرانجام دیا؟مصری عوام سمیت خطہ ارض پرزندگی بسرکرنے والے کسی بھی ذی روح کواس کاعلم نہیں ماسوائے اس کے کہ اسرائیل کو جو محمد مرسی کے صدربن جانے سے سخت تشویش لاحق ہوگئی تھی،اسے فیلڈمارشل السیسی کے تخت نشین ہوجانے پرایک گونہ اطمینان نصیب ہواہے۔امریکانے کامیابی پر مبار کباد دیتے ہوئے کہاہے کہ ہمارااسٹرٹیجک مفاداسی کاتقاضہ کرتاہے اورعرب بادشاہتیں(ماسوائے قطر)شادیانے بجارہی ہیں کہ السیسی کی قیادت میں مصرکی فوج ان کے مفادات کی نگہبانی کرے گی۔
یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ فوج ہی السیسی کاسب سے بڑاسہاراہے اوراس کی قوت کارازہے۔صدارتی انتخابات منعقدکرکے ایک رسمی ضرورت پوری کی گئی ہے تاکہ انہیں ایک منتخب صدرکہلانے کاجوازمل جائے ۔فوج نہیں توالسیسی بھی کچھ نہیں اوراگرکوئی اس نام نہادفیلڈمارشل سے پوچھے کہ اس منصب کوحاصل کرنے کیلئے اس نے کون سی جنگ یامعرکہ سرکیاہے؟السیسی نے پچھلے دنوں ایک انٹرویومیں صاف لفظوں میں اعتراف کیا کہ فوج کے بغیرمصرکہیں نہیں کھڑا،حق یہ ہے کہ اقتدارپرقبضہ نہ ہوتومصرکی فوج بھی کہیں نہیں کھڑی۔ وہ۱۹۵۲ء سے غیرجمہوری طورپرعوامی نمائندگی کے بغیرحکومت پرقابض چلی آرہی ہے خواہ جنرل نجیب کے چندمہینے تھے،جنرل عبدالناصر کے جوش اورولولے فردِ واحدکی حکمرانی کے ۱۸سال،انورسادات کی آمریت کے ۱۱سال یاحسنی مبارک کی استبدادیت کی ۳۱برس ہوں۔اس دوارن میں صرف ایک سال ایساآیایعنی جون ۲۰۱۲ء سے لیکر جولائی ۲۰۱۳ء تک جب عوام عرب بہارکے نشے میں آکرمسلسل فوجی آمریت کے خلاف بپھراٹھے تھے کہ اسے مجبوراًبارہ ماہ کیلئے بیرکوں میں جاناپڑا۔اس مختصرعرصے میں سخت بے چینی رہی،ایک پل بھی آرام سے نہ گزراجیساکہ عالم اسلام اورتیسری دنیاکی فوجوں کاوتیرہ ہے۔انہیں جب بھی مجبوری کی بناء پرایوان ہائے حکومت کوخیربادکہناپرتاہے توسول یامنتخب حکمرانوں کے خلاف سازشوں کے جال تیارکرتے انہیں ابھارنے اورعوام کوسڑکوں پرلانے کی خاطراپنی ریشہ دوانیاں جاری رکھتے ہیں۔
مصرکی فوج نے بھی یہ تکنیک پوری مہارت سے استعمال کی۔معاشرے میں اچھی خاصی تعدادمیں پائے جانے والے افرادکے ذریعے (محمدمرسی کے خلاف)دستخطوں کی زبردست مہم چلائی جنہوں نے آمریت کے طویل ماحول میں پرورش پائی ہے اورجمہوریت کے ساتھ نباہ کرنااوروہ بھی ایسی جمہوریت جس کامزاج اسلامی ہو،ان کیلئے سوہانِ روح ثابت ہوا۔ اس مہم کوچلانے میں مصری افواج کے نئے سربراہ السیسی کی شخصیت روحِ رواں کاکام دے رہی تھی جنہیں صدرمرسی نے سربراہ مملکت کاعہدہ سنبھالنے کے بعدانتہائی سنجیدہ غور وفکر کے بعداپناہم خیال سمجھ کرآرمی چیف کے عہدے کیلئے نامزدکیاتھا۔
جنرل السیسی کے میدانِ انتخاب میں اترنے سے پہلے بنیادی انسانی حقوق کی بحالی کیلئے مصربھرمیں السیسی مخالف تحریک برپاہوئی جوروزبروز شدت اختیارکرتی چلی گئی،دوسری جانب جلادالسیسی نے اپنے اقتدارکودوام بخشنے کیلئے دن رات ایک کردیئے۔قتل وغارت تومصرکی تاریخ میں بدنماداغ کی حیثیت سے قائم رہے گی مگرالسیسی نے ظلم مزیدکافیصلہ کرلیا اور خود کومنتخب صدرکی حیثیت سے ملک وقوم پرتھوپنے کافیصلہ کرلیا۔السیسی نے ۳۰جون ۲۰۱۳ء کے خونی انقلاب کے بعددرجنوں بارکہا:’’میں اقتدارنہیں چاہتا،میں صدارت کاامیدوارنہیں ہوں ،فوج سیاست میں ہرگزملوث نہیں ہوگی‘‘لیکن پھرہربدخوآمرکی طرح اس نے بھی عوام کے پرزوراصرارپرفوج کی سربراہی بھی اپنے رشتے دارکے سپردکرتے ہوئے وردی اتاری اورصدارتی امیدواربن بیٹھا۔السیسی کی انتخابی مہم شروع ہوتے ہی عوام کی طرف سے ایسی نفرت کااظہارکیاگیاکہ کوئی صاحبِ غیرت ہوتاتواس پورے کھیل کو ہمیشہ کیلئے خیربادکہہ دیتا۔ 
مشرقِ وسطیٰ کی سیاست پرگہری نظررکھنے والے ممتازدانشورعبدالغفارعزیزکے مطابق:عوام نے ایک ناگفتنی نعرہ ایجادکیاجس میں نفرت کی شدت بھی تھی اوراستہزاء کی انتہاء بھی، نعرہ یہ تھا:’’.......کومنتخب کرو‘‘(خالی جگہ پرایک غلیظ گالی نمالفظ تھاجومیں حذف کررہاہوں)تاہم یہ نعرہ اتنامعروف ہواکہ اس میں گالی نمالفظ نکال کربھی اگرکہیں صرف اتناہی لکھا ہو ’’......کومنتخب کرو‘‘تویہ بدنمالفظ خودہی سب کچھ سمجھاجاتا۔مصرکی آبادی ۸کروڑنفوس پرمشتمل ہے،اس کاایک مختصرحصہ بالخصوص مسیحی آبادی السیسی کابھرپورساتھ دے رہی تھی لیکن مصریوں کے علاوہ غیرمصری عوام نے بھی مذکورہ نعرہ ایک دوسرے سے شیئرکیا ۔عالمی اعدادوشمارکے مطابق ’’....کوووٹ دو‘‘کانعرہ سوشل میڈیاپر۹کروڑسے زائدافرادنے ارسال کیا۔انتخابی ڈرامے کوحقیقت ثابت کرنے کیلئے متعددصدارتی امیدوارمیدان میں اتارنے کیلئے کئی جتن کئے گئے لیکن جہاں صدرمحمدمرسی کے انتخاب کے وقت ۱۳/اہم قومی شخصیات میدان میں تھیں حالیہ انتخابی ڈرامے میں سوپاپڑبیلنے کے بعدبھی صرف ایک امیدوارمحمدبن صباحی کومیدان میں لایاجاسکا۔محمدبن صباحی گزشتہ اصل انتخاب بھی صدارتی امیدوارتھے اورانہیں بائیں بازو کاترجمان سمجھاجاتاتھا۔انہوں نے انتخاب کے دوسرے مرحلے میں بھی فوج کے امیدوارجنرل شفیق کی بھرپورمددکی تھی۔خودجنرل شفیق جو صدر حسنی مبارک کے زوال کے بعد سے آج تک ابوظہبی میں مقیم ہیں،کی طرف سے نہ صرف صدارتی امیدواربننے سے معذر ت کی گئی تھی بلکہ انہوں نے جنرل السیسی کی مخالفت کرتے ہوئے بیانات بھی دیئے۔ان کاکہناہے:’’اس شخص نے فوج کومتنازع بنادیاہے اورمیں ایسے انتخاب میں کیوں حصہ لوں کہ جس کے نتائج پہلے ہی سے معلوم ہوں‘‘۔
خودالسیسی نے بھی ایک ایسی انوکھی انتخابی مہم چلائی کہ خودمسلسل روپوش رہا،پوری مہم کے دوران میں ایک باربھی پرزوراصرارکرنے والے عوام کواپناروسیاہ چہرہ دکھانابھی مناسب نہ سمجھا ،ایک بھی ریلی،جلسے یااجتماع سے خطاب نہیں کیا،ہاں،ذرائع ابلاغ اوراشتہاربازی کے ذریعے سے ہرطرف دکھائی دیتارہا۔پوری انتخابی مہم کے دوران ایک ٹی وی چینل کے ذریعے اپنے دوپسندیدہ صحافیوں کوچارگھنٹے طویل انٹرویودیا۔صحافیوں کے اس جوڑے میں سے جب مرداینکرنے ذراساتیکھاسوال کرنے کی کوشش کی توجنرل السیسی ہتھے سے اکھڑ گئے ،کہنے لگے:’’میں تمہیں ہرسوال کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا‘‘۔
السیسی کے ۱۱ماہ کے دورِ اقتدارمیں دودرجن کے قریب صحافیوں کاقتل دیکھ لینے والایہ ’’چہیتا‘‘صحافی بھی فوراًچاپلوسی کے دائرے میں واپس آگیا۔السیسی کوعوام میں اپنی مقبولیت ہی کا ادراک نہیں،وہ یہ بھی جانتاہے کہ عافیت زیرزمین چھپے رہنے ہی میں ہے۔وہ خودیہ بیان دے چکاہے ’’مجھے انورسادات کی طرح قتل کیاجاسکتاہے‘‘مگرشائدبزدلی میں تکبرکی خصلت زیادہ ابھرآتی ہے جوموصوف فرماتے رہے ہیں:’’میں اخوان کوصفحۂ ہستی سے مٹادوں گا،میں انہیں جڑسے اکھاڑ پھینکوں گا‘‘۔
جنرل السیسی اورمصری فوج کی طرف سے حالیہ انتخابی مہم کے دوران عجیب وغریب شعبدے بھی سامنے آئے۔مقصدتو تھاالسیسی اورفوج کاتاثربہتربنانالیکن یہ بالآخرانہی پر اوندھے منہ آن پڑے۔ مثلاً کہاگیا:فوج کے تحقیقی یونٹ نے ایڈزاورہیپاٹائٹس سی کاعلاج دریافت کرلیاہے لیکن جب اس کی تفصیل سامنے آئی توایسامضحکہ خیزدعویٰ کرنے والے خودجھینپ کررہ گئے۔ عذابِ الٰہی کادرجہ رکھنے والی اس خوفناک بیماری کایہ علاج بتایاگیاکہ ’’بیمارکے کچھ خلئے حاصل کرکے،کباب میں رکھ کراسی بیمارکوکھلا دیئے جائیں توزیادہ سے زیادہ ۱۶روزمیں ایڈز/ہیپاٹائٹس سے نجات حاصل ہوجائے گی۔
ہرمسئلے کاحل فراہم کرنے والے مصرکے حیرت انگیزلال بجھکڑعرف جنرل السیسی نے بدسے بدترہوتے بجلی کے بحران کابھی یہ نادرحل دریافت کیاکہ پورے ملک سے پرانے بلب اور ٹیوب لائٹس تبدیل کرکے نئی لگادی جائیں گی۔صحافی نے یہ جملہ کسی قدرحیرت سے دہرایاتوجنرل صاحب گویاہوئے:’’یہ علمی باتیں ہیں صرف تجربے سے ہی سمجھ میں آسکتی ہیں‘‘۔اپنی انتخابی مہم میں السیسی نے اس عبقری علاج پرایک اوررداچڑھاتے ہوئے کہاکہ ۳کروڑ انرجی سیوربلب مفت تقسیم کئے ہیں۔ظاہر ہے کہ قومی مفادمیں اس کیلئے درکار کروڑوں ڈالرقومی خزانے ہی سے حاصل کئے گئے ہوں گے۔
انتخابی مہم ،قتل وغارت،خون کے دریاؤں،اقتدارکے فرعونی تصوراوراجتماعی شعورکامذاق اڑانے کی ’’کاوشوں‘‘کے دوران میں اپنے پیش رومصری فوجی صدورکی طرح جنرل السیسی بھی بھاری اکثریت سے صدر’’منتخب‘‘ہوگئے۔جنرل السیسی کی فریب دہی اورخودفریبی سے بھی بڑاسانحہ یہ ہے کہ جمہوریت اورحقوقِ انسانی کی علمبردارعالمی برادری بھی دھوکہ دہی میں دھوکہ بازوں کاہی ساتھ دیتی رہی۔وہی امریکی انتظامیہ جوتھائی لینڈکے فوجی انقلاب کی مذمت کرتے ہوئے مستردکررہی تھی ،جنرل السیسی کی تمامترقتل وغارت گری آنکھیں موندے اس کے فراڈ انتخابات کوعین اسی طرح شرفِ قبولیت بخش رہی تھی جس طرح اس کے کھونٹے پررقص کناں اس کے بچھڑے اسرائیل کے رہنماء جنرل السیسی کوہدیہ تبریک پیش کررہے ہیں اوروہ اس تبریک پرپھولانہیں سمارہا۔
جنرل السیسی نے انتخابات جیتنے کاڈرامہ اسٹیج کرلیامگرعالمی سطح پرمصرکے تازہ ترین انتخابی ڈھونگ کاشدیدمنفی ردعمل سامنے آرہاہے۔دنیابھرمیں جمہوریت کے فروغ کیلئے کام کرنے والی تنظیم ڈیموکریسی انٹرنیشنل نے توپورے انتخابی عمل پرہی سوال کھڑے کردیئے ہیں۔تنظیم کے صدرایرک بیجورفلونڈکاکہناہے کہ کس طرح جابرانہ ماحول میں انتخابات منعقد کرائے گئے اس کے پیش نظرانہیں کسی بھی طورپرجمہوری قرا نہیں دیا جاسکتا ۔تنظیم نے انتخابات کیلئے اپنے معائنہ کارروانہ کئے تھے۔اس کایہ بھی کہناہے کہ مخالفین کی آوازکو دبایا گیا۔انجمنوں کی آزادی سلب کی گئی اورکسی کوکھل کراپنی رائے ظاہرکرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
جنرل السیسی کی آگے کی راہ آسان نہیں۔مصرمیں بے پناہ مسائل ہیں،بیروزگاری،عدم مساوات اورکرپشن عروج پرہے،معیشت تباہ ہوچکی ہے۔اشیائے خوردونوش اورایندھن یعنی گیس اورپٹرول کی شدیدقلت ہے۔مصری معیشت میں اہم کرداراداکرنے والی سیاحت جاں بلب ہے۔گھریلو مجموعی پیداوارکی حالت بتدریج بدسے بدترہوتی جارہی ہے۔ ۲۰۰۸ء میں یہ ۲.۷تھی جوکم ہوتے ہوئے ۲۰۱۳ء میں محض ۸.۱رہ گئی۔زبوں حالی کااندازہ اس امرسے لگایاجاسکتاہے کہ غریب عوام کوکئی دہائیوں سے دی جانے والی سبسڈی جاری رکھنامحال ہوچکاہے اورسبسڈی میں ۳۰فیصدکمی پرغورکیاجارہاہے۔ عالمی پروگرام کی رپورٹ کے مطابق مصرکاہرچوتھاشخص خطِ غربت سے نیچے زندگی بسرکررہاہے۔داخلی سلامتی بھی ایک غیرنمائندہ اوربرخودغلط قسم کے فوجی آمرکیلئے لاینحل مسئلہ نظرآرہی ہے۔اب دیکھتے ہیں کہ اس فرعون السیسی کی معاونت کیلئے کتنے فراعین آگے بڑھتے ہیں۔یقین کامل ہے کہ اس ڈکٹیٹرالسیسی کواپنے صہیونی اوراستعماری حمائتیوں کے باوجودمصرہی میں عبرت بنادیاجائے گا۔
گزشتہ عہدگزرنے ہی میں نہیںآتا یہ حادثہ بھی لکھوں معجزوں کے خانے میں
جوردہوئے تھے جہاں میں کئی صدی پہلے وہ لوگ ہم پہ مسلط ہیں اس زمانے میں

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا