English   /   Kannada   /   Nawayathi

بابری مسجد رام کی جائے پیدائش پر تعمیر نہیں ہوئی تھی، ظفریاب جیلانی کی دلیل

share with us

نئی دہلی:24/ ستمبر 2019(فکروخبر/ذرائع) سپریم کورٹ میں ایودھیا تنازعہ کے 30 ویں دن کی سماعت کے دوران منگل کو مسلم فریق نے کہا کہ 1949 میں پتہ چلا کہ گربھ گرہ میں بھگوان کا نزول ہوا ہے، لیکن اس سے پہلے وہاں مورتی نہیں تھی۔ ساتھ ہی آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے وکیل ظفریاب جیلانی نے اپنے دلائل پیش کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اس عقیدے پر کوئی اعتراض نہیں ہے کہ بھگوان رام کا جنم ایودھیا میں ہوا تھا لیکن رام کا مقام پیدائش مسجد کے اندر نہیں تھا۔

واضح رہے کہ بابری مسجد مقدمہ کی سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران آج مسلم فریق کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ راجیو دھون نے اپنے دلائل پیش کیے۔ اس سے پہلے ہندو فریقین کی جانب سے نرموہی اکھاڑا اور ہندو مہاسبھا اپنے دلائل پیش کر چکے ہیں۔ منگل کے روز راجیو دھون کے دلائل مکمل ہونے کے بعد ظفریاب جیلانی نے اپنا موقف پیش کیا۔

ظفریاب جیلانی نے چیف جسٹس رنجن گوگوئی، جسٹس ایس اے بوڑبے، جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس ایس عبد النذیر کی آئینی بنچ کے سامنے اپنے دلائل پیش کیے۔ عدالت میں ظفریاب جیلانی نے کہا کہ جائے پیدائش پر ہندو فریق کا جو دعویٰ ہے اس کو لے کر عقیدہ تو ہے لیکن کوئی ثبوت نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عرضی گزاروں کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ کون کون سی کتابوں میں جائے پیدائش کے حوالہ سے ذکر کیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ رامچرت مانس اور رامائن میں کہیں بھی خصوصی طور پر رام کے جنم استھان کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

اس پر جسٹس بوڑبے نے سوال کیا کہ ایودھیا میں جنم استھان کو لے کر آپ کو اعتراض نہیں ہے، صرف جنم استھان کہاں ہے اس پر ہے؟ جیلانی نے جواب دیا، جی ہاں، اس کے بعد جسٹس بوڑبے نے پوچھا کہ آپ رام چبوترے کو جنم استھان مانتے ہیں؟ اس پر جیلانی نے ہاں میں جواب دیا۔ حالانکہ انہوں نے کہا کہ 1886 کے فیصلہ میں یہی کہا گیا ہے کہ چبوترا ہی جنم استھان ہے لیکن بعد میں ہندو فریق کی جانب سے اندرونی احاطہ اور گنبد پر دعوی کیا جانے لگا۔ ایک سوال کے جواب میں ظفریاب جیلانی نے کہا کہ بابر نے خالی پلاٹ پر مسجد تعمیر کرائی تھی۔

ادھر، سنی وقف بورڈ کے وکیل راجیو دھون نے سپریم کورٹ میں دلیل دی کہ افسانوی روایات کے مطابق پورے ایودھیا کو بھگوان رام کی جائے پیدائش سمجھا جاتا رہا ہے، لیکن اس کے بارے میں کوئی ایک خاص جگہ نہیں بتائی گئی ہے۔

انہوں نے ہندو فریق کے گواہ کی گواہی پڑھتے ہوئے کہا کہ لوگ رام چبوترے کے قریب لگی ریلنگ کی طرف جاتے تھے۔ مورتی گربھ گرہ میں کیسے گئی اس بارے میں اس کو معلوم نہیں ہے۔ دھون نے کہا کہ الہ آباد ہائی کورٹ کے جج سدھیر اگروال نے مانا تھا کہ رام چبوترے پر پوجا کی جاتی تھی۔ انہوں نے ہائی کورٹ کے ایک جج کے تبصرے کی مخالفت کی، جنہوں نے کہا کہ مسلمان وہاں پر اپنا قبضہ ثابت نہیں کر پائے تھے۔

دھون نے کہا کہ مسلمان وہاں پر نماز پڑھتے تھے، اس پر سوال اٹھایا جا رہا ہے۔ سال 1949 میں 22-23 دسمبر کی رات کو جس طرح سے مورتی کو رکھا گیا، وہ ہندو قوانین کے مطابق درست نہیں ہے۔ آج انہوں نے اپنی دلیل مکمل کر لی۔ انہوں نے 14 ویں روز اپنی دلیلیں پیش کی تھیں۔ اب مسلم فریق کی جانب سے ظفریاب جیلانی دلیل دے رہے ہیں۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا