English   /   Kannada   /   Nawayathi

​​​​​​​پاپولر فرنٹ آف انڈیا کی قومی مجلس عاملہ کا اجلاس

share with us

 

 

 

نئی دہلی:04ڈسمبر2018(فکروخبر/پریس ریلیز)پاپولر فرنٹ آف انڈیا کی قومی مجلس عاملہ کے اجلاس میں کسانوں کے قرض معافی اور فصلوں کی بہتر قیمت کے علاوہ دیگر مطالبات کے ساتھ ملک بھر میں ہو رہے مظاہروں کی حمایت کی بات کی گئی۔ 2015 کی ایک رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ ہندوستان میں ہر سال مالی بوجھ کی وجہ سے 15/ہزار سے زائد کسان خودکشی کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ 1995 سے لے کر 2010 تک کے اعدادوشمار کے مطابق ڈھائی لاکھ سے زائد کسانوں نے اس دوران خودکشی کی ہے۔ کسان ہندوستان کی زراعتی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود حکمراں جماعتیں ان کے مسائل پر کوئی توجہ نہیں دیتیں۔ لہٰذا حکومت کو چاہئے کہ وہ کارپوریٹ گھرانوں کے بجائے کسانوں کو ترجیح دینا شروع کریں۔ ایک حکومت جو کاروباریوں کے اَربوں روپئے کے قرض معاف کر سکتی ہے، وہ کسانوں کے مسائل کیوں حل نہیں کر سکتی؟ اجلاس میں پارلیمنٹ تک مارچ کرنے والی 200/ کسان تنظیموں کے مطالبات کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔

 

شہریت ترمیمی بل کو ترک کرو

پاپولر فرنٹ آف انڈیا کی قومی مجلس عاملہ کے اجلاس میں پاس کردہ قرارداد میں یہ کہا گیا کہ پارلیمنٹ میں زیر غور شہریت ترمیمی بل2016 مسلمانوں کے ساتھ کھلا امتیاز برتنے والا بل ہے اور اس طرح وہ دستور کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔ بل کے مطابق، افغانستان، بنگلہ دیش یا پاکستان سے آنے والے ہندو، سکھ، بدھ، جین، پارسی یا عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے غیرقانونی مہاجرین کو قید یا جلاوطن نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ وہ شہریت ایکٹ (1955) میں مذکور 11/سال کے بجائے محض 6/سال ہندوستان میں رہائش اختیار کرکے مستقل شہریت حاصل کر سکتے ہیں۔ گرچہ اس بل میں شہریت حاصل کرنے کی شرائط میں کافی حد تک آزادی اور اس کے عمل میں راحت دی گئی ہے، لیکن یہ اس لیے ناقابل قبول اور غیرمنصفانہ ہے کیونکہ اس میں شہریت کے حصول کے لیے مذہب کو بڑا عامل بتایا گیا ہے۔ اس قانون کے حامیوں کا یہ دعویٰ ہے کہ اس کا مقصد پڑوسی ممالک کی ستم زدہ اقلیتوں کو پناہ دینا ہے۔ یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیوں چند منتخب پڑوسی ممالک کی ان چنندہ مذہبی اقوام کو ہی یہ خصوصی رعایت دی جا رہی ہے، جبکہ کئی پڑوسی ممالک اور بھی ہیں جہاں لوگوں کو ستایا جا رہا ہے اور اس سے بدتر طریقے سے حقوق انسانی کی پامالی کی جا رہی ہے؟ مزید براں، سیاسی پناہ چاہنے والے ستم زدہ لوگوں کو عام طور پر پناہ گزین سمجھا جاتا ہے نہ کہ مہاجر، اور حالات معمول پر آنے کے بعد اُنہیں واپس اپنے وطن لوٹنا ہوتا ہے۔ بہرحال، یہ مجوزہ بل مسلمانوں کو چھوڑ کر دیگر تمام مذاہب کے لوگوں کو مستقل شہریت دینے کی بات کرتا ہے۔ جو دراصل فہرست میں مذکور ممالک کے غیرمسلم شہریوں کو ہندوستان میں آکر بسنے کی دعوت ہے۔ لہٰذا یہ سیکولرزم، سماجی انصاف اور حقوق انسانی کے آئینی اصولوں کے خلاف ہے۔ ہمارے جمہوری ملک کی مقننہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کوئی بل شہریت کے حصول کے لئے مذہب کو معیار قرار دے رہا ہے، لہٰذا یہ واضح طور پر ایک مسلم مخالف بل ہے۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے تمام ارکان سے ہم اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس بل کو کسی بھی صورت پاس نہ ہونے دیں۔

 

بابری مسجد دوبارہ تعمیر کرو

ایک دوسری قرارداد میں، پاپولر فرنٹ کی این ای سی نے لمبے وقت سے چلے آ رہے بابری مسجد کو دوبارہ اسی مقام پر تعمیر کرنے کے اپنے مطالبے کو دہرایا، جہاں 6/دسمبر 1992 کو سنگھ پریوار نے اسے منہدم کر دیا تھا۔ یہ انہدامی کاروائی ملک کے جمہوری نظام کے خلاف ایک جنگ کے مترادف تھی اور اسے روکنے میں ناکام رہے اہلکاروں نے ہمارے وطن کو ہی ناکام کر دیا تھا۔ انہدام کے بعد لگے زخم سے آج تک خون جاری ہے اور بابری مسجد کے ساتھ انصاف کو لے کر اب تک دھوکہ ہی دیا گیا ہے۔ اس شرمناک واقعہ کی 26ویں برسی پر، این ای سی کے اجلاس نے لوگوں کو بابری انہدام اور اس کی ازسرِنو تعمیر کے پیغام کو زیادہ سے زیادہ عام کرنے کی دعوت دی، کیونکہ یاد رکھنا سب سے بہتر دفاع ہوتا ہے۔

 

ایم محمد علی جناح

جنرل سکریٹری

پاپولر فرنٹ آف انڈیا

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا