English   /   Kannada   /   Nawayathi

برسراقتدار طبقہ کی بدعنوانی، لمحہ فکریہ

share with us


عارف عزیز(بھوپال)


* برسراقتدار طبقہ کی بدعنوانی ہمارے سماج کے لئے کسی لمحہ فکریہ سے کم نہیں، آزادی کے ۷۱ برسوں کے دوران آزاد ہندوستان مین جو معاشرہ وجود میں آیا ہے۔ اس میں رشوت ستانی اور اقربا پروری کا عروج سب سے زیادہ حکمرانوں کے وسیلہ سے ہوا ہے جنہوں نے آزادی کی جدوجہد میں اپنی قربانی کا بدلہ ہر جائز وناجائز طریقہ سے اقتدار کا فائدہ اٹھانے اور اس پر جمے رہنے کے لئے سرمایہ حاصل کرنا اور خرچ کرنا سمجھ لیا ہے، ۱۹۴۸ء میں آندھرا کے معروف سیاسی رہنما کو نڈاوینکٹیا نے گاندھی جی کو لکھا تھا کہ ان کی ریاست کے کانگریسی ارکان قانون ساز اپنے سیاسی وسماجی اثرات کا ناجائز فائدہ حاصل کرکے ذاتی منفعت کے حصول میں مصروف ہیں اس ضمن میں انہوں نے کئی سنسنی خیز انکشاف بھی کئے تھے کہ کیسی بے شرمی سے حق وانصاف کا خون کیا جارہا ہے اور نتیجہ میں حکومت کی بدنامی مول لی جارہی ہے لیکن اس مرض کا کوئی موثر علاج نہ اس وقت ممکن ہوسکا نہ آج اس پر توجہ دی جارہی ہے۔
ہندوستان کے پہلے صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجیندر پرشاد نے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کو ایک مکتوب کے ذریعہ بعض سیاست دانوں کی بدعنوانی کی طرف توجہ مبذول کرائی تھی، اپنی عمر کے آخری حصہ میں خود نہرو سیاست میں پھیلنے والی بدعنوانی سے کافی فکر مند تھے لیکن ان کے جانشینوں نے اس کے انسداد کی فکر کرنے کے بجائے اس کو ایک فن کا درجہ دے دیا اور یہ روگ بڑھتے بڑھتے کینسر کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ 
اگر پنڈت نہرو کے زمانہ میں منظر عام پر آنے والے وزیر دفاع کرشنا مینن کے جیپ اسکینڈل پر یا کلکتہ کے صنعت کار سراج الدین کی کمپنی سے سیاست دانوں کو دلالی کی رقم ادا کرنے کے معاملہ پر فوری وسخت کارروائی عمل میں آتی تو نہر وکے ہی زمانہ میں ان کے وزیر خانہ ٹی ٹی کرشنم چاری ، ہری داس مندڑا کو حکومت کی طرف سے ان کے شےئروں کی زیادہ رقم دلاکر سرکاری خزانہ کو ۱۶۰ کروڑ روپے کا نقصان پہونچانے کی ہرگز ہمت نہیں کرتے، نہ اندراگاندھی کے عہد میں ناگروالا بینک ریکٹ، انڈین آئل کارپوریشن کے ٹھیکوں میں سنجے گاندھی کے دوست ہریش جین کی ہیرا پھیری، مہاراشٹرکے وزیراعلیٰ انتولے سے متعلق ٹرسٹوں کے لئے ٹھیکیداروں سے رقم کی وصولی اور مدھیہ پردیش کا چرہٹ لاٹری اسکینڈل سامنے آتے۔
اس کے بعد بوفورس توپ سودے میں رشوت خوری راجیوگاندھی کے زمانہ کی دین ہے جبکہ بینک سیکورٹیز میں اربوں روپے کی بدعنوانی، شکر کی خرید میں دھاندلی اور حوالہ کا کاروبار کرنے والوں سے سیاست دانوں اور افسروں کو ۱۶۰ کروڑ روپے کی فراہمی تو ایسے معاملات ہیں جن کی تفتیش وسماعت برسوں تک جاری رہی اور بعض کی آج بھی ہورہی ہے ۔ اسی عرصہ میں کروڑوں روپے کا ایک اور ریکٹ سامنے آیا ہے۔ جس میں محکماتی افسران کے علاوہ اس وقت کی شہری ترقیات کی وزیر اور بعد کی ہماچل پردیش کی گورنر شیلا کول ملوث تھیں۔ یہ معاملہ حوالہ سے بھی بڑا بتایاگیا ہے کیونکہ اس میں دلی جیسے گراں شہر کے سرکاری مکانوں کے الاٹمنٹ اور قیمتی دوکانوں کی تقسیم میں غیرمعمولی بے ضابطگی برتی گئی اور اقرباپروری کا بھی خوب مظاہرہ ہوا۔
اس کے بعد واجپئی حکومت کے دوران سامنے آنے والے بدعنوانی کے معاملات میں پیاز کی درآمد وبرآمد اور وزارت دفاع سے متعلق معاملے قابل ذکر ہیں۔ جبکہ تہلکہ اسکینڈل نے پچھلے تمام گھوٹالوں کو مات کردیا۔ اب تک عوام جن باتوں کو کانوں سے سنا کرتے تھے، ٹیلی ویژن کے پردہ پر انہوں نے وہ ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے، اسی لئے پہلی مرتبہ معاملہ میں ماخوذ وزیر دفاع جارج فرنانڈیز بھارتیہ جنتاپارٹی کے صدربنگارو لکشمن اور سمتاپارٹی کی صدر جیا جیٹلی کو اپنے عہدوں سے مستعفی ہونا پڑا اور قومی جمہوری محاذ کی مرکزی حکومت کی ساکھ کو کافی نقصان پہونچا لیکن بعد میں تہلکہ اسکینڈل کا پردہ فاش کرنے والوں کو ہی عتاب کا شکار بنایاگیا ، فرانس سے رافیل طیاروں کے سودا کا جن بھی ان دنوں بوتل سے باہر ہے اور اس پر خوب سیاست ہورہی ہے۔
بدعنوانی کے مذکورہ واقعات جس تسلسل کے ساتھ پیش آرہے ہیں اور حکمراں اس میں پیش پیش ہیں ان کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے انصاف ، قانون اور مواخذہ صرف عوام کے لئے رہ گیا ہے حکمراں یا سیاست دانوں تک اس کی پہونچ نہیں ، ہمارے سیاسی رہنما عوام کو ایثار اور حب الوطنی کا سبق پڑھانے سے کبھی نہیں تھکتے اور ان کا سارا زور اس پر ہوتا ہے کہ ملک کے اجتماعی مفاد کو ہر قیمت پرمقدم رکھا جائے مگر خود اپنی ذات کے لئے ان کا عمل اس کے برخلاف ’’لوٹو کھاؤ اور ہاتھ نہ آؤ‘‘ ہوتا ہے اور وہ یہ فراموش کردیتے ہیں کہ ہندوستان نام کا کوئی ملک دنیا کے نقشہ میں موجود ہے جس کے مفاد کا انہیں خیال رکھنا چاہئے سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ رات دن سامنے آنے والے بدعنوانی کے ان معاملوں پر عوام نے بھی سوچنا چھوڑ دیا ہے۔ اور معمول کے مطابق ایک عمل سمجھ کر انہیں قبول کرلیا ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا