English   /   Kannada   /   Nawayathi

امریکااورسعودی عرب کی دوستی خطرے میں؟

share with us

سفارتی ذرائع کادعویٰ ہے کہ سعودی عرب کافیصلہ اتنااچانک اورشدیدتھاکہ امریکاسٹپٹاکررہ گیا ہے۔انہیں اس فیصلے سے زیادہ اس بات کاغصہ تھاکہ ان کی انٹیلی جنس سعودی فیصلے سے قبل ازوقت آگاہی حاصل کرنے میں ناکام کیوں رہی ۔ اقوام متحدہ کوامریکابہادرکی لونڈی کی حیثیت حاصل ہے۔’’گلف نیوز‘‘میں فرانسیسی میتھیو’’سعودی عرب کے طرزِ عمل پرامریکاکواپنے کردار پرنظرثانی کرنی ہوگی‘‘کے عنوان سے لکھتے ہیں:
’’اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی سعودی عرب کیلئے مخصوص نشست سے سعودی عرب کاانکاربہت سے سعودی سفارتکاروں کے نزدیک سعودی عرب کی طرف سے مشرقِ وسطیٰ میں موجود مسائل کے حل میں ناکامی پراشتعال اوربرہمی کااظہارہے۔اس ضمن میں (بعض تجزیہ نگاروں کے نزدیک)غلط بات یہ ہوئی ہے کہ سعودی عرب کی اپنی نشست سے انکارکے ذریعے سے عالمی برادری پرمشتمل اس ادارے میں عربوں کو اپنی آواز سے محروم کردیاگیاہے جواس وقت تک ایک نہائت ہی غلط صورتِحال ثابت ہوسکتی ہے جب تک ایساکوئی متبادل ادارہ وجودمیں نہ آجائے جوسعودی عرب اورخلیجی ممالک کے تمام خدشات کودور کرنے کیلئے مؤثرثابت ہو۔فی الحال توکوئی متبادل نظرنہیں آرہاکیونکہ اقوام متحدہ ابھی تک ایسے واحدادارے کی حیثیت سے موجودہے جہاں عالمی برادری اکٹھاہوکرخودکودرپیش مسائل ومعاملات کے متعلق بحث ومباحثہ کرسکتی ہے۔جی ۲۰،فرینڈزآف سیریااوردیگرمتعددکثیرالمقاصداداروں میں سعودی عرب کی مسلسل موجودگی عالمی برادری میں نہائت ہی مفیداضافہ ہے لیکن ان اداروں میں جہاں سعودی عرب کی موجودگی ضروری ہے ،اقوام متحدہ کوبھی اس کی تمام ترخامیوں اورنقائص کے باوجودشامل کرنا چاہئے‘‘۔
’’بلاشبہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل عشروں سے موجوداسرائیل فلسطین وکشمیرمسئلے حل کروانے میں مکمل طورپرناکام رہی ہے جس کے باعث عرب اورمسلم امہ میں اشتعال پھیل چکا ہے۔عربوں کومسلسل نظراندازکرنے کے احساس میں اس وقت مزیداضافہ ہوگیاجب امریکی صدراوبامانے شامی حکومت کی طرف سے کیمیائی ہتھیاراستعمال کرنے کے بعداپنی ’’ریڈلائن‘‘کونافذکرنے سے صاف انکارکردیا،نیزامریکانے وعدہ خلافی کرتے ہوئے شام کے خلاف فوجی کاروائی سے بھی اجتناب کیا‘‘۔
’’سعودی عرب کی طرف سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی نشست سے انکارکے باعث تنازع ایک نئی شکل اختیارکرچکاہے لیکن اقوام متحدہ کی طرف سے غیرفعالیت کے باعث سعودی عرب کی ناراضی میں مسلسل اضافہ ہورہاہے اوریہ ناراضگی اوراشتعال اس وقت نقطۂ عروج پرپہنچ گئی جب سعودی وزیرخارجہ شہزادہ سعودالفیصل نے جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے سے انکارکردیاکیونکہ انہیں اقوام متحدہ کی طرف سے شام کے خلاف کاروائی نہ کرنے پرمایوسی کاسامناکرناپڑا‘‘۔
اب ایسا معلوم ہوتاہے کہ سعودی عرب کے مطابق کہیںآزادعرب گروپ قائم کیاجائے اوروہ ان معاملات ومسائل کواپنے سامنے غورکیلئے رکھے کیونکہ عرب لیگ توپہلے ہی غیرمؤثرہوچکی ہے‘‘۔سعودی عرب کے اس اقدام پر اقوام متحدہ میں عرب لیگ کے سفیرنے کہا:ہمارے بہت عرصے سے بہت خواہش تھی کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے غیرمستقل ارکان میں عربوں کی نمائندگی ہونی چاہئے‘‘۔مختلف تجزیہ نگاروں کے نزدیک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے غیرمستقل ارکان میں عربوں کوبھی اپنے مؤقف کے اظہارکاموقع ملناچاہئے تاکہ عرب مفادات خاص طورپرعرب دنیاکیلئے تشویش کاباعث ہیں‘‘۔’’امریکی وزیرخارجہ جان کیری سعودی عرب کے ساتھ اپنی حکومت کی اس مشکل سے بخوبی آگاہ ہیں۔انہوں نے واضح طورپرسعودی عرب کی اس مایوسی کی حمائت کی جس کااسے امریکاکی طرف سے شام کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کے خلاف کاروائی نہ کرنے کے باعث سامناکرناپڑا۔بہرحال کیری نے اپنایہ مؤقف دہرایا کہ ان کی حکومت بدستورسعودی عرب کے ساتھ مل کرکام کرناچاہتی ہے اوردونوں ممالک کے درمیان حقیقی تعاون اب بھی موجودہے‘‘۔
دراصل سعودی ذمہ داران پریہ واضح ہوگیاکہ شام پرامریکی حملہ اس لئے نہیں روکاگیاتھاکہ امریکاروس کی دہمکی یااقوام متحدہ کی اجازت سے پریشان ہوگیاتھابلکہ اس کاسبب صرف اتناتھا کہ امریکاایران کے ساتھ بیک چینلزپررابطوں میں مصروف تھا۔گزشتہ ماہ اقوام متحدہ میں ایران کے نومنتخب صدرحسن روحانی اوراوبامہ کے درمیان ملاقات کے بعددونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آئی تھی۔
’’اس امرکاامکان نہیں کہ سعودی عرب امریکاکے اس مؤقف کے ساتھ اتفاق کرے گا،نیزاس وقت ضرورت ہے کہ امریکاکی طرف سے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں توازن لانے کیلئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں۔حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب نے اب دنیاکی دوبڑی طاقتوں،اقوام متحدہ اورامریکاکے متعلق زیادہ گہری نظرسے جائزہ لیناشروع کردیاہے‘‘۔
فرانسس میتھیوکے اظہارِخیال کالب لباب یہ ہے کہ عالمی برادری کواب عربوں کی پکارسننی چاہئے۔سعودی عرب نے جرأت کامظاہرہ کیا۔’’ریڈف ڈاٹ کام‘‘نے اپنے تجزیہ میں اس سوال جائزہ لیاہے کہ سعودی اوباماسے کیوں خوش نہیں۔ممتاز قلمکارایم کے بھدراکمارنے لکھاہے:سعودی عرب کے وزیرخارجہ سعودالفیصل نے وزارتی فورم’’فرینڈزآف سیریا‘‘کے اجلاس کوشام کے کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق امریکااورروس کے مشترکہ اقدام پرحملے کیلئے استعمال کیا۔ان کازوراس بات پرتھاکہ روس اورامریکاکے مشترکہ اقدام کو اقوام متحدہ کے منشورکے باب نمبر۷کے تحت سلامتی کونسل کی قراردادکاسہارادیاجاناچاہئے تھاتاکہ کیمیائی ہتھیار تلف یاعالمی برادری کے حوالے کرنے سے بشارالاسدانتظامیہ پر دباؤ میں اضافہ ہوتا۔ان کایہ بھی استدلال تھاکہ بظاہربشارالاسد امریکااورروس کے مشترکہ اقدام کواپنے حق میں استعمال کرتے ہوئے وقت لے رہاہے جس کے نتیجے میں ریاستی مشینری کومنحرفین کے خلاف مزیدکاروائیوں اوران کامزیدخون بہانے کاموقع مل جائے گا‘‘۔
’’وزیرخارجہ سعودالفیصل نے جنیواپروسیس کے ذریعے سے بشارالاسدانتظامیہ کوجائزحیثیت دلانے کی کوشش سے بھی خبردارکیا،انہوں نے اس نکتے پرزوردیاکہ شام میں حکومت کے جبرکے خلاف سینۂ سپرہونے والوں کومزیدسیاسی،معاشی اورعسکری امدادفراہم کی جائے تاکہ وہ مضبوط ہوکربشارالاسد کوسیاسی حل کی طرف جانے پرمجبورکرسکیں۔امریکااور روس نے شام کے کیمیائی ہتھیاروں سے نمٹنے کے معاملے میں جورویہ اپنایاہے ،اس سے سعودی عرب ناراض ہے۔دوسری طرف سعودی قیادت اس بات پربھی برہم دکھائی دیتی ہے کہ اوباماایران کے معاملے میں کچھ زیادہ ہی جذباتی رویہ اپنارہے ہیں اوراس سے تعلقات بہتربنانے میں خاصے آگے جارہے ہیں۔اس صورتحال میں یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ سعودی عرب شام میں ریاستی مشینری کے خلاف نبردآزماہونے والوں کی مددکرے گااوراس معاملے میں ممکنہ طورپراعتدال پسندوں اورشدت پسندوں کے درمیان فرق کرنے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کرے گا۔ایسے میں سوچاجاسکتاہے کہ شام میں حال ہی میں قائم ہونے والے اسلامک الائنس کو سعودی حکومت کی حمائت اورمددحاصل رہی ہوگی۔ترکی کے بارے میں کہاجاتاہے کہ وہ شام کے کردوں کوکمزوررکھنے والے گروپوں کوبھرپورمعاونت فراہم کرتاہے۔‘‘
سعودی عرب لے سرکاری اخبار’’الشرق الاوسط‘‘میں العربیہ ٹی وی کے جنرل منیجرعبدالرحمٰن الراشدکاایک مضمون شائع ہواہے جس مین اوباماانتظامیہ پرشدیدنکتہ چینی کی گئی ہے۔ انہوں نے لکھاہے کہ اگراوبامانے ایرانی صدرحسن روحانی کی مسکراہٹ اورایرانی قیادت کے میٹھے الفاظ پربھروسہ کرلیاتووہ ایک ایسی غلطی کے مرتکب ہوں گے جس کاازالہ کسی بھی طورپرممکن نہیں ہوگا۔ایسالگتاہے کہ حالات اورواقعات نے سعودی عرب کوحیرت زدہ کردیاہے۔انہیں شائد یہ یقین نہیں تھاکہ شام کے معاملے میں امریکااورروس ایک ہوجائیں گے یعنی اختلافات بھلاکرمشترکہ اقدام تک پہنچ جائیں گے۔دوسری طرف سعودی قیادت کوایران کے معاملے میں امریکی صدرکی غیرمعمولی بے تابی سے بھی پریشانی اورحیرت ہے۔اس نے سوچانہیں تھاکہ امریکااورایران کے صدوریوں براہِ راست رابطے تک پہنچ جائیں گے‘‘۔
’’سعودی عرب کی قیادت امریکاسے غیرمعمولی تعلقات کی حامل ہے اوراس امرکاامکان خاصاقوی ہے کہ وہ دباؤڈال کراوباماانتظامیہ کوایران سے تعلقات خوشگواربنانے سے باز رکھنے کی پوری کوشش کرے گی مگرکیاایسی کوئی بھی کوشش کامیابی سے ہمکنارہوسکے گی؟امریکی صدربخوبی جانتے ہیں کہ اس نوعیت کے کسی بھی دباؤسے کس طرح نمٹاجاسکتاہے۔ ماہرین اورمبصرین کاخیال یہی ہے کہ ایران کے مسئلے پر سعودی عرب کی طرف سے پڑنے والے دباؤ کواوباماخوش اسلوبی سے ختم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔اس وقت انہیں سعودی عرب سے زیادہ اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہوکورام کرنے کی فکرلاحق ہوگی‘‘۔
’’ایران کی طرف دوستی کاہاتھ بڑھاکراوبامانے ایسا قدم اٹھایاہے جوآگے چل کرامریکاکیلئے زیادہ سودمندثابت ہوگا۔انہیں اچھی طرح اندازہ ہے کہ اگرمشرقِ وسطیٰ میں امریکاکواپنی موجودگی کامعیاربہتربناناہے اورنئے سرے سے اچھی ابتداء کرنی ہے توایران سے تعلقات بہتربنائے بغیرچارہ نہیں مگرخیر،امریکاکیلئے سعودی عرب کونظراندازکرنابھی آسان اورممکن نہیں۔ادھرسعوی انٹیلی جنس کے سربراہ اورسابقہ سفیر برائے امریکابندربن سلطان نے یورپی سفارتکاروں سے خطاب کرتے ہوئے دوٹوک اعلان کردیاکہ سعودی عرب امریکاسے اپنے راستے جداکررہاہے۔اب مزیدکوئی تعان نہیں کیاجائے گا۔اگرامریکاکوئی دوسراراستہ اختیارکرتاہے توسعودیہ کے پاس بھی تمام آپشن کھلے ہیں۔امریکی معیشت میں سعودی بینکوں کا۶۹۰/ارب ڈالرکاسرمایہ موجودہے۔اس سوال پرکہ امریکاسے سرمایہ نکالاجاسکتاہے؟ان کاکہناتھاکہ یہ تووقت بتائے گالیکن ہم کوئی بھی آپشن استعمال کرسکتے ہیں۔اگرامریکی پالیسیاں موافق نہیں رہتی تووہ یقینی طورپرسرمایہ کاری ختم کرنے کے بارے میں سوچ سکتاہے‘‘۔لیکن اس وقت سوال یہ ہے کہ اس موقع پر عربوں کوکیساطرزِ عمل اختیارکرناچاہئے؟
’’شام میں سعودی عرب جوکچھ بھی کرناچاہتاہے اس سے امریکاکویقیناًکچھ خاص غرض نہیں ہوگی ،وہ ممکنہ طورپرآنکھیں موندسکتاہے ۔شام میں امریکاکاکچھ بھی داؤ پرنہیں اورویسے بھی خانہ جنگی کے نتیجے میںیہ ملک اس قدرکمزورہوچکاہے کہ اب اس سے اسرائیل کوکوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔اگرشام میں سلفی عسکریت پسندوں نے سعودی عرب کی مددسے لڑتے ہوئے روسیوں کے خلاف محاذکھولاتوامریکامنحرفین کے حوالے سے روس سے بدلہ لینے کی خاطرخاموش یاغیرجانبداررہے گا۔سعودی حکومت نے شمالی روس سے تعلق رکھنے والے بہت سے سلفی عسکریت پسندوں کوشام میں حکومت کے خلاف لڑنے کیلئے بھرتی کررکھاہے‘‘۔
اب سوال یہ ہے کہ ان حالات میں ایران کی حکمت عملی کیاہے؟اس میں توکوئی شک نہیں کہ ان تمام معاملات کوایرا ن صرف اپنے مفادکے نقطہ نظرسے دیکھ رہاہوگا۔ایرانی قیادت مغرب سے تعلقات بہتربناکربہت کچھ حاصل کرناچاہتی ہے۔ایران نے اپنی سوچ کوکبھی مجروح نہیں ہونے دیا،وہ اب بھی چاہتاہے کہ عالمی سطح پرکوئی اہم کرداراداکرے۔ بہر حال ایران کسی بھی حالت میں سعودی عرب سے کمترحصہ لینے پرراضی نہ ہوگا۔وہ اپنی تہذیب کی طرح اپنے معاشرے کوبھی سعودی عرب سے برترسمجھتاہے۔سعودی عرب کی پریشانی کاسبب کچھ اورہے۔اہم سوال یہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں کسی بھی نئے سیٹ اپ کاقیام سعودی عرب کوکہاں چھوڑے گا؟امریکانے اسے اب تک(خالصتاً اپنی ا غراض و مفاد کی خاطر)اپنے حلیفوں کی پہلی صف میں رکھاہے۔سعودی شاہی خاندان اب تک اقتدارمیں ہے توصرف اس لئے کہ اس کی پشت پرامریکاموجودہے۔اب اگرامریکانے ہاتھ کھینچ لیاتوکیاہوگا؟’’الشرق الاوسط‘‘کے جس مضمون کاسطوربالا میں حوالہ دیاگیاہے اس میں مصرکی صورتحال کے حوالے سے اوباماکی سوچ کابھی تجزیہ کیاگیاہے۔قابل ذکربات یہ ہے کہ عرب دنیامیں عوامی شعورکی بیداری کے حوالے سے ایران اورامریکاکے خیالات اورمؤقف میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔
یہ وہ حقائق ہیں جومشرقِ وسطیٰ میں امریکاکے عرب ساتھیوں کیلئے اپنے اندرغوروفکرکاسامان رکھتے ہیں۔امریکاعربوں کادوست ہوسکتاہے نہ مسلمانوں کا،اب عربوں اورمسلمانوں پریہ اصل صورتحال منکشف ہوتی جارہی ہے۔اولاً اسی بناء پرکہ امریکاکی خودغرضانہ حکمت عملی اوراستعماری چالیں اب خودامریکی ذرائع ابلاغ بے نقاب کررہے ہیں۔ثانیاًامریکی استعمارکے صہیونیت کے شکنجے میں جکڑے ہونے کی حیثیت بھی روزِ روشن کی طرح واضح ہورہی ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا