English   /   Kannada   /   Nawayathi

یہ آخری موقع ہوسکتا ہے

share with us

دلتوں پر مظالم کے واقعات نئے نہیں ہیں، اس سے قبل زیادہ لرزہ خیر اور زیادہ بھیانک ظلم وستم ہوتے رہے ہیں۔ ان کی عورتوں کو طاقتور لوگوں نے ہمیشہ مال غنیمت سمجھا اور بچوں کو غلام، لڑکیاں دیوداسی بن کر 146سما ج سیوا145 کرتی رہیں۔ کیا یہ سمجھا جائے کہ امبیڈکر اور دیگر لیڈروں کی مسلسل جدوجہد اب برگ وبار لارہی ہے؟ ہندو سماج کی اکثریت ان کے ہی دم سے ہے، جنہیںاسفل ترین سمجھا جاتا ہے۔ تو کیا انہوں نے مزید بے وقوف بننے سے انکار کردیا ہے؟ ان کے دل میں یہ سوال گھر کر نے لگے ہیںکہ اگر ہندوہیں تو دیگر طبقات کی طرح حقوق کیوں نہیں دئے جاتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہندوتو کے مستقبل کیلئے بھی ان کی انگڑائی چیلنج بن گئی ہے۔ اب وہ منافقت چھوڑکر کوئی ایک راستہ اختیا کریں، امبیڈکر کا بنایا قانون یا مہرشی منوکی تخلیق کردہ منواسمرتی پر مبنی سماجی نظام۔ کیوںکہ ان دونوں میں توازن قائم کرنے اور اس کا عملی ثبوت دینے میں لاحق پریشانیوں سے نمٹنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا، آخر کیوں؟ اب ان سوالوں کا جواب چاہئے کہ اس کے مندر جا نے پر پابندی کیوں ہے؟ وہ پنڈت کیوں نہیں بن سکتا؟ وہ دوسروں کو گناہوں کے پرائشچت کا راستہ کیوں نہیں دکھا سکتا؟ عالیشان مندر کیوں نہیں تعمیر کرسکتا؟ وہ ایک ہی برتن میں پنڈت کے ساتھ بیٹھ کر کیوں نہیں کھاسکتا؟ وہی مردہ گائے کی چمڑی کیوں نکالے؟ یہ اعلیٰ اور ادنیٰ ذات کس کی پیداکردہ ہے؟ وہ انسانوں جیسی خصوصیات رکھنے کے باوجود امتیازی سلوک اورچھواچھوت کا شکار کیوں ہے؟ دلتوں کی نئی نسل ہندوسماج سے ایسے سوالوں کا جواب مانگ رہی ہے اور وہ گھبرا رہا ہے۔ یہ گجرات ہی نہیں، مہاراشٹر بھی متاثر ہے۔ یہ وائرس یوپی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ہندوستان کے اصل شہری جن کو آرین حملہ آوروں نے جنگلوں میں دھکیل دیا تھایا شیڈول کاسٹ کا درجہ دے کر غلام بنالیا تھا، انگڑائی لے رہے ہیں۔ دیکھنا ہوگا کہ مزاحمت کیا شکل اختیار کرتی ہے۔ آگے چل کر ہندوتو نظام کو الٹ پلٹ دے گی یا بلبلہ ثابت ہوگی۔ حوصلے جوان رہیں گے یا سازشیںکا میاب ہوں گی اور اس لڑائی میں مسلمانوں کا کیا رول ہونا چاہئے کیوں کہ جن سے مقابلہ ہے وہ تمام مطلوبہ وسائل سے لیس ہیں، اقتدار پر قابض ہیں، قانون ان کی لونڈی ہے اور انتظامیہ ان کے آگے پا نی بھرتا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ یہ تحریک منواسمرتی کے سماجی نظام سے بغاوت ہے جس پر ہندوتو ٹکا ہوا ہے۔ جارح، نسلی غرور و تکبر سے عبارت ہندوتو اس بغاوت سے کس طرح نمٹتا ہے، اس پر مستقبل کی سیاست کا دار و مدار ہے، یہی وجہ ہے کہ اترپردیش میں مایاوتی کے خلاف تمام طاقتیں ایک پلیٹ فارم پر آگئی ہیں، کیونکہ اترپردیش دلتوں کی سماجی انقلابی تحریک کا سب سے مضبوط اور آخری گڑھ ہے۔ اگر یہاں دلت تحریک کو شکست فاش ہوجاتی ہے تو یہ صرف دلتوں کا ہی نقصان نہیں ہوگا۔ ان تمام مظلوم طبقات کی ہار ہوگی جو کسی نہ کسی انداز میں ہندوتو یا برہمنی نظام کے ظلم و تشدد کا شکار ہیں۔ بی جے پی کی دلچسپی اترپردیش جیتنے میں نہیں بلکہ دلت فورس کو میدان سے باہر کرنے میں ہے۔ اترپردیش کا الیکشن صرف حکومت کی تبدیلی اور اقتدار کی منتقلی کا نہیں یہ ہندوتو بمقابلہ دلت آندولن ہے۔ آر ایس ایس 2025 میں صدسالہ جشن اس طور سے منانا چاہتا ہے کہ ہندوستان پوری طرح اس کی مٹھی میں ہو اور وہ ہندوتو کے سماجی نظام کی بنیاد پر ملک کو چلاسکے۔ اس لئے بی جے پی بار بار عوام سے دس سال مانگتی ہے، کیونکہ اس منصوبہ کی تکمیل صرف پانچ سال میں ہونا ممکن نہیں ہے۔ آخر امت شاہ اور دیگر بی جے پی لیڈر اور سماجوادی پارٹی کے رہنما کیوں کہنے لگے کہ ہمارا مقابلہ ایک دوسرے سے ہے، بی ایس پی میں بھگدڑ کا ماحول کیوں بنایا جارہا ہے۔ مایاوتی پر حملے تیز کیوں کردیے گئے؟ آخر دلت لیڈروں کی مبینہ بدعنوانیوں کی تشہیر کیوں کی جاتی ہے؟ دیگر پارٹیوں کے لیڈروں کے کالے کارناموں کو کیوں نہیں اچھالا جاتا؟ جب بھی سماجی نظام میں پائی جانے والی عدم مساوات کے خلاف آواز اٹھی اس کو طاقت یا مراعات کے لالچ سے دبا دیا گیا۔ ننگے بھوکے لوگ بساط بھر مزاحمت کرتے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بدعنوانی اعلیٰ طبقات میں زیادہ پائی جاتی ہے، مگر ان کا تذکرہ نہیں کیا جاتا۔ ذاکر نائک کی فنڈنگ کی جانچ تمام ایجنسیاں کرتی ہیں اور وجے مالیا ہزاروں کروڑ لے کر ملک سے بھاگ جاتا ہے، کسی کے ماتھے پر شکن نہیں آتی۔ آزادی کے بعد دو طاقتور تحریکیں اٹھیں، جے پرکاش نرائن اور وی پی سنگھ نے ان کی قیادت کی مگر کیا حشر ہوا۔ کانگریس اور بی جے پی نے ان کے تارو پود بکھیر دیے۔ کیجریوال سامنے آیا تو دونوں پارٹیاں اس کے خلاف ایک آواز ہوگئیں۔ کانشی رام نے یوپی میں دلت مسلم اتحاد کا بے حد کامیاب تجربہ کیا، اس میں او بی سی کو بھی شامل کیا، مگر اسے بھی سازشوں کے ذریعہ ناکام کردیا گیا۔ کوئی بھی مزاحمتی تحریک برہمنی نظام برداشت ہی نہیں کرسکتا۔ یہ چار فیصد طبقہ ملک کے تمام وسائل پر قابض ہے۔ یہ بہرحال اس کی صلاحیتوں، جدوجہد اور ذہانت کے سبب ہے جو اوبی سی کو تو برداشت کرسکتا ہے، کیونکہ وہ پھر بھی منواسمرتی کے مطابق عزت دار زمرہ ہے، لیکن دلت کو ہرگز سر پر نہیں بٹھاسکتا۔ سیاسی و جمہوری نظام اور آئین نے بھلے ہی مساوی اختیارات دیے ہوں مگر اسے دل سے قبول نہیں کیا گیا۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دوسرے مظلوم طبقہ یعنی مسلمانوں کے ساتھ ان کا رویہ ایسا کیوں ہے جو ہندو دھرم کو ماننے والوں کو گلے نہیں لگاسکا۔ انھیں اپنے برابر کھڑا رہنے کا حق دینے کو تیار نہیں، صرف ہندو دھرم سے جڑے رہنے کے لئے آئینی مراعات کا راستہ کھولا گیا ہے۔ وہ آخر مسلمانوں کے لئے دل میں جگہ کیسے دے سکتا ہے۔ یہ بھلے ہی مٹھی بھر ہے مگر ملک اس کی مٹھی میں ہے۔

جیسا کہ اوپر ذکر آیا ہے کہ اترپردیش میں آئیڈیالوجی کی لڑائی ہے، جس میں او بی سی کو ایندھن کے طور پر استعمال کیا جائے گا اور مسلمانوں کے ووٹوں کو ہر سطح پر منتشر کیا جائے گا۔ بی ایس پی کی طرف مسلمانوں کے جھکائو نے ان کی پیشانی پر بل ڈال دیا ہے۔ میڈیا کے ذریعہ سروے کرکے بتایا جارہا ہے کہ ایس پی سب سے زیادہ سیٹیں لے کر آئے گی اور بی ایس پی تیسرے نمبر پر رہے گی۔ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ 22 فیصد دلت اور 19.6 فیصد مسلمان ایک جگہ آگئے تو پھر نتیجہ کیا ہوگا۔ بی جے پی کسی قیمت پر یہ نہیں ہونے دے گی۔ اس لئے ایک طرف سماجوادی پارٹی کے غبارے میں ہوا بھرنی شروع کردی تو دوسری طرف غیرمعروف ایک دو آدمیوں کی مسلم پارٹیاں اچانک متحرک ہوگئی ہیں جن کے پاس نہ کارکن ہیں نہ پیسہ، مگر وہ تمام سیٹوں پر امیدوار اتارنے کا دم خم رکھتے ہیں۔ ایک مسلم پارٹی کے لیڈر تو خود کو وزیر اعلیٰ بھی کہلانے لگے، اویسی کی پارٹی کس کا کھیل بگاڑے گی اور اپنا کتنا فائدہ کرے گی، مسلمانوں کو کیا فیض پہنچے گا، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔ ملائم سنگھ کو مسلمانوں کے لئے خدا کا انعام سمجھنے والے کیا ان سازشوں کو سمجھ رہے ہیں۔ دلت تحریک کی ہار میں مسلمانوں کی بھی شکست ہے۔ کیا ہم انھیں ڈھال کی طرح استعمال کرسکتے ہیں۔ بی جے پی کی نظر 2017 پر نہیں 2019 پر ہے۔ مظلوم ہی مظلوم کا فطری اتحادی ہوسکتا ہے۔ ہماری لیڈرشپ نے ہمیشہ ظالموں اور قاتلوں کو اتحادی بنایا، اس لئے جو انجام ہوا اس پر حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ یہ آخری موقع ہوسکتا ہے، وقت برف کی طرح گھل رہا ہے، ہمارے لیڈروں کو زیادہ وسیع نظر سے اور دور تک سوچنے کی عادت ڈالنی ہوگی۔ جماعتی و ذاتی مفادات کو ایک بار مسلمانوں کے مفادات کے تابع کردیں تو پوری ملت اس احسان عظیم کو بھلا نہیں سکے گی۔ بی جے پی کی اترپردیش میں نئی سیاسی قوالی میں تالی بجانے والوں کی تلاش ہے۔ سوال کسی کی مخالفت یا حمایت کا نہیں، زندہ رہنے کا ہے۔ دلت مسلم اتحاد کی کسی شکل پر کیا ہم کچھ سوچ رہے ہیں!

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا