English   /   Kannada   /   Nawayathi

انہیں جینے کیوں نہیں دیتے...؟

share with us

اس امید اور آس پر کہ آج نہیں تو کل اس کی محنت اور قربانیوں کا صلہ ملے گا‘ بیٹا اعلیٰ تعلیم حاصل کرے گا تو اچھی نوکری ملے گی‘ اچھا وقت آئے گا تو گزرے ہوئے وقت کی تکلیف کا احساس محض یاد بن کر رہ جائے گا۔ یہ ماں بیٹی کپڑوں کی سلائی کرتی ہیں‘ بیٹی نے ایک ٹیلرنگ شاپ بھی کھول لی ہے اور ماں نے ایک اسکول کے قریب چھوٹی سے دکان جس میں چاکلیٹ‘ بسکٹ اور بچوں کی پسند کی چیزیں ہیں مل جاتی ہیں.... بہر حال دن رات کی محنت سے ان کی گزر بس ہوجاتی ہے... مگر کچھ عناصر نے ان کا جینا حرام کرکے رکھدیا ہے۔ کسی نہ کسی بہانے سے ستایا جاتا ہے۔ کبھی دکان کا مالک انہیں دکان خالی کرنے کے لئے دباؤ ڈالتا ہے تو کبھی ماں بیٹی کی مجبوری اور ذمہ دار مرد حضرات نہ ہونے کی وجہ سے اڑوس پڑوس کے دکاندار بہتان طرازی کرکے انہیں بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرہ میں انسان کی نیکیاں‘ اچھائیاں اس کے مرنے کے بعد منظر عام پر آتی ہیں اور کسی میں برائی نہ بھی تو اس کی بدنامی کے لئے زیادہ وقت نہیں لگتا... ہم غیبت‘ افواہوں کو پھیلانے ‘ دوسرے کے عیوب پر نظر رکھنے اور انہیں دوسروں تک پہنچانے کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں۔ بہر حال ان ماں بیٹی کے بارے میں آج میں یہ سطور محض اس لئے لکھ رہا ہوں کہ ان کے بارے میں میری بیوی نے مجھے بتایا جو ان سے بہت اچھی طرح واقف ہیں۔ ورنہ میں نے آج تک ان دو میں سے کسی سے کبھی بات بھی نہیں کی۔ میری بیوی نے ان ماں بیٹی کے حالات اور انہیں درپیش مسائل کا ذکر کیا... اور ان کا یہ سوال واجبی ہی نہیں فکر انگیز ہے کہ آخر ہم کسی مصیبت زدہ کی مدد نہیں کرسکتے تو اسے اپنے بل بوتے پر جینے بھی کیوں نہیں دیتے۔ عزت‘ وقار اور شرافت سے ماں بیٹی گھر گھر کے کپڑے سی کر‘ چھوٹی سی دکان چلاکر اپنا گزر بسر کررہی ہیں تو آخر دوسروں کی آنکھوں میں کیوں کھٹک رہی ہیں۔ کسی پر الزام نہیں بہتان طرازی کرتے ہوئے ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ایسے ہی دور سے کبھی ہماری ماؤں اور بہنوں کو بھی گزرنا پڑسکتا ہے۔ معلوم ہوا کہ اس مصیبت زدہ بیوہ خاتون کو دکان خالی کروانے کے لئے مجبور کرنے کی غرض سے مالک دکان نے بجلی کا کنکشن تک ختم کروادیا۔ ہماری اطلاعات کے مطابق جب مقامی ایم ایل اے احمد بلعلہ سے نمائندگی کی گئی تو انہوں نے انسانیت نوازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس خاتون کی دکان میں اپنی جانب سے الکٹرسٹی میٹر نصب کروادینے کا تیقن بھی دیا اور اپنے متعلقہ افرادکو ہدایت بھی دی‘ اس کے باوجود ستائے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ تو ایک مثال ہے... ہمارے معاشرہ میں ایسی ان گنت خواتین ہیں جن کی بے بسی‘ مجبوری کا استحصال ہوتا ہے۔ جو شریف خواتین ہوتی ہیں وہ حالات کا مقابلہ کرتی ہیں‘ جو کمزور پڑجاتی ہیں وہ کبھی کبھار دوسرے راستے پر چل پڑتی ہیں۔ ہمارے سماج میں صرف ان مردوں کو سزا ملتی ہے جو پکڑے جاتے ہیں یا ان کا مقابلہ ان سے کہیں زیادہ طاقتور سے ہوجاتا ہے۔ انہیں کوئی سزا نہیں ملتی جو کبھی اپنی ہوسناک نظروں سے کبھی اپنے آوارہ فقروں سے خواتین کی کردار کشی کرتے ہیں۔ جو ہر مجبور‘ بے بس‘ بے سہارا لڑکی یا خواتین کو اپنی ملکیت سمجھتے ہیں اور جب یہ ان کی خام خیالی ثابت ہوتی ہے تو وہ اپنی خفت مٹانے یا چھپانے کے لئے الزام تراشی کرتے ہیں۔ اور اپنی ناکامی کو ان خواتین کی بدنامی میں چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اکثر و بیشتر سفید پوش حضرات ہی ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کی بیویاں حقائق سے واقف ہونے کے باوجود اس کی پردہ پوشی محض اس لئے کرتی ہیں کہ ان کے اپنے خاندان بکھرنے نہ پائیں... اکثر گھریلو خادماؤں کی یک بعد دیگرے تبدیلی‘ چوری کے الزامات‘ اس سلسلہ کی کڑی ہوتی ہیں۔
پبلک سکٹر ہو یا پرائیویٹ سکٹر ‘ اسکول کالج ہو یا کوئی مدرسہ یہاں خدمات انجام دینے والی لڑکیوں اور خواتین کے دل سے پوچھئے کہ گھر سے نکل کر ملازمت کی جگہ جانے اور پھر واپس گھر آنے تک کتنی ہوسناک نگاہوں سے وہ جھلستی رہتی ہیں‘ کیسے کیسے شریف حضرات کبھی علی الاعلان تو کبھی دوسروں کی نظریں بچاکر ان پر نظر رکھتے ہیں۔
برسوں پہلے آندھراپردیش کے ریاستی وزیر جناب بشیر الدین بابو خان مرحوم کے ساتھ ہم نے بھیک مانگنے والی جوان مسلم خواتین سے ان کے مسائل سے واقفیت کی غرض سے انٹرویو لئے تھے جنہوں نے بتایا تھا کہ کسی کا گھر ہو یا کوئی کارخانہ یا دکان وہاں کے مردوں کی ’’گندی گندی‘‘ میلی میلی آنکھیں انہیں گھورتی رہتی ہیں وہ اشاروں اشاروں میں گناہ کی دعوت بھی دیتے ہیں۔ ان گھروں کی مالک عورتیں اپنے شوہروں پر نظر رکھنے کی بجائے ہم پر شک کرتی ہیں۔ عزت گنوا کر زندگی گزارنے سے بہتر ہے کہ بھیک مانگ کر گزارا کرلیا جائے۔ اور ہاں بھیک مانگنے والی عورتیں بھی کیا سفید پوش لوگوں کے سیاہ کرتوت سے محفوظ رہ پاتی ہیں۔ یہ سوال کبھی ہم بھی اپنے آپ سے کرلیں۔ 
ہم اصلاح معاشرہ کی تحریکات چلاتے ہیں‘ مختلف برائیوں سے خود کو بچانے کے راستے بتاتے ہیں‘ خطبات‘ مواعظ اور تقاریر کے ذریعہ اپنا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ کبھی ہم اس حساس اور سلگتے مسئلہ پر بھی توجہ دیں۔ غریب اور بے سہارا لڑکیوں اور خواتین کی خود کفالت کی غرض سے خاک طیبہ ٹرسٹ‘ غیاث الدین بابو خان ٹرسٹ‘ سیاست ٹرسٹ جیسے ادارے غیر معمولی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ انہیں ٹیلرنگ ٹریننگ کے ذریعہ یا دوسری گھریلو صنعتوں کے ذریعہ روزگار کے مواقع فراہم کررہے ہیں۔ یہ قابل ستائش اقدام ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ تربیت یافتہ خواتین اپنے پیروں پر آپ کھڑے ہونے کی غرض سے اپنی ذاتی دکان یا کوئی انڈسٹریل پوسٹ قائم کرتی ہیں تو اسے ان کے محلہ کے ایسے ہی عناصر سے مسائل پیش آتے ہیں جیسے مسائل ان ماں بیٹی کو درپیش ہیں جس کا ذکر میں نے اس مضمون کے آغاز میں کیا ہے۔ یہ این جی اوز‘ محلہ کی مسجد کمیٹیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے معاشرہ کی ایسی خواتین کو عزت اور وقار کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقع فراہم کریں۔ جہاں کہیں خواتین کے قائم کردہ دکانیں یا ادارے ہوتے ہیں اس کے اطراف و اکناف آوارہ اوباش‘ بے روزگار نوجوانوں کا جمگھٹا ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے ان دکانوں تک آنے میں محلہ کی دوسری خواتین تکلف کرتی ہیں۔ ایسے آوارہ نوجوانوں کے خلاف مقامی پولیس کو کاروائی کرنی چاہئے اور جب پولیس کاروائی کرے تو مقامی سیاسی قائدین یا کارپوریٹرس کو اس میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہئے کیونکہ ان آوارہ اوباش اور بے روزگار نوجوانوں کی وجہ سے عزت اور خواتین کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔
یوں تو خواتین کے حقوق کیلئے کئی این جی اوز جدوجہد کررہی ہیں مگر یہ این جی اوز کوئی سانحہ ہونے کے بعد سڑکوں پر نکل آتی ہیں۔ وہ ایسی کوئی تحریک نہیں چلاتیں جس کے اثر سے ہونے والے سانحات ٹل جائیں۔ محلوں میں غریب‘ بے بس‘ بے سہارا خواتین کو عزت اور وقار کے ساتھ جینے کے حق کے لئے کوئی این جی او جدوجہد نہیں کرتی۔ مندر اور درگاہوں میں عورتوں کے داخلے کے حق کے لئے تو بعض خواتین جدوجہد کررہی ہیں مگر خواتین کو ان کے اپنے گھر‘ اپنے اداروں میں آزادی‘ عزت اور وقار سے کام کرنے کے حق کیلئے کوئی آواز کیوں نہیں اٹھاتا...
یہ ہر محلہ کے ذمہ دار حضرات بالخصوص محلہ کی مساجد کمیٹیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے گروپ تشکیل دیں جو اپنے اپنے علاقوں میں ان عناصر پر نظر رکھیں‘ جس سے خواتین اور لڑکیوں بالخصوص بے سہارا اور غریب خواتین کی عزت پر کوئی آنچ نہ آئے۔ یہ ہماری ذمہ داری اس لئے بھی ہے کہ جو نوجوان‘ یا جو عناصر ان بے سہارا خواتین کو ہراساں کرتے ہیں کہیں ان میں ہمارا بیٹا‘ بھائی شامل ہو۔ معاشرہ کی اصلاح کے لئے ضروری ہے اس کا آغاز اپنے گھر سے کیا جائے... کسی پر انگلی اٹھانے سے پہلے ایک سے زائد مرتبہ یہ غور کرلیا جائے کہ کہیں ہماری زبان یا عمل سے کسی کا دامن داغدار نہ ہو... کسی سے اس کی روٹی چھن نہ جائے... کوئی حالات سے دلبرداشتہ ہوکر غلط راہ اختیار نہ کرے...
یہ ہمارا المیہ یا کمزوری ہے کہ ہم اپنے بچوں‘ بھائیوں اور سماج کے معتبر حضرات پر کنٹرول نہیں کرپاتے... اپنی کمزوری کی پردہ پوشی کرنے کے لئے بے سہارا خواتین کو نشانہ بناتے ہیں اور انہیں اپنے علاقوں میں رہنے نہیں دیتے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا