English   /   Kannada   /   Nawayathi

اہل اقتدار سے کہو اپنی اوقات میں رہے!

share with us

یہ وہ ملک ہے جس میں غلامی کی اذیتیں طویل مدت تک جھیل کر ملک کے جانبازمجاہد ین آزادی نے اپنے جان کی بازی لگا کریہ آزادی حاصل کی ہے۔کیا یہ آزادی اب اتنی نازک ہوچکی ہے کہ شیشہ سمجھ کر اس پر کوئی بھی پتھر مارے۔آزادی کے معمار آئین نے اس ملک کے عوام کو بنیادی حقوق سے سرفرازکیا ہے۔ان حقوق کو چھین لینے کا حق کسی کو نہیں ہے اس کے باوجود حکومت مہاراشٹرداخلی سیکوریٹی کے نام پرعام شہری کے ذاتی زندگی میں اور ان کے روز مرہ کے کاموں میں دخل اندازی کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ کیا یہ ہندوستان کے آئین کی توہین نہیں ہے ؟اہل اقتدار نے عوا م کے لئے فلاحی اور ترقیاتی کام کرنا چاہیے۔اہل اقتدار ہندوستان کے آئین کے پاسباں اور نگراں ہیں۔ہندوستانی آئین کے مطابق شہریوں کی زندگی اور املاک و جائداد کو تحفظ عطا کرنا اہل اقتدار کی ذمہ داری ہے۔جس کے لئے پولیس فورس تشکیل دی گئی ہے۔اس ذمہ داری کو بالائے طاق رکھ کرشاید اہل اقتدار انٹرنل سیکوریٹی کے موضوع کو پیش کرتے ہوئے ملک میں باب عقب کی راہ سے دوبارہ ایمرجنسی نافذ کرنے کی سوچ رہے ہیں۔جس قانون کو اہل اقتدار نافذ کرنا چاہتے ہیں اس سے عوام کی آزادی چھین لی جائے گی، عوام کے قدموں میں دوبارہ غلامی کی زنجیریں پہنائی جائیں گی اور عوام کو ہر چھوٹی بڑی بات کے لئے پولیس اور اہل اقتدار کی جی حضوری کرنے کی نوبت آئے گی۔قانون ساز کے اس رویہ سے عوام میں ناراضگی کی لہر دوڑ گئی ہے ۔ اس تعلق سے عوام نے کئی جگہوں پر احتجاج بھی کیا۔اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ حکومت جو قانون عوام پر تھوپنا چاہتی ہے اس کے لئے عوام راضی نہیں ہے جو عوام کی آزادی چھین لینے والا قانون ہے۔کیا اس پر حکومت کی عقل ساتھ دے رہی ہے یا نہیں۔ عوام کی ناراضگی اور برہمی کو دیکھ کر اس قانون کو فوری طور پر منسوخ کردینا چاہیے۔

جلسۂ آئین میں اظہار خیال کرتے ہوئے معمار آئین ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر نے کہا تھا،’’قانون سازکابینہ نے شہریوں کو نہ صرف بنیادی حقوق ہی مہیا کرنے ہیں بلکہ ان بنیادی حقوق کی حفاظت بھی قانون سازکابینہ کی ذمہ داری ہے۔عوام کے مفاد کیلئے بابا صاحب امبیڈکر کا پورا پورا استعمال کرنے والے اہل اقتدار کا دوغلاپن سامنے آنے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔ عظیم شخصیات کے مجسمے تعمیر کرنا مگران کے افکارو نظریات کا قتل کرنے کارویہ داخلی سیکوریٹی کے مسودہ سے واضح طور عیاں ہورہا ہے۔ فرنگی اقتدار ختم ہوکر ہمیں جو آزادی ملی وہ بالخصوص ہندوستانی آئین کے باب 3میں موجود ہے، یہ صرف آئین ہی نہیں بلکہ ہندوستان کے آزادی کی روح ہے۔ یہ بنیادی حقوق کو حکومت نہ ہی نکال سکتی ہے اور نہ ہی اس میں کچھ تبدیلیاں کرسکتی ہے۔شہری حقوق ہندوستانی آئین کا اٹوٹ حصہ ہے۔ان شہری حقوق پر اہل اقتدار شک و شبہ کا اظہار کرسکتے ہے اس بات کا آئین تشکیل کمیٹی کو تھا اسی لئے آئین میں اس کے تحفظ کی ذمہ داری اور اس کا بھی بنیادی حق آئین میں درج ہے۔ اس کے باوجود حکومت مہاراشٹر شہریوں کے حقوق پرداخلی سیکوریٹی کے نام پر ضرب لگانے کی تیاری کررہی ہے۔ شادی ، نکاح، منگنی اور کسی قسم کی رسم ہو یا پروگرام اس میں اگر 100سے زیادہ مہمان شریک ہورہے ہیں تو پولیس کے ذریعہ بالراست حکومت کی اجازت لینا ضروری ہے،یہ کس بات کی نشاندہی کرتی ہے ہمارے آزاد ہونے کی یا ہمارے غلامی کی؟اسے شہریوں کی بنیادی آزادی سمجھنا چاہیے یا جبرسمجھنا چاہیے ؟

غلامی کادور ختم ہوا اور ہندوستان کو مکمل آزادی ملی اور آئین میں یہ آزادی شہریوں کو آرٹیکل 19کے تحت بحال کی گئی ہے اور اسی وقت سے حقیقی آزادی کا آغاز ہوا، اس کے بغیرحقیقی معنوں میں ملک آزاد ہو ہی نہیں سکتااور آزادی اپنی معنویت و عظمت سے محروم ہوجائے گی۔ملک میں گھومنے پھرنے کی آزادی، اظہار خیال کی آزادی، ملک میں کہیں بھی بودباش کی آزادی، ملک میں کاروبار کی آزادی۔ اس کے علاوہ آرٹیکل 19میں ایک اور آزادی کا ذکر ہے وہ ہے بنا کسی اسلحہ کے ایک ساتھ امن وامان سے جینے کی آزادی۔ انٹرل سیکوریٹی کے مسودہ میں جو بات درج ہے اس سے تویہی لگتا ہے کہ حکومت یہی آزادی ہم سے چھین لینا چاہتی ہے۔اگر ایسا نہیں ہوتا تو شادی بیاہ ، سالگرہ، میٹنگ، کانفرنس میں حکومت کی اجازت لینا ہوگی یعنی پولیس کی اجازت لینے کا ذکر نہیں ہوتا، جس میں100سے زیادہ مہمان شریک ہوتے ہیں اور کون کون شریک ہوتے ہیں اس کی فہرست دینے کی بات نہیں ہوتی۔جب اس بات پراحتجاج کیا گیا تو یہ بات پیش کی گئی کہ نجی جگہوں(گھر) پر اجازت کی ضرورت نہیں البتہ پبلک جگہوں پر اجازت لینے کی ضرورت ہے۔پھر شادی، اجلاس اور کانفرس جیسے پروگرام کیا گھر پر منعقد ہوتے ہیں؟وہ پبلک جگہوں پرہی ہوتے ہیں نا؟کیا یہ سیاسی لیڈران اس سے ناواقف ہیں۔شادی بیاہ یہ گھریلوں باب ہے مگر اس کا براہ راست سماج سے تعلق ہے۔ سکھ دکھ کے وقت رشتہ داروں کے ساتھ ساتھ دوسرے لوگ بھی شریک ہوتے ہیں، کیا ہماری حکومت اس سے نا آشنا ہے ؟پھر یہ ڈکٹیٹر شپ کس لئے؟کیا عوام کے حقوق چھین کرعوام کو مجرم بناکر باب عقب سے ایمرجنسی نافذ کرنے کا ارادہ ہے؟وزیر اعظم اپنی تقریر میں کہتے ہیں کہ اہل سیاست نے عوام کی ترقی اور فلاحی کاموں پر توجہ دینی چاہیے۔پھر فڈنویس حکومت نے کونسا رویہ اپنایا ہے ، عوام کی ترقی اور خوشحالی کا یا پھر عوام کے بنیادی حقوق چھین لینے کا؟عوام کی آزادی چھین کر انھیں غلامی کے دلدل میں دھکیلنے کا؟حکومت یہ اہل اقتدار اور عوام کے اعتماد پر چلتی ہے مگر جب اہل اقتدا ر کے سوچے سمجھے منصوبے پر شک کے بادل منڈلا نے لگتے ہیں تو پھر اس اعتماد کو ٹھیس لگتی ہے اور عوام خود کو غیر محفوظ اور خوفزدہ سمجھنے لگتی ہے۔ کیا اہل سیاست یہی سب کرنا چاہتی ہے کیا؟

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا