English   /   Kannada   /   Nawayathi

تشدد کو بڑھاوا دینے میں حکومت کا بھی ہاتھ رہا ہے

share with us

۱۹۹۲ء ؁ میں بابری مسجد شہید کرنے کے بعد مہاراشٹر سے اترپردیش تک جس طرح مسلم اقلیتی فرقہ کو تشدد کا نشانہ بنایا گیایا اسی سال گودھرا میں ٹرین آتشزدگی واقعہ کے بعد پوری ریاست گجرات میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا گیا اور اس کو گودھرا سانحہ کا ردعمل قرار دیکر گویا مسلم اقلیت کی مارپٹائی کا جواز تلاش کرلیا گیا ہے۔
اسی رویہ بلکہ ذہنی تضاد اور جانبداری کا نتیجہ ہے کہ تشدد کی سیاست اس ہندوستان کو کھائے جارہی ہے جس کا کبھی عدم تشدد نصب العین تھا، مہاتماگاندھی نے دیش کی آزادی کی لڑائی اسی عدم تشدد کے اصول پر لڑی تھی جس کے لئے ستیہ گرہ اور ترک موالات کو انہوں نے بطور ہتھیار استعمال کیا تھا، مگر حالات کی یہ ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ آزادی ملنے کے بعد خود گاندھی جی تشدد کا شکار ہوگئے کیونکہ تقسیم ملک سے پیدا ہونے والے تشدد کو وہ روکنا چاہتے تھے۔ گاندھی جی کے بعد تو اس ملک کے لیل ونہار ہی بدل گئے، ان کی زندگی بھر کی تپسیا خاک میں مل گئی اور آج تو تشدد ہماری قومی اور سماجی زندگی کا ایک لازمی حصہ بن گیا ہے وہ کینسر کی طرح ملک کی تمام حصوں میں پھیلتا جارہا ہے اور ڈر اس بات کا ہے کہ یہ بلڈکینسر کی شکل اختیار نہ کرلے جس کا موت کے سوا کوئی علاج نہیں۔
اس صورت حال کے لئے کم وبیش ذمہ داری اس سرکار پر عائد ہوتی ہے جو عوامی مسائل سے ان دیکھی کو ہی اپنی کارکردگی سمجھ لیتی ہے حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ تشدد پر اکسانے والی ہر مہم کا فوراً نوٹس لے اور جو عناصر اس کے لئے ذمہ دار پائے جائیں ان کے خلاف بروقت کارروائی کرے مگر حکومتوں کے ۷۰سالہ طور طریقے نرالے رہے ہیں۔ تخریب پسند اور فسادی عناصر فتنے جگاتے رہتے ہیں۔ تشدد کا راستہ اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہیں نفرت وحقارت کا ماحول پیداکرتے ہیں پھر بھی حکمرانوں کی آنکھیں اور کان بند رہتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ شرارت پسندوں کے خلاف اس ملک میں کوئی قانون نہیں ہے اور نہ ظلم وتشدد کی سیاست چلانا کوئی جرم ہے پھر جب تشدد اور فسادکے لئے زمین اچھی طرح تیار ہوجاتی ہے اور نفرت کی کھیتی لہلہانے لگتی ہے تو قومی ایکتا اور فرقہ وارانہ یک جہتی کا سبق دیا جانے لگتا ہے قول وعمل کے اس تضاد کو دور کئے بغیر ظلم وتشدد کی بیخ کنی ممکن نہیں۔
جہاں تک کشمیر میں جاری تشدد کا تعلق ہے تو اس کو اسلام سے جوڑنا کسی طرح مناسب نہیں کیونکہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو امن کے قیام کے لئے بھی دہشت گردی کی اجازت نہیں دیتا۔قرآن پاک میں واضح اعلان ہے کہ ’’ایک بے گناہ انسان کو قتل کرنے والا پوری نوع انسانی کا قاتل ہے اور ایک بے گناہ انسان کی زندگی بچانے والا تمام انسانوں کو بچانے والا ہے (مائدہ ۳۲) اسی لئے اسلام کو امن وسلامتی کامذہب کہاجاتا ہے جس میں تشد د یا تخریب کاری تک کی اجازت نہیں ظلم وبربریت یا جدید اصطلاح میں دہشت گردی تو بہت آگے کی بات ہے ۔ اسلام کی تو واضح تعلیم یہ ہے کہ کتنا ہی مقدس مقصد ہو اس کے لئے اگر ناجائز طریقہ اپنایاجائے تو وہ حرام ہوجاتا ہے۔ جو مذہب مختلف قوموں کے درمیا ن رنگ ونسل کے بھید بھاؤ کا قائل نہیں بلکہ پوری نوع انسانی کو ایک کنبہ قرار دے کر اس کی کردار سازی پر زور دیتا ہے اس میں بھلا کس طرح تشدد کو اجازت مل سکتی ہے پرامن شہریوں کو مارنے کی اجازت ہوسکتی ہے جو لوگ بھی اس کے مرتکب ہورہے ہیں در حقیقت وہ اپنے عمل سے اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہونچارہے ہیں ساتھ ہی اپنی آخرت کے لئے بھی بربادی کا سامان کررہے ہیں۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا