English   /   Kannada   /   Nawayathi

اقلیتی تعلیمی اداروں کی سرکاری فنڈنگ

share with us

جب ملک کا وزیرقانون اقلیتوں کی فلاح و بہبود اوران کی تعلیمی ترقی کے لئے سرکار کی ذمہ داری سے بے بہرہ ہو تو باقی لوگوں کا کیا کہنا؟ چنانچہ میڈیا پر اس طرح کے نظریات آتے رہتے ہیں۔ ایسا ہی ایک کالم مسٹرطفیل احمد کا 4اگست کو ایک آن لائن نیوزپورٹیل ’’نیوایج اسلام ‘‘ پر اور 9؍اگست کو ’’فرسٹ پوسٹ ‘‘ پرنئے عنوان (AMU's minority mindset births intellectual separatism, Indian State cannot fund it) سے شائع ہوا جو اس نظریہ کی تائید اورملی موقف سے متصادم ہے۔سرخی کا مفہوم ہے: ’’مسلم یونیورسٹی کو اقلیتی ادارہ قرارددینے والی ذہنیت ، فکری علیحدگی پسندی کو جنم دیتی ہے، انڈیا اس کی مالی کفالت نہیں کر سکتا۔‘‘ اس سرخی سے اوراس تحریر کے مندرجات سے ظاہرہوتا ہے کہ لکھنے والے نے غوروفکر،تحقیق وتصدیق سے کام نہیں لیا بلکہ زورقلم سنگھی فکرکی نمائندگی میں لگا دیا ہے۔
مسٹرطفیل احمدضلع مغربی چمپارن بہار میں پیدا ہوئے۔اب برطانوی شہری ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے سماجیات میں بی اے(آنرس) اوردہلی سے جرنلزم کا پی جی ڈپلومہ کیا۔ کچھ عرصہ پی ٹی آئی وغیرہ میں کام کیا اوربی بی سی اردو سروس میں چلے گئے۔ اب واشنگٹن میں ایک ادارہ ’’مڈل ایسٹ میڈیا رسرچ انسٹی ٹیوٹ‘‘ میں ڈائرکٹرہیں۔گارجین کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ ایک صہیونی پروپگنڈہ ادارہ ہے جوتشہیری مضامین لکھواتا بھی ہے اورمختلف زبانوں سے تراجم کراکر صحافیوں اورسیاست دانوں کو بھیجتا اورشائع کراتا ہے۔مسٹرطفیل کے مضامین محولہ بالا دونوں نیوز پورٹیل پرچند سالوں سے شائع ہورہے ہیں۔اس میں حیران ہونے کی کوئی بات نہیں کہ ایک مسلم گریجوئیٹ کو ملی موقف کے خلاف اپنے قلم کے جوہر دکھانے کے لئے رسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر کا تغمہ لگاکر ایک پلیٹ فارم مہیا کردیا گیا ہے۔ یہ مختصرتعارف اس لئے لکھ دیا کہ ان کی نگارشات اور فکر کی نہج کااندازہ لگایا جاسکے۔اوریہ بھی صہیونی کیا کچھ کررہے ہیں اورہم کیا کرتے ہیں؟ 
موصوف ابتدائی پیراگرافس میں تحریر کرتے ہیں کہ آئین ہند کی دفعات 29و 30 اقلیتوں کو اپنا ادارہ قائم کرنے اور چلانے کا حق دیتی ہیں۔ چنانچہ مسلمان بھی ایسا کرسکتے ہیں۔اور یہ کہ:’’ اے ایم یوایک کالج کی صورت قائم ہوا تھا تاکہ مسلمانوں میں سائنسی علوم ونظریہ کا فروغ ہو۔‘‘ ۔۔۔ ’’ ایسے اقلیتی ادارے کے مصارف خود اقلیت کو اٹھانے چاہیں، نہ کہ انڈین اسٹیٹ اٹھائے۔‘‘بہت خوب! کیا ان کے خیال سے اکثریت ہی ہندستان ہے اور اقلیت کی فلاح و بہبودکی ذمہ داری ریاست پر نہیں؟ادارہ قایم کرنے اورچلانے کے جو حقوق اقلیت کو حاصل ہیں وہ، آئین کا حصہ ہیں جس کے بامعنٰی تحفظ کی ذمہ داری ریاست پراسی طرح عائد ہوتی ہے جس طرح جان ومال اورعزت وآبروکی حفاظت کی۔ ریاست ان آئینی حقوق کی حفاظت کی بامقصدذمہ داری سے کس طرح بری ہوسکتی ہے؟ یہ کیا منطق ہوئی کہ اکثریت کی تعلیم پر تو سرکار ٹیکس سے خرچ کرسکتی ہے، اقلیت پر نہیں؟ کیا اقلیت ٹیکس نہیں دیتی؟یہ نظریہ کہ اقلیت اپنے بعض آئینی حقوق کی خود ذمہ دار ہے، فاسد اورمتعصبانہ ہے ۔اقلیت کو قوم سے الگ کرتا ہے اور قومی ہم آہنگی اورجذبہ خیرسگالی کے منافی ہے۔ یہ نظریہ اسٹیٹ میں اسٹیٹ کو جنم دیتا ہے۔ سیکولرزم سب باشندوں کے ساتھ منصفانہ برتاؤ کا نام ہے۔ اکثریت کے مفادات کی نگرانی اوراقلیت کی ارزانی کا نہیں۔
مسٹرطفیل نے یہ دلیل بھی دوہرائی ہے کہ سرسید احمد خان نے جو محمڈن کالج قائم کیا تھا اس کو ’’انڈین پارلیمنٹ‘‘ کے ایک ایکٹ نے 1920میں تحلیل کردیا تھا۔‘‘ جی نہیں۔ نہ محمڈن کالج کے مقاصد قیام سرنڈر کئے گئے تھے نہ کالج کی املاک ہوامیں تحلیل ہوگئی تھیں۔ ’’برطانوی‘‘ پارلی منٹ کے مذکورہ ایکٹ 1920کے ذریعہ اس کالج کے لئے یونیورسٹی کا درجہ مطلوب تھا، جو قانون سازی کے بغیر ممکن نہیں ۔محمڈن کالج کی قائم مقام ہماری اس یونیورسٹی نام روزاول سے ہی ’’مسلم‘‘ یونیورسٹی ہے ۔ اس نام میں ’’مسلم‘‘ کا ٹیگ اگراس کے ’’مسلم اقلیتی ادارہ‘‘ ہونے کا اعلان نہیں اور کیا ظاہر کرتا ہے؟یہی بات ترمیم 1981میں تسلیم کی گئی ہے۔ ’’یونیورسٹی سے مراد وہ تعلیمی ادارہ ہے جو مسلمانان ہند نے اپنی پسند سے قائم کیا اور جس کی بنیاد محمڈن انگلو اورینٹل کالج علی گڑھ سے پڑی جو بعد میں مسلم یونیورسٹی میں شامل کرلیا گیا۔‘‘(اے ایم یو ایکٹ دفعہ ۔2)
ہمارے جس کالج کو یونیورسٹی کا درجہ ملا یہ اسی کی املاک تھیں جو اب یونیورسٹی کی قرارپائیں۔ کالج کے لئے یونیورسٹی کا درجہ مسلم اقلیت نے 1920 میں حکومت برطانیہ سے 30لاکھ روپیہ کی خطیررقم دیکر حاصل کیا تھا۔گویا یونیورسٹی کا مقام ہم نے اسی طرح خریدا جس طرح کالج کے لئے 600ایکڑآراضی خریدی اوربہت سی عمارتیں کھڑی کیں۔کالج کے لئے یونیورسٹی کا درجہ اس لئے حاصل نہیں کیاگیا تھا کہ جن مقاصد کے لئے کالج قائم ہوا،وہ فوت ہوجائیں ،بلکہ اس لئے کیا گیا کہ ان مقاصد کو فروغ ملے اورتعلیم کا درجہ بلند ہو۔ الحمدللہ وہ ہوا اورآج بھی مسلم یونیورسٹی قومی اورعالمی سطح پرممتاز حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں سبھی مذاہب کے طلباء اوراساتذہ ہیں اوروہ ایک منی انڈیا کی تصویر پیش کرتی ہے۔
مسٹرطفیل احمد تسلیم کرتے ہیں کہ:’’ آئین کی دفعہ 30(2)کے تحت ریاست اقلیتی تعلیمی اداروں کو ایڈ دے سکتی ہے۔‘‘لیکن وہ ساتھ ہی کہتے ہیں:’’ لیکن ایسے ادارے کا اقلیتی وجود برقرار نہیں رہ سکتا جس کے مصارف کی کفالت انڈین اسٹیٹ کرتی ہو۔‘‘مسلم یونیورسٹی کے بارے میں وہ کہتے ہیں:’’ اے ایم یو کا کیس سرکاری ایڈ کا نہیں، بلکہ پوری طرح مصارف کی کفالت کا اورایک مخصوص اقلیتی ادارے کو چلانے کا ہے۔‘‘ اور یہ کہ’’ کیونکہ ہندستان ایک سیکولر ملک ہے اس لئے اے ایم یو کو ٹیکس کی آمدنی سے رقم نہیں دی جاسکتی۔ ‘‘ان کے متضادات مفروضوں کی چول آپس میں کسی طور نہیں بیٹھتی ہے۔اس امریکا نشین’’ محقق‘‘ کو بتانا چاہئے کہ آئین ہندمیں کہاں لکھا ہے کہ ایسے ادارے کا اقلیتی وجود ختم ہوجائے گاجو سرکاری مالی امدادقبول کرلے گا؟ یا سرکار جس کی مالی کفالت کریگی؟ موصوف نے یہ مانا ہے کہ اقلیتی ادارہ کو سرکاری امداد اد دی جاسکتی ہے۔اب اگرجزوی ایڈ دی جاسکتی ہے تومکمل فنڈنگ میں کونسی قانونی یا آئینی رکاوٹ ہے؟کیا کسی قانون نے اس کی کوئی حدمقررکردی ہے کہ یہاں سے آگے لوگے تو تمہارا مقصد قیام فوت اورشناخت ختم؟ عجیب بے تکی بات ہے۔ اگرآپ کسی ضروت مندکی مکمل مالی کفالت کرتے ہیں ،توکیا اس کا یہ مطلب ہوگا کہ اس کواپنی شناخت ختم کرنی ہوگی اورآپ اس کے گھر بارکے مختارکل بن جائیں گے؟
صاف ظاہر ہورہا ہے کہ یہ باہم متصادم باتیں بغیر غوروفکرکسی اورمقصد سے یکجا کر دی گئی ہیں۔ موصوف کو معلوم ہونا چاہئے کہ ایسی کوئی آئینی اورقانونی بندش نہیں جو سیکولر حکومت کو اقلیتی تعلیمی ادارے کی کفالت سے روکتی ہو۔ یہ خیال اس ذہنی اورفکری فساد کا مظہر ہے جو چاہتا ہے کہ اقلیتی ادارے اوران کی شناخت باقی نہ رہیں۔یہ سوچ ان حقوق کی نفی کرتی ہے جن کی ضمانت آئین نے دی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ تعلیمی اور اقتصادی طور سے پست اقلیت کو تعلیم ،ترقی اورروزگارکے ایسے مواقع حاصل نہ ہوں کہ وہ دوسروں کے برابرآجائیں۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ
ان گمراہ کن مفروضوں کی یکسوئی ’’سینٹ اسٹیفن کالج بنام دہلی یونیورسٹی‘‘کیس میں سپریم کورٹ کی ایک پانچ رکنی بنچ 6 دسمبر1992 کوکرچکی ہے۔ عدالت عالیہ نے کہا ہے:’’ممکن ہے کہ اقلیتی فرقہ میں کچھ افراد ایسے ہوں جو اکثریت میں ضم ہونا چاہتے ہیں لیکن اقلیتی فرقہ کا اجتماعی مقصد سدا یہی ہوگا کہ وہ اپنا تشخص برقرار رکھے اورکسی میں ضم نہ ہو۔‘‘ جس کوکالم نویس فکری علیحدگی پسندی قراردیتے ہیں یہ اسی کی عدالتی تائید ہے۔
عدالت نے دوٹوک الفاظ میں کہا ہے: ’’ریاست سے مالی امداد پانے کا حق اقلیتی اداروں کو اسی طرح حاصل ہے جس طرح اکثریت کے ادروں کوہے۔‘‘ یہ بات واضح ہے کہ طلباء سے اتنی فیس نہیں لی جاسکتی کہ ادارہ چلایا جاسکے۔ چنانچہ عدالت نے کہا ہے: ’’زیادہ سے زیادہ کتنی فیس لی جاسکتی ہے؟اس کی حدود متعین ہیں۔ ان حدود کے ہوتے ہوئے اقلیتوں کو مجبور نہیں کیاجاسکتا کہ وہ بغیر سرکاری امداد کے اپنے تعلیمی اداروں کوچلائیں ۔‘‘ 
فیصلے سے مزید اقتباس لانے سے قبل مناسب ہوگا کہ آئین کی ان دفعات پرنظرڈال لی جائے جو اقلیتوں کے مخصوص حقوق کو تحفظ فراہم کرتی ہیں۔آرٹیکل 29(1): اقلیتوں کے مفاد کا تحفظ:(۱) شہریوں کی ہر اس جماعت کو، جو ہندستان میں بود وباش رکھتی ہے اور جس کی اپنی الگ زبان، رسم خط اور ثقافت ہے،حق حاصل ہے کہ وہ ان کو محفوظ رکھے۔
آرٹیکل 29(2):کسی ہندوستانی شہری کو کسی ایسے تعلیمی ادارہ میں جس کو ریاست چلا رہی ہے یاامداد دے رہی ہے ،محض مذہب، نسل، ذات، زبان یا ان میں سے کسی ایک کی بنیاد پر داخلہ سے محروم نہیں کیا جائے گا۔
(3)آرٹیکل 30: اقلیتوں کو تعلیمی ادارے قائم کرنے اورچلانے کا حق۔(۱) تمام اقلیتوں کو خواہ وہ مذہب پر مبنی ہو ں یا زبان پر اس کا حق ہوگا کہ اپنی پسند کے تعلیمی اداروں کو قائم کریں اور چلائیں۔(۲) تعلیمی اداروں کو مالی امداد دیتے وقت ریاست تعلیمی ادارے کے خلاف اس بناپر امتیاز نہیں برتے گی کہ وہ ایک مذہبی یالسانی اقلیت کے زیراہتمام ہے۔
زیر نظر عدالتی فیصلے میں بڑی معنی خیز ،دور رس اور فیصلہ کن بات یہ کہی گئی ہے کہ ’’اقلیتوں کو یہ حق ہے کہ اپنے اداروں کے اقلیتی کردار کو برقرار رکھنے کے لئے ان میں اپنے امیدواروں کو داخلہ دیں۔ داخلہ دینے کا یہ اختیار اس حق سے براہ راست حاصل ہوتاہے جو آرٹیکل30(1)کے تحت اقلیتوں کو یہ اختیار دیتا ہے کہ اپنے تعلیمی ادارے قائم کریں اورانہیں چلائیں۔ والدین کو یہ اختیار ہے کہ اپنے بچوں کو ان تعلیمی اداروں میں تعلیم دلائیں جہاں کا ماحول ان کے مذہب کے موافق ہو۔‘‘
عدالت نے کہا ہے:’’ہمیں چاہیے کہ آرٹیکل 30(1)کے تحت دی گئی ضمانتوں کامعنی خیز حق ادا کریں۔ان کو عملی شکل دیں اور نظام میں ڈھالیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ (مذہب کے بنیاد پر عدم امتیازکا)جو حق افراد کو آرٹیکل 29(2) کے تحت ملا ہے ، اس کی توثیق کریں۔ضرورت ہے کہ دونوں متحارب حقوق کے مابین توازن پیدا کیا جائے۔‘‘
فیصلے میں مذکور ہے: ’’یہ خیا ل کہ سب لوگ برابر ہیں،بڑی حد تک قیاسی ہے۔ یہ بات برحق ہے کہ بعض لوگوں کے ساتھ مساویانہ برتاؤ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ان کے ساتھ خصوصی برتاؤ کیا جائے۔ ہمیں یہ مان کر چلنا چاہیے کہ اقلیتوں کے حق میں ایک حد تک امتیاز لازم ہے۔ اقلیتوں کے حق میں مثبت کارروائی ان کے مذہب کونظر انداز کرکے کی ہی نہیں جاسکتی۔ اگر ہمارا مقصد بالآخر مذہب کو پیچھے چھوڑجانا ہے تو بھی فی الحال اسے خاطر میں لائے بغیر بات نہیں بنے گی۔شروعات میں مذہب کاپا س کرنا لازم ہوگا۔۔۔۔ کیرالا تعلیمی بل پررائے دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے تسلیم کیا تھا کہ اقلیتوں کے حق میں امتیاز جائز اوربرحق ہے۔‘‘
‘‘ریاست کیرالا بنام ایس ایم ٹامس وغیرہ میں چیف جسٹس رے نے برابری اور مساوات کے اس تصور سے بحث کی ہے جس کی ضمانت آرٹیکل15(1)۔اور14(1) نے پسماندہ طبقات کے ساتھ ترجیحی برتاؤ کے وجوب پر دی ہے۔ انھوں نے کہا کہ پسماندہ طبقات کے افراد کے ساتھ ایسا ترجیحی برتاؤ ہی (بشرطیکہ و ہ انتظامی کارگزاری کی ضروریات کے منافی نہ ہو)ان کو دوسرے شہریوں کے ساتھ مواقع کی برابری فراہم کرسکتا ہے۔ ان لوگوں کے لئے جو(ترقی کے لحاظ سے ) برابر نہیں ہیں ،مواقع یکساں رکھنا گویانابرابری کو مزید فروغ دینا ہے۔ معقول امتیازات کااثبات اورایسے امتیازات کی دلیل جو قرین عقل نہیں ہیں،یہی معقولیت ہے اور یہی دراصل برابر مواقع حاصل ہونے کا مفہوم ہے۔۔۔ لہٰذا انتخاب کے معیار میں امتیازی برتاؤ کو برابری کے تصور سے ہم آہنگ سمجھناچاہئے۔‘‘
عدالت نے یہ توازن اس طرح قائم کیا ہے کہ اقلیتی تعلیمی اداروں کو داخلوں میں 50فیصد ریزرویشن کا حق دیدیا ہے جو اس وقت مسلم یونیورسٹی اورجامعہ ملیہ اسلامیہ اور دیگر اقلیتی اداروں نافذ العمل ہے۔ 
مذکورہ فیصلے پر جناب سید حامدمرحوم نے ایک طویل تجزیہ ’’اقلیتی اداروں میں داخلے‘‘ عنوان سے جنوری1992میں لکھا تھا۔یہاں ہم نے اس سے بھی استفادہ کیا ہے۔ یہ مضمون اس کالم نویس کی زیراشاعت کتاب :’’ پیکرفکروعمل سیدحامد‘‘ میں شامل ہے۔ مذکورہ فیصلہ ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔اس کے نکات 79(B), 89, 93 اور 95. خاص طور سے اہم ہیں۔ لنک:
lawnotes.in/St Stephens College v University of Delhi
لب لباب یہ کہ سپریم کورٹ طے کرچکا ہے کہ اقلیتی ادارہ کی سرکار سے فنڈنگ میں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں۔یہ ان کا حق ہے۔ مسلم یونیورسٹی کو تاریخی اورقانونی طور سے اقلیتی درجہ حاصل ہے۔اگرکوئی حکومت پارلیمنٹ میں منظورشدہ قانون کا احترام نہیں کرتی تو یہ ایک غلط روایت کو جنم دینا ہے۔حکومت اگر تبدیلی چاہتی ہے توچوردروازے کے بجائے پارلی منٹ میں بل لائے۔ اورصرف مسلم اداروں کو ہی ہدف نہ بنائے بلکہ تمام اقلیتی اداروں کو شامل کرکے کہہ دے کہ ہم آئین میں مذکور حقوق کو تسلیم نہیں کرتے جو اقلیتوں کوتفویض ہیں۔ نہ اقلیتوں کی بہبود کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ شاید اس طرح اس کوسیکیورٹی کونسل میں مستقل سیٹ مل جائے۔ 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا