English   /   Kannada   /   Nawayathi

مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے مذاکرات ضروری

share with us

دوسری طرف احتجاجیوں اور مظاہرین کی پسپائی کے لئے دھڑلے سے طاقت کے بے رحمانہ استعمال کے نتیجے میں جو درجنوں نوجوانوں کی موتیں ہوئیں اورہزاروں زخمی ہوئے اس سے بھی یہی ظاہر ہوا کہ حکومتیں کشمیریوں کے غم و غصہ کو سرد کرنے کے لئے مخلصانہ کوششیں کرنے کے بجائے اس مسئلہ کو صرف طاقت سے حل کرنا چاہتی ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے،جوبہت ہی مضبوط اور بولنے والے کے بطور اپنی شہرت رکھتے ہیں،15اگست کو لال قلعہ کی فصیل سے اپنی ڈیڑھ گھنٹے کی طویل تقریر میں پاک مقبوضہ کشمیر اور بلوچستان میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں پر تو اظہار خیال لیا لیکن مسئلۂ کشمیر کی سنگینی اور اسکے حل کے لئے ایک جملہ تو دور ایک لفط بھی نہیں کہا۔
اس دوران کشمیر کے بگڑتے ہوئے حالات، کرفیو کے مسلسل نفاذ اور اسکے نتیجہ میں کھانے پینے کی اشیا کی عدم فراہمی،انٹر نیٹ اور موبائل خدمات کی مسلسل معطلی ،پیلٹ گنوں کے استعمال سے نوجوانوں کی آنکھیں ضائع ہونے کی اطلاعات دنیا بھر میں گردش کرتی رہیں لیکن وزیر اعظم نے ان حالات پر اپنے’ درد‘ کا اظہار ایک ہفتہ قبل اس وقت کیا جب کشمیر کی اپوزیشن جماعتوں کے ایک وفد نے نئی دہلی میں ان سے ملاقات کی ۔اس کے بعدوزیر اعظم نے ایک مرتبہ پھر گزشتہ اتوار کو ’من کی بات‘ میں کشمیر پر گفتگو کرتے ہوئے صرف اتنا کہا کہ جو لوگ چھوٹے چھوٹے بچوں کو آگے کر کے کشمیر میں بدامنی پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں انہیں کبھی نہ کبھی ان بے قصور بچوں کو جواب دینا پڑے گا۔
اس سے پہلے بھی وزیر اعظم مودی کے وزرا کشمیر یوں کے احتجاج کے لئے صرف پاکستان کو ذمہ دار ٹھہراکر کشمیریوں کے غصے کے پیچھے تاریخی وجوہات سے پہلو تہی کا رویہ اختیار کرتے رہے ہیں۔اوروزیر اعظم بھی اسی سلسلے کو آگے بڑھا کر صرف اُن لوگوں کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں جن کی شہ پر نوجوان سیکورٹی فو رسیز پر پتھر پھینک رہے ہیں۔ جبکہ کشمیر کے حالات کے لئے صوبائی اور مرکزی حکومتیں سب ذمہ دار ہیں لیکن کوئی بھی اپنی غلطیوں اور ذمہ داری کا احساس کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ ان حالات میں اس مسئلہ کے حل کی تلاش بذات خود ایک بڑا مسئلہ ہے ۔تا ہم اب جبکہ مرکزی حکومت نے اس سلسلے میں قدم آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے تو دیکھنا یہ ہے کہ وہ کس طرح اپنے فہم و تدبر کا استعمال کرتی ہے۔ 
بی جے پی کی پہلی حکومت کے سربراہ اٹل بہاری واجپٹی نے مسئلۂ کشمیر کا حل انسانیت اور کشمیریت کے دائرے میں رہ کر تلاش کرنے کی جو پہل کی تھی اس نے کشمیریوں کو کافی متاثر کیا تھا۔ لہٰذا واجپئی کشمیریوں کی نگاہ میں قابل قدر مقام رکھتے ہیں اور امن کی علامت کے طور پر دیکھے جاتے ہیں کیونکہ انہوں نے کشمیریوں کو بخوبی یہ احساس دلادیا تھا کہ وہ ان کے مسئلہ کو سمجھتے ہیں اور حل کے لئے کوئی غیر معمولی قدم بھی اٹھا سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 2014میں جب مودی وزیر اعظم بنے تو کشمیری خوش تھے کیونکہ ان کوامید تھی کہ وہ کشمیر کے تعلق سے واجپئی کے موقف کی پیروی کریں گے۔ میر واعظ نے مودی کو مبارکباد بھی دی تھی اور کہا تھا کہ انہیں امید ہے کہ نئی بی جے پی حکومت پرانی بی جے پی حکومت کی راہ پر چلے گی۔مفتی محمد سعید نے بھی گزشتہ اسمبلی انتخابات کے موقع پرکئی مرتبہ کہا تھا کہ نئی حکومت کو واجپئی حکومت کی راہ اختیار کرنی پڑے گی۔ ان کے کہنے کا مطلب صاف طور پر یہ تھا کہ کشمیر میں امن قائم کرنے کے لئے مذاکرات کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ 
ابھی چند روز قبل کشمیر میں تعینات آرمی کے ایک کمانڈرنے بھی انتہائی معقول بیان دیا ہے۔ کمانڈر نے کہا کہ کشمیر میں امن کی بحالی کے لئے ہم سب کو بشمول علاحدگی پسندوں کے مل بیٹھ کر گفتگو کرنے کی ضرورت ہے۔ اور میر واعظ نے فوری طور پر اس بیان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوستان کی حکومت کو سننا چاہئے کہ آرمی کمانڈر کیا کہہ رہا ہے۔ میر واعظ نے یہ بھی کہا کہ اگر فوج کشمیر کے مسئلہ کا حل تلاش کر سکتی ہے تو ہم فوج کے ساتھ بھی بات چیت کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کشمیری علاحدگی پسند بھی وادی میں امن بحال کرنا چاہتے ہیں اور وہ اسکے لئے بات چیت کرنے کے لئے پوری طرح تیار ہیں۔ اس سے پہلے بھی کشمیری علاحدگی پسند لیڈروں نے ہمیشہ مرکز سے بات چیت کرنے کی خواہش اور آمادگی ظاہر کی ہے۔ لہٰذا مودی حکومت کو اس سلسلے میں فی الفور قدم اٹھانا چاہئے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان کشمیر میں بدامنی پھیلانے کی پوری کوشش کرتا رہا ہے۔ خاص طور سے مرکز میں مودی حکومت کے قیام کے بعد سے پاکستان کی جانب سے کشمیر میں مختلف مقامات پر حملے ہوتے رہے ہیں۔ دوسری طرف مودی حکومت کی جانب سے دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر بنانے کی کئی کوششیں بھی ہوئی ہیں۔ دوسری طرف پٹھان کوٹ حملہ کے بعدایک موقع پر پاکستان کے قومی سلامتی مشیر نے اپنے ہندوستانی ہم منصب کوہندوستان میں گجرات کے راستے کچھ پاکستانی دہشت گردوں کے داخل ہونے کی خفیہ جانکاری فراہم کرائی تھی جسکے نتیجے میں کئی دہشت گرد پکڑے بھی گئے تھے۔ لیکن اب جبکہ کشمیر اپنی داخلی آگ سے جھلس رہا ہے، پاکستان حسبِ سابق ان حالات کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے اور دنیا بھر میں اپنے قاصد روانہ کرکے حقوقِ انسانی کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے ہندوستان کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ 
ان حالات میں سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ہم محض ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی کرکے مسئلہ کو ٹالنے کی کوشش نہ کریں بلکہ کس سے کب ،کہاں، کیسے اور کیوں غلطی ہوئی ، اس بات پر پوری توجہ دیں کہ اب مسئلہ کو کیسے حل کیا جا کتا ہے قبل اسکے کہ ملک کی یکجہتی خطرے میں پڑنے کا اندیشہ پیدا ہو جائے یا دو ہمسایہ ملکوں کے بیچ جنگ کے حالات پیدا ہو جائیں۔ کشمیر مسئلہ کے حل کے لئے کشمیری علاحدگی پسندوں کے ساتھ ساتھ پاکستان سے بھی بات چیت کرنا ہوگی۔جہاں تک ملک کی اپوزیشن جماعتوں کا تعلق ہے،وہ کشمیر سمیت پورے ملک میں امن و امان کی بحالی اور اتحاد و یکجہتی کے معاملے پر حسب دستور حکومت کے ساتھ ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت تمام جماعتوں کو اعتماد میں لے کر مسئلہ کو حل کرنے کی نیت سے تمام متعلقہ فریقوں سے بات چیت کے دور کا آغاز کرے۔ پہلے ہی کافی تاخیر ہوچکی ہے اور کافی نقصان ہو چکا ہے۔ 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا