English   /   Kannada   /   Nawayathi

کیسے کیسے ایسے ویسے ہو گئے

share with us

آج بھی شہر روم کی شان وشوکت لوگوں کواور دیکھنے والوں کو متحیر کرتی ہے۔ اس شہر کی خوبصورتی اور فن تعمیر کو کسی بھی پیمانے سے اس وقت بھی ناپا نہیں جاسکتا تھا اور اس دور میں بھی ناپا نہیں جاسکتا ہے۔دیکھنے والوں کی قیاس آرائی اور اندازے ناکافی ثابت ہوتے ہیں۔ بھجبل نے جو رہائش گاہ تعمیر کی ہے وہ کسی راجہ مہاراجہ کے محل سے کم نہیں ہے ، اس میں زندگی کی تمام آسائش کا سامان موجود ہے۔بھجبل نے اس کی تعمیر میں بوریاں بھر بھر کر پیسے خرچ کیے ہیں اس کا بھی اندازہ لگانا کافی مشکل امرہے اور اس کی تعمیر بھی ایک شب میں نہیں ہوئی بلکہ روم کی تعمیر کی طرح اس کو بھی وقت درکار ہوا۔ بھجبلکی تعمیر کردہ عمارتیں اور شاہی محل میں کچھ کمیاب یا نایاب چیزیں ایسی بھی ہیں جو لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں۔ جس طرح روم کی تعمیر یکایک عمل میں نہیں آئی ۔ اس کی ملکیت کا حساب لگایا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ بھجبل نالج سٹی، ممبئی ایجوکیشن ٹرسٹ اور دیگر ان گنت چیزیں ایسی ہیں جس کا جائزہ لینا ابھی باقی ہے۔راتوں رات بھجبل نے اپنی جائداد و املاک کی تعمیر نہیں کی، اینٹ در اینٹ دیوار تعمیر کی جاتی ہے۔ بھجبل جس وقت یہ اینٹیں لگا رہے تھے اس وقت اس پر کسی کی نگاہ نہیں گئی۔جنھیں توجہ دینی چاہیے تھی وہ جان بوجھ کر نظر انداز کررہے تھے۔جنھیں بھجبل ایک زمانے میں اپنا چیلا، اپنا وارث سمجھ رہا تھا ، اس کا احساس کبھی بھی کسی کو نہیں ہوا۔شاید احساس ہوا ہو مگر انھوں نے بھجبل کے شاگرد کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔بلکہ بھجبل کے ساتھ ساتھ رہنے والے لیڈران کا رول براہ راست یا بالراست انھیں حوصلہ دینے کا ہی ہوسکتا ہے۔ورنہ کسی کی اتنی ہمت نہیں ہوسکتی کہ وہ اس طرح کی شاندار تعمیر غیر قانونی پیسوں کے ذریعہ کریں۔یہاں میں اس کہانی کاذکر کرنا چاہوں کہ ایک نوجوان پر چوری کا الزام ثابت ہوتا ہے۔ جج اس نوجوان سے پوچھتا ہے کہ اسے اپنی صفائی میں کچھ کہنا ہے ؟وہ خاموش رہتا ہے مگر وہاں عدالت میں اس کی ماں موجود رہتی ہے ، وہ اپنی ماں کے پاس جانے کی اجازت مانگتا ہے اور ماں کے پاس جاکر ماں کے کان کو اپنے دانتوں سے چپاتا ہے۔وہاں موجود لوگ انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں، جج پر بھی سکتہ کا عالم طاری ہوجاتا ہے۔وہ نوجوان چو ر عدالت کے سامنے کہتاہے کہ بچپن میں میں نے اسکول سے ایک پنسل چوری کی تھی ، اس وقت میری ماں نے میری تعریف کی تھی۔اس کے بجائے اگر میری ماں نے اس وقت ہی میرا کان پکڑ لیا ہوتا تو میں چور نہیں بنتا۔کیا بھجبل کے تعلق سے ایسا ہوسکتا ہے مگر ابھی وہ ناممکن ہے۔لوٹ مار کرنے والوں کے گناہ میں اس کی بیوی بھی شریک ہونے کے لئے تیار نہیں رہتی۔پھر بھجبل کی کارنامے کون اور کیوں اپنے اوپر کھینچ لیں گے۔ مہاگاندھی کے مطابق Want and Needحرص اور ضرورت کا فرق بتاتے ہیں اور ضرورت کو درست تسلیم کرتے ہیں مگر بھجبل گاندھی نوازنہیں تھے ۔ ان کا پورا اعتماد وانٹ یا حرص پر ہی تھااور ان کی زندگی میں جو لوگ ان کے ساتھ تھے وہ بھی وانٹ یا حرص والے ہی تھے۔بھجبل نے جو تعمیرات کی ہے اس میں اینٹ، سمینٹ، ساگوان کی لکڑی اوردیگر چیزوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے مگر اپنے محل میں جوکروڑوں کی مالیت کے نادر و نایاب پینٹنگس اورقدیم دور کی چیزوں کا ذخیرہ کیا ہے اس کی قیمت کا اندازہ لگانا کافی دشوار کام ہے اورکس بنیاد پر اور کس پیمانے سے اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔تعجب کی بات ہے جن ہاتھوں نے بھجبل کا محل بنانے میں مدد کی وہی ہاتھ اب پیمانہ لے کر بھجبل کی ملکیت کا حساب کر رہے ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ وقت نے بڑے بڑوں کو دھول چاٹنے پر مجبور کیا۔
ایسے ویسے کیسے کیسے ہو گئے
کیسے کیسے ایسے ویسے ہوگئے

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا