English   /   Kannada   /   Nawayathi

ایک پیغام محبت بھی سہی----

share with us

اب کشمکش یہ ہے کہ اپنے ایک محسن کی ’پدرانہ نصیحت‘ کو سامنے رکھوں یا اپنے وزیر اعظم کے اس تازہ بیان کوجس میں انہوں نے ہندوستان کے تمام مسلمانوں کوبالواسطہ طورپرغیر محب وطن قرار دے دیا ہے؟
میں نے پچھلے ہفتہ اپنی طرف سے تو کچھ بھی نہیں لکھا تھا۔وزیر اعظم کی لال قلعہ کی فصیل سے کی جانے والی تقریر پر چیف جسٹس آف انڈیا کے اظہار مایوسی کو میں نے اپنا موضوع بنایا تھااور بتایا تھا کہ اس وقت ملک کی عدالتوں میں ایک طرف جہاں تین کروڑ سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں وہیں دوسری طرف حکومت ‘عدلیہ کی سفارشات کو دوسال سے دبائے بیٹھی ہے اور صرف ہائی کورٹوں اور سپریم کورٹ میں ہی 440ججوں کی کمی واقع ہوگئی ہے۔جبکہ تیسری طرف حال یہ ہے کہ حکومت اس ملک کی آزاد اعلی عدلیہ کو اپنے زیر نگیں کرنا چاہتی ہے۔بس اتنی سی بات تھی۔لیکن میرے مذکورہ محسن نے لکھاکہ: ’’تم نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ تنقید اور نکتہ چینی میں گزار دیا ہے۔ہم مفاہمت‘مطابقت‘موافقت اور محبت سے جو کچھ حاصل کرسکتے ہیں وہ کسی اور طرح کا انداز اختیار کرکے حاصل نہیں کرسکتے۔‘‘اس پر میں نے انہیں جو جواب بھیجا اس کو یہاں نقل کرنا ضروری نہیں ہے لیکن میں نے ارادہ کیا تھاکہ ذرامفاہمت‘مطابقت‘موافقت اور محبت کا طرز اختیارکرکے دیکھا جائے۔ مگر وزیر اعظم کے تازہ بیان نے میرے اس ارادہ پرپانی پھیر دیا ۔
آیئے پہلے وزیر اعظم کا وہ بیان دوہراتے ہیں:انہوں نے تمام 29ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے اعلی بی جے پی قائدین کوخطاب کرتے ہوئے کہا ------بیان کا یہ حصہ ذرا غور سے پڑھئے گا------کہ’’اس ملک کے نیشنلسٹ(یعنی محب وطن لوگ)تو ہمارے ساتھ ہیں۔اب دلتوں ‘ایس سی‘ایس ٹی اور قبائلیوں کواپنے ساتھ لانے کی کوشش کرنی چاہئے۔‘‘اتفاق سے جس روز میں نے اس بیان کو سامنے رکھ کر مضمون لکھنے کا فیصلہ کیا اسی روز سینکڑوں فراموش کردہ مسلم مجاہدین آزادی کے تعلق سے منعقد ایک پروگرام میں ایک دانشوردلت لیڈر نے اس بیان پر اظہار حیرت کیا۔انہوں نے اعتراض کیا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ’’ وزیر اعظم کی نظر میں دلت‘ایس سی‘ایس ٹی اور قبائلی طبقات محب وطن نہیں ہیں‘‘۔مجھے حیرت ہوئی کہ اس وقت گجرات بھر کے مسلمان عملاًاور ملک بھر کے مسلمان قولاًجس طرح دلتوں کا ساتھ دے رہے ہیں اس طرح شاید دلت ان کے بارے میں نہیں سوچ رہے ہیں۔اس پڑھے لکھے دلت لیڈر نے وزیر اعظم کے بیان میں صرف ایک ہی خطرناک پہلو دیکھا کہ ان کی نظر میں دلت محب وطن نہیں ہیں۔انہوں نے بیان کا دوسرا انتہائی خطرناک پہلو نہیں دیکھا۔
واقعہ یہ ہے کہ وزیر اعظم کا یہ بیان انتہائی خطرناک ہے۔یہ محض بیان ہی نہیں بلکہ یہ ان کے نظریے‘ان کے عقیدے‘ان کی طرز فکر‘ان کے طرز عمل‘ان کے منصوبے‘ان کے عزائم اور ان کی ذہنیت کا مکمل اور واضح اشاریہ ہے۔یہ محض ایک سادہ بیان نہیں ہے بلکہ یہ بی جے پی کے تمام ریاستی اور مرکزی اعلی قائدین کو‘شوسینااور بجرنگ دل کو‘وی ایچ پی اور آر ایس ایس کو اور اسی قبیل کے تمام شرپسند اور سخت گیر عناصر کو ایک واضح پیغام ہے کہ ----بی جے پی کے منصوبہ میں مسلمان کہیں نہیں ہیں ۔اور یہ کہ اب ان پر کوئی محنت کرنے یا ان کی فلاح کے لئے کچھ سوچنے کی ضرورت نہیں ہے۔اور یہ کہ اگرانہیں غنڈے‘جنہیں اس وقت خوب آزادی ملی ہوئی ہے‘ستاتے ہیں تو ان کی کوئی گرفت نہیں ہوگی۔ 
نریندر دامودر داس مودی اب محض بی جے پی کے ایک قائدکا نام نہیں ہے بلکہ وہ اس عظیم ملک ہندوستان کے جمہوری طورپرمنتخب ایک طاقتور وزیر اعظم کا نام ہے۔ایسا وزیر اعظم جسے بی جے پی میں پہلی باراور ملک میں راجیو گاندھی کے بعددوسری بار اتنی بھاری اکثریت سے عام انتخابات میں کامیابی ملی ہے۔جو خود اپنی زبان سے کہتا ہے کہ مجھے 125کروڑہندوستانیوں کی فکر ہے۔لیکن جب ’اپنوں‘میں بیٹھتا ہے توصرف ایک طبقہ کی بات کرتا ہے اور ایک ہی طبقہ کو محب وطن قرار دیتا ہے۔کیا ان کے بیان سے یہ واضح اشارہ نہیں ملتا کہ 2014کے عام انتخابات میں انہیں جن لوگوں(ہندؤں)نے ووٹ دیا ہے بس وہی محب وطن ہیں ۔ باقی طبقات میں دلتوں اور دیگر پسماندہ طبقات کو تحریک وترغیب دے کر محب وطن بنایا جاسکتا ہے۔لیکن مسلمان نہ محب وطن تھے‘نہ ہیں اور نہ انہیں کسی سیاسی کوشش کے ذریعہ محب وطن بنایا جاسکتاہے؟انہیں اگر مسلمانوں کا خیال ہوتا تو وہ اپنے قائدین سے یوں کہتے کہ ’’ہندؤں کی اکثریت تو ہمارے ساتھ ہے لیکن مسلمان ہمارے ساتھ نہیں ہیں۔لہذا ان سے بات کیجئے اوران کی غلط فہمیاں دور کرکے انہیں قریب لائیے‘‘۔وہ کہتے کہ ان دوبرسوں میں شرپسندوں نے گؤرکشا کے نام پرمسلمانوں کو جس طرح ستایا ہے اس سے نہ صرف بی جے پی کی بلکہ پوری دنیا میں ہندوستان کی شبیہ خراب ہوئی ہے لہذا ایسے عناصر پر قابو پائیے اور مسلمانوں کے زخموں پر مرہم رکھئے۔لیکن انہوں نے یہ کہاہی نہیں۔یاد کیجئے کہ الیکشن کے بعدبی جے پی کے قائدین نے کہا تھا کہ ہمیں مسلمانوں کے ووٹوں کی ضرورت نہیں ہے۔خود وزیر اعظم اسی رائے کے ہیں۔تو اس حساب سے مسلمان اس ملک کے وفادار اور محب وطن نہیں ہیں۔یہ پالیسی اور یہ تھیوری امریکہ کے سابق صدر سینئر جارج بش کی تھی کہ دہشت گردی کے نام پرعراق کے خلاف جاری لڑائی میں جو ساتھ دے وہ ہمارا ہے اور جو نہ دے وہ دہشت گردوں کا حامی ہے۔تو کیا ہمارے وزیر اعظم بھی جارج بش کی طرز پر سوچتے ہیں؟ان کا تازہ بیان تو یہی بتاتا ہے۔
میں نے سوچا تھا کہ وزیر اعظم کے نام ایک کھلا خط لکھ کر ان سے کہوں گا کہ :قبلہ وزیر اعظم صاحب!آپ جس جماعت سے تعلق رکھتے ہیں اس نے آزادی کے بعد سے اب تک سینکڑوں حساس معاملات اٹھاکرملک بھر میں ہمارے خلاف نفرت کا بیج بودیا ہے۔اسی جماعت کے قائدین نے پہلے بابری مسجد کے نام پر ملک بھر میں طوفان برپا کیااور پھر 1992میں اسے شہید کردیا۔اسی پر بس نہیں کیا بلکہ جب افسردہ مسلمانوں نے اس کے خلاف احتجاج کیا تو ایک طرف تو پولس نے ان کے خلاف کارروائی کی اور دوسری طرف آپ کے حامیوں نے انہیں مارا اور لوٹا۔پورے ملک میں اس گوشہ سے لے کر اس گوشہ تک یکطرفہ فسادات کی ایک لہر دوڑا دی۔مگر پیارے وزیر اعظم صاحب!ہم اس سب کو بھولنے کو تیار ہیں۔کیونکہ تنقید سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ہم آپ سے محبت کرنے کو تیار ہیں۔اور اوپر جو کچھ بیان کیا وہ تو آپ کے دورحکومت میں ہوا ہی نہیں تو اس کے لئے آپ کہاں ذمہ دارہیں؟ہم تو گجرات2002کو بھی فراموش کرنے کو تیار ہیں جو آپ کے ہی دور میں ہوا تھا۔
میں انہیں لکھتا: کہ جب سے آپ وزیر اعظم بنے ہیں لٹے پٹے طبقات کی رہی سہی آزادی بھی ختم ہوگئی ہے۔اب تو ہر وقت دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کب کوئی کسی کو پکڑ کر کہہ دے کہ یہ اپنے گھر سے گائے کا گوشت کھاکر آرہا ہے۔لہذا آپ کی پولس ‘شرپسندوں اور گؤرکشکوں کے دباؤ میں آکر بے چارے غریب لوگوں پر ملک مخالف دفعات عایدکرکے جیل میں ڈال دے۔لیکن اس کے باوجود ہم آپ سے مفاہمت اور محبت اور مطابقت کرنے کو تیار ہیں۔کیونکہ تنقید سے کچھ حاصل نہیں ہوتا جبکہ محبت سے سب کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے۔میں انہیں لکھتا کہ ’’دادری کا واقعہ ضرورہوا۔بے قصور اخلاق کو آپ کے لوگوں نے پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا۔اس کے بعد آپ کے لوگوں نے اسی مقتول کے خلاف مقدمہ بھی قائم کرادیا۔بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں‘مدھیہ پردیش‘جھارکھنڈ‘راجستھان اور گجرات میں عام مسلمانوں اور یہاں تک کہ مسلم عورتوں تک کو آپ کے گؤرکشکوں نے جی بھر کرلوٹااور ماراپیٹا۔آپ کی پولس نے بھی انہی کے خلاف مقدمے قائم کئے۔مگر ہم اس کے باوجود آپ سے محبت کرنے کو تیار ہیں کیونکہ تنقید سے کچھ حاصل نہیں ہوتا اور مفاہمت ‘مطابقت اور مصالحت سے بہت کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے۔
لیکن مشکل یہ ہے کہ یہ باتیں اب کیسے لکھوں؟وزیر اعظم کی اسکیم میں تو اس ملک کے مسلمان ہیں ہی نہیں۔اگر ہوتے تو وہ ان کا ذکر 15اگست کی سرکاری تقریر میں نہ سہی 23اگست کے پارٹی اجلاس میں تو کرتے؟جس طرح انہوں نے دلتوں کو قریب لانے کی بات کہی اسی طرح مسلمانوں سے بھی قریب ہونے کی بات کرتے توہمارے لئے آسان ہوجاتا۔ہم ان کے قریب دوڑ کر جاتے۔انہیں محبت کا گلدستہ پیش کرتے۔لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔اس کے باوجوداس ملک کے عام اور خاص مسلمان فراخ دل ہیں۔ایک کوشش اور کرکے دیکھتے ہیں۔وزیر اعظم صاحب!ہمارے بڑوں میں سے تو کئی ایک آپ کی خدمت میں حاضری بھی لگاچکے ہیں۔آپ کو مسلم مسائل سے واقف کراچکے ہیں۔لیکن آپ نے ابھی تک مسلمانوں کو قابل ذکر نہیں سمجھا۔محب وطن تو کیا آپ نے غیر محب وطن کے زمرہ میں بھی ان کا نام لیناگوارا نہ کیا۔اتنی نفرت ہے آپ کو مسلمانوں سے؟
اب میں اپنے قائدین کی طرف سے تو کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن میں چوطرفہ مسائل میں مبتلا عام مسلمانوں کی طرف سے آپ کی خدمت میں مفاہمت‘مطابقت اور محبت کا یہ پیغام بھیج رہاں ہوں۔کیا آپ بھی ہم سے مفاہمت‘مطابقت اور محبت کرنا چاہیں گے؟اس کے لئے آپ کو بس یہ کہنا ہوگا کہ مسلمان بھی محب وطن ہیں۔اس کے سوا ہمیں آپ سے کچھ نہیں چاہئے۔کیا آپ ایسا کہنے کو تیار ہیں وزیر اعظم صاحب؟

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا