English   /   Kannada   /   Nawayathi

شیوسینا کی نصف صدی ،نئی قیادت اور بھگوا اتحاد میں دراڑ

share with us

فی الحال بال ٹھاکرے یہ نصف صدی کا جشن دیکھنے کے لیے حیات نہیں ہیں مگر ان کے صاحبزداے ادھوٹھاکرے اور ان کے فرزند ادیتیہ ٹھاکرے نے شیوسینا کی باگ ڈور سنبھال لی ہے ۔بلکہ اس طرح کی قیاس آرائیاں ہیں کہ ادیتیہ کی جلد ہی تاج پوشی ہونے والی ہے۔اس بارے میں آگے ذکر کریں گے ۔
پہلے شیوسینا کی ’مراٹھی مانس ‘کے لیے کی لڑی جانے والی لڑائی اور جدوجہد کاذکر اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)کے ساتھ مہاراشٹر میں انتخابی اتحاد ،جسے آنجہانی پرمود مہاجن نے پروان چڑھایا ،لیکن ۲۰۱۴ میں ہونے والے ریاستی اسمبلی کے دوران نشستوں کی تقسیم پر تنازع میں ایک ربع صدی پرانا اتحاد ٹوٹ گیا اور ۲۰۱۷ میں ممبئی میونسپل کارپوریشن کے الیکشن سے پہلے اس بھگوا اتحاد کے مزید پارہ پارہ ہونے کا امکان ہے۔حالانکہ انتخابی نتائج کے بعد بی جے پیکی اعلیٰ لیڈرشپ کے دباؤ میں شیوسینا ایک ماہ بعد مہاراشٹر کی فردنویس حکومت میں شامل ہوگئی ،لیکن ٹکراؤ اور الزام تراشی کا دوردوہ ہے ۔
عام طورپر یہ کہا جاتا ہے کہ سیاست میں کوئی مستقل دوست یا دشمن نہیں رہتا ہے ،البتہ مفادات ضرور مستقل رہتے ہیں۔۲۵سال کا اتحاد توڑنے کے بعد شیوسینا ضرور اتحادی سرکار میں شامل ہوگئی ،لیکن ایسا کوئی دن نہیں گیا جب دونوں کی دوستی پر کچھ نہ کچھ نہیں لکھا گیا ہواور اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہوگا کہ دونوں تک یہ اتحاد ۲۰۱۹تک برقراررہ جائے کیونکہ دونوں کے مفادات مشترکہ ہیں۔دونوں میں کئی معاملات پر اختلاف پائے جاتے ہیں ،لیکن بڑا بھائی کون ؟اس پر شدید اختلاف ہے۔،شیوسینا لیڈر شپ کا ہمیشہ کہنا ہے کہ بی جے پی کو ممبئی اور مہاراشٹر میں انگلی پکڑکر آگے بڑھانے میں بال ٹھاکرے نے اہم رول اداکیاتھا ،ریاست میں مستحکم پوزیشن ہوجانے اور پرومودمہاجن کے نہ رہنے کی وجہ سے بی جے پی لیڈرشپ اپنی ہٹ دھرمی کے سبب حقیقت کوماننے کے لیے تیار نہیں دکھائی دیتی ہے۔دوسرے شخص گوپی ناتھ منڈے تھے جنہوں نے اس اتحاد کو برقرار رکھنے میں ہمیشہ مہاجن اور ٹھاکرے کا ساتھ دیا تھا۔لیکن اب تینوں ٹھاکرے ،مہاجن اور منڈے اس دنیا میں نہیں ہیں تودونوں کے درمیان بحرانی صورتحال ہے۔
شیوسینا ۔بی جے پی کے مذکورہ اتحاد کے بارے میں قیاس آرائیاں ہونے کا سبب یہ ہے کہ شیوسینا کے اپنے نصف صدی والے جشن میں اپنی اس اہم اتحاد بی جے پی کو مدعونہیں کیا ہے اور یہیں سے دونوں میں سردجنگ چلے گی ،دونوں کے اتحاد میں دراڑ پڑنے کے کئی اسباب ہیں،لیکن ایک سب سے اہم سبب شیوسینا کے ترجمان سامنا میں بی جے پی سرکار اوراس کے بدعنوان وزیروں کے خلاف تلخ اداریے ہیں جس سے بی جے پی لیڈرشپ سخت نالاں ہے۔حال میں ایکناتھ کھڑسے کو کابینہ سے چلتا کیا گیا جن پر کئی بدعنوانیوں میں ملوث ہونے کا الزام تھا ،لیکن جو چیز ان کے استعفیٰ کا سبب بنی وہ ان کے داؤ دابراھیم کے مبینہ تعلقات تھے۔دراصل ان موبائیل نمبر پر کراچی سے کئی کالز موصول ہوئے اور ایک ہیکرز نے انکشاف کیا کہ یہ کراچی میں داؤدکے بنگلے کا نمبر ہے۔جو بی جے پی کے گلے کی ہڈی بن گیا اور فوراً ہائی کمان نے انہیں ہٹانے کا آرڈر دے دیا۔
شیوسینا ۔بی جے پی کے درمیان فی الحال جو تعلقات ہیں ،انہیں ایک ناخوشگوار ازدواجی زندگی کے طورپر دیکھا جاسکتا ہے اور صرف اپنے اپنے مفادات کے سبب ایک دوسرے کو گلے لگا کر رکھا گیا ہے۔اگر دونوں میں اتحاد ٹوٹ گیا تو اس کا اثر قومی سطح پر پڑے گا کیونکہ بی جے پی نے حالیہ اسمبلی انتخابات میں صرف آسام کو چھوڑ کر کوئی اہم اور خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں کی ہے ،اس لیے اسے کئی ریاستوں میں علاقائی پارٹیوں کی تلاش ہے۔پنجاب میں نشہ کی لت نے نوجوانوں کو برباد کردیا ہے ،اس کا احساس بی جے پی اور ہمنوا پارٹیوں کوبھی ہے ،لیکن اکالی دل کی شکل میں پرانے اتحادی کو وہ چھوڑنا نہیں چاہئے گی ۔جو غلطیاں بی جے پی نے حال میں کی ہیں،ان میں اتراکھنڈمیں صدرراج نافذ کرنے کامعاملہ ہے اور اس سے اتحادی خاصے ناراض ہوئے تھے۔
۲۰۱۷دونوں کے لیے مہاراشرمیں کافی اہمیت کا حامل ہے ،دیویندر فردنویس کی مشکلات ان ڈیڑھ دوسال میں کم نہیں ہوئی ہیں ،قحط زدہ علاقوں کے ساتھ ساتھ مہنگائی کا جن سرچڑھا ہوا ہے۔اس کے ساتھ ہی بدعنوانی میں کھڑسے کے بعد کئی وزیروں کے ملوث ہونے کے معاملات سامنے آئے ہیں ،دووزیروں گریش باپٹ اور گریش مہاجن سرفہرست ہیں ،مہاجن نے اپنی ملکیت کی زمین کی تفصیل اسمبلی الیکشن کے دوران الیکشن کمیشن میں پیش نہیں کی اور باپٹ کی ایک ایسی تصویر شائع ہوئی ہے جس میں وہ وزیراعلیٰ کی موجودگی میں ایک خاتون کا ہاتھ پکڑ کر کھڑے نظرآرہے ہیں اور سوشل میڈیا پر تصویر کی وجہ سے ہنگامہ مچا ہوا ہے۔شیوسینا اس سے پورا موقعہ اٹھانا چاہتی ہے۔
۲۰۱۷میں ممبئی ،تھانے میونسپل کارپوریشن سمیت ۹ کارپوریشن کے ساتھ ساتھ ۲۶ضلع پریشد کے الیکشن ہونے والے ہیں ۔اور شیوسینکوں کا مطالبہ ہیکہ سینا ایک گراس روٹ پارٹی ہے ،اس لیے پارٹی ہائی کمان کو اپنے بل بوتے پر میدان میں اترنا چاہیے ۔آثار ایسے نظر ضرور آرہے ہیں ،لیکن سیاسی حالات روزبروز بدلتے ہیں،اسلیے کب کیا ہوجائے ،یہ پارٹیاں اپنے مشترکہ مفادات کے لیے کئی سمجھوتے کرلیں ،اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
ویسے حقیقت یہ بھی ہے کہ بی جے پی نے بھی صدفیصد بی جے پی کا نعرہ لگایا ہے اور اسمبلی الیکشن کی طرح کارپوریشن اور میونسپلٹیوں کی سطح پر قسمت آزماچاہارہے ہیں۔۲۰۱۴میں یہی فارمولا استعمالکیا گیا اورکامیابی ملی تھی اور مستقبل میں بھی ایسے تجربے کئے جائیں گے ۔
دراصل بی جے پی نے مصلحت کے طورپر شیوسینا سے قربت رکھی کیونکہ اسے مہاراشٹر میں اپنے پیرپسارنے تھے ،جب آنجہانی بال ٹھاکرے کو اس کااندازہ ہوگیا تو انہوں نے ہندتواکا ایجنڈا بی جے پی سے ہتایا لیا اور ہندوہردیہ اسمراٹ بن گئے،لیکن بعد میں ادھوٹھاکرے اسے بھنا نہیں پائے۔ان دوسال میں جو حالات پیدا ہوئے ہیں۔اسے ادھوکی اہمیت کم کردی ہے اور یہی وجہ ہے کہ بال ٹھاکرے کی تیسری نسل کی شکل میں ادیتیہ کو چانس دیئے جانے کا منصوبہ بنایا جارہا ہے اور ان کی تاج پوشی کی تیاری جاری ہے۔یہ بھی عجیب بات ہے کہ کانگریس کو خاندانی راج کا طعنہ دینے والی بی جے پی نے مہاراشٹر اور پنجاب میں جن پارٹیوں سے اتحاد کیاہے ،وہ خود یعنی شیوسینا اور اکالی دل اس پر عمل کررہے ہیں۔
شیوسینا کے اندرونی ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ نصف صدی کی تقریب کے موقعہ پر ادیتیہ صدفیصد سیاست کا رُخ کرلیں۔پہلے ۲۰ فیصد سیاسی تھے اور ۸۰فیصدسوشل ورک کرتے تھے ،لیکن اب ۱۰۰فیصد کا بگل بجنے والا ہے ۔کیونکہ بی جے پی کا اثر کم ہوا ہے اور ادیتیہ کی شکل میں شیوسینا لیڈرشپ نوجوان کو متاثر کرنا چاہتی ہے اور اگر یہ حربہ کامیاب رہا تو بی جے پی کی قربت اور ۲۵سالہ بھگوا اتحاد پارہ پارہ ہوجائے گا۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا