English   /   Kannada   /   Nawayathi

راہل کے سر پر کانٹوں کا تاج یاپرینکا بچائینگی کانگریس کی لاج؟

share with us

یعنی زیادہ سے زیادہ اگلے ماہ تک کانگریس ورکنگ کمیٹی کے فیصلے پر مہر لگ جانے کا امکان ہے کیونکہ گاندھی خاندان میں یہ تقریبا طے ہو گیا ہے کہ راہل کو کانگریس کی ذمہ داری سونپ دینی چاہئے۔ حالیہ اسمبلی انتخابات میں خاص طور پر آسام میں شکست کے بعد یہ بھی بحث زوروں پر ہے کہ کانگریس کو اپنے اقلیتی ووٹوں پر دھیان دینا چاہئے کیونکہ جس طریقے سے بدرالدین اجمل نے مسلم ووٹوں پر اپنی گرفت برقرار رکھی،اس سے بی جے پی کو فائدہ ہوا اور کانگریس بی جے پی سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کے باوجود بھی ہار گئی۔ظاہر ہے کہ اگر راہل گاندھی پارٹی صدر بنتے ہیں تو انھیں اس جانب توجہ مرکوز کرنا ہوگا۔اسی کے ساتھ انھیں علاقائی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کرنے کے امکانات پر بھی دھیان دینا ہوگا۔ کچھ سال پہلے شملہ میں ایک چنتن کیمپ ہوا تھا اور اس کے بعد کانگریس نے باقی جماعتوں کے لئے اپنے دروازے کھولے تھے، پھر جے پور کے چنتن کیمپ میں راہل کو نائب صدر بنایا گیا تھا۔ اب اترپردیش میں انتخابات ہیں اور اس سے قبل راہل کا صدر بنائے جانے کی بات اٹھ رہی ہے تو یقینی طور پر اترپردیش میں کانگریس کی آزمائش ہوگی اور راہل کی بھی۔ ویسے بی جے پی کی بھی یہیں آزمائش ہونی ہے اور یہی الیکشن فیصلہ کرے گا کہ ملک کی سیاست کی اگلی سمت کیا ہوگی۔ یہاں پارٹی کی حکمت عملی طے کرنے کی ذمہ داری پوری طرح راہل گاندھی کی ہوگی اور جیت ،ہار کا اثر ان کی امیج پر پڑے گا۔ سب سے اہم فیصلہ راہل کو یہ کرنا ہوگا کہ اترپردیش کی باگ ڈور کس کو سونپی جائے؟ کیا راہل خودیوپی کی کمان سنبھالینگے یا پرینکا سیاست میں کھل کر آئیں گی؟ کانگریس میں سب کو پتہ ہے کہ پرینکا ان کے لئے ایک ایسا ترپ کا پتہ ہیں جن پر ایک بڑا داؤ تو لگایا ہی جا سکتا ہے مگر اس کا غلط استعمال نقصاندہ بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ حالیہ دنوں میں پہلے اگستاویسٹ لینڈ ہیلی کاپٹر سودے میں سونیا گاندھی اور پھر پرینکا کے شوہر رابرٹ واڈرا پر لندن میں ایک گمنام جائیداد کا معاملہ سامنے آیا ہے۔یوپی اسمبلی الیکشن کے بعد گانگریس کو یہ بھی طے کرنا ہے کہ ۲۰۱۹ کے لوک سبھا انتخابات میں اس کی حکمت عملی کیا ہوگی اور علاقائی پارٹیوں کے ساتھ اسے کیسے ڈیل کرنا ہے؟ 
کیا کانگریس کی نیا پارلگائینگے راہل؟
راہل گاندھی کو کانگریس کی کمان سونپنے کی اٹکلیں بہت پہلے سے لگ رہی ہیں مگر سب سے بڑا اور اہم سوال یہ ہے کہ کیا وہ پارٹی کی ڈوبتی کشتی کو بچاپائینگے؟ وہ اس میں نئی روح پھونکیں گے یا اب قبر میں دفنانے والے ہیں؟ کیا اب ملک کو جمہوری ہندوستان کے شاہی خاندان سے نجات مل جائے گی؟ یا ایک بار پھر کانگریس کا نیا جنم ہوگااوروہ دوبارہ پوری قوت سے ابھر کر آئے گی؟ سوال یہ بھی ہے کہ وہ اگرپوری پارٹی کے تنہا مالک بن جاتے ہیں اور تمام فیصلے اپنی مرضی سے کرنے لگتے ہیں تو کیا وہ مغل بادشاہ ہمایوں کی طرح دوبارہ ہندوستان کے اقتدار پر قابض ہوجائیں گے یا پھر وہ بہادر شاہ ظفرؔ کی طرح آخری تاجدار ثابت ہونگے؟ پارلیمنٹ کے بجٹ سشن میں جب کہ راہل کی کانگریس کو ضرورت تھی وہ ناراض ہوکر گھر چھوڑ چلے گئے تھے۔ وہ کہاں گئے تھے ؟آج تک کسی کو معلوم نہیں ہوسکا۔ اگرچہ کانگریس کی طرف سے کہا گیا تھا کہ راہل نے غورو فکر اور پارٹی کے مستقبل پر خود احتسابی کے لئے چھٹی لی تھی ، حالانکہ ذرائع کے مطابق پارلیمانی انتخابات میں شکست کا ٹھیکرا ان پر پھوڑنے سے بھی راہل گاندھی ناراض تھے۔فی الحال راہل کو صدر بنانے کو لے کر پارٹی کے کچھ لیڈران کی طرف سے مطالبہ اٹھ رہا ہے تو سینئراور جہاندیدہ نیتاؤں کو لگتا ہے کہ راہل میں اب بھی پختگی نہیں آئی ہے اور انھیں کانگریس کے اندر تمام فیصلوں کا اختیار دینا ہلاکت خیز ہوسکتا ہے۔ بات یہ ہے کہ کانگریس کے سینئر لیڈران کواب بھی لگتا ہے کہ راہل گاندھی سیاسی طور پر بالغ نہیں ہوئے ہیں اور ان کے شعور میں پختگی نہیں آئی ہے۔
کیا پرینکا بھی سرگرم سیاست میں آئینگی؟
لوک سبھا انتخابات میں شکست کے بعد ہی یہ مطالبہ کانگریس کے اندر زور پکڑنے لگا تھا کہ راہل کے بجائے پرینکا کو پارٹی کی کمان سونپی جائے، کیونکہ راہل فیل ہوچکے ہیں اور کوئی کرشمہ نہیں کر پار ہے ہیں۔ اب جب کہ یوپی میں ودھان سبھا چناؤ ہے تو میڈیا میں خبر آئی کہ کانگریس کے مینیجر پرشانت کشور چاہتے ہیں کہ یہاں راہل یا پرینکا کو وزیراعلیٰ کے عہدے کے لئے امیدوار بنایا جائے۔ماضی میں یہ خبر بھی آچکی ہے کہ پرینکا گاندھی کوپارٹی کاقومی جنرل سکریٹری بنا یاجاسکتا ہے، حالانکہ اس کے امکانات دکھائی نہیں دیتے۔راہل گاندھی پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اگر پرینکا پارٹی میں سرگرم ہوتی ہیں تو یہ ان کا اپنا فیصلہ ہوگا۔ وہ ایک بھائی کے طور پر ان کی مدد کریں گے مگر وہ بہن پر سیاست میں آنے کے لئے دباؤ نہیں دیں گے ۔دراصل راہل ماضی میں پرینکا گاندھی کوپارٹی میں لانے کی وکالت کرچکے ہیں۔ راہل گاندھی خود کو پارٹی صدرتو پرینکا گاندھی کوپارٹی کی طرف سے اہم چہر ہ بناناچاہتے ہیں۔یہ بھی سچ ہے کہ راہل، حکومت کے بجائے تنظیم میں کام کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں، مگر اسی کے ساتھ یہ بھی سچائی ہے کہ جب وہ اپنے کام میں ماں کی مداخلت برداشت نہیں کرتے تو بہن کی کیسے برداشت کرینگے۔
کانگریس میں ٹوٹ کا خطرہ
اگر راہل گاندھی کانگریس صدر بنتے ہیں تو کیا پارٹی کے اندر تنظیمی سطح پر بڑا بدلاؤ ہوگا؟ اس قسم کا سوال پہلے بھی اٹھتا رہا ہے اور اب بھی اٹھ رہا ہے۔گزشتہ سال پارٹی نے تمام ریاستوں کی پارٹی اکائیوں سے مشورے مانگے تھے کہ کس طرح سے پارٹی کو مضبوط کیا جائے ،اس پر بیشتر ریاستی اکائیوں نے پارٹی میں کسی بڑی تبدیلی سے بچنے کا مشورہ دیا تھا اور سب سے زیادہ زور پارٹی کے اندرونی اختلافات کو دور کرنے پر دیا تھا۔ کہا گیا کہ پارٹی متحد ہو کر اجتماعی قیادت میں آگے بڑھے۔ذرائع کے مطابق، زیادہ تر یونٹیں راہل گاندھی کے ’’کامراج پلان‘‘ کو عمل میں لا کر مکمل نیا تنظیمی ڈھانچہ کھڑا کرنے کی سوچ سے خوف زدہ ہیں۔ انھیں لگتا ہے کہ اس وقت جو لوگ پارٹی میں اہم عہدوں پر ہیں ان کی پوزیشن خطرے میں ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ پارٹی اس وقت بڑی تبدیلی کے لئے تیار نہیں ہے۔ اگر ایسی کوئی تبدیلی ہوتی ہے تو نتائج مثبت نہیں ہوں گے۔ ریاستی اکائیوں نے اعلی کمان کو یہ جتا دیا ہے کہ پرانے لوگوں کو پوری طرح کنارے کئے جانے سے نئے لوگ تنظیم نہیں کھڑی کر پائیں گے، بلکہ پارٹی میں ٹوٹ کاخطرہ بھی ہو سکتا ہے۔گویا ان لیڈروں کی طرف سے یہ پارٹی اعلیٰ کمان کو کھلی دھمکی ہے۔ ایسے میں راہل کے لئے کام کرنا اور تنظیمی سطح پر پارٹی کے اندر کوئی بدلاؤ کرنا بھی ایک چیلنج ہوگا۔
کانگریس میں دورائے
جہاں ایک طرف بی جے پی کی طرف سے کانگریس سے ملک کو مکمل طور پر آزاد کرانے کا نعرہ لگایا جارہا ہے، وہیں دوسری طرف کانگریس کے اندر لیڈر شپ کی جنگ جاری ہے۔ ایک طبقہ چاہتا ہے کہ کانگریس کی مکمل قیادت راہل گاندھی کے ہاتھ میں چلی جائے، وہیں دوسرا طبقہ فی الحال اس کے لئے مناسب وقت نہیں سمجھتا۔ اس کا ماننا ہے کہ ابھی سونیا گاندھی کو ہی پارٹی کا صدر رہنا چاہئے۔ اس تعلق سے ماضی میں امبیکا سونی اور سندیپ دکشت کے بیانات آچکے ہیں۔کل ہند کانگریس کمیٹی کی سیکرٹری جنرل امبیکاسونی نے زور دے کر کہا کہ پارٹی کو صدر کے طور پر سونیا گاندھی کی ضرورت ہے۔ حالانکہ انہوں نے راہل گاندھی کا بھی زوردار دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک کی قیمت پر دوسرے کے ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں ہے۔ اس سے پہلے پارٹی کے سابق ممبر پارلیمنٹ سندیپ دکشت نے کہا تھا کہ پارٹی میں 99 فیصد لوگوں کی رہنما سونیا ہیں اور پارٹی کے مرکز میں ان کی ضرورت ہمیشہ سے کہیں زیادہ ہے۔
کانگریس پھر لوٹے گی؟
کانگریس ایک بار پھر اقتدار میں لوٹے گی یا تاریخ کا حصہ بن جائے گی؟ راہل گاندھی پارٹی میں نئی جان ڈالنے میں کامیاب ہونگے یا آخری مغل تاجداربہادر شاہ ظفر کی طرح گاندھی سلطنت کے آخری شہزادے ثابت ہونگے؟ ان سوالوں پر قیاس آرائیاں جاری ہیں اور ان کا جواب مستقبل کے دامن میں ہے مگر کانگریس کے لیڈر ان پرامید ہیں اور انھیں لگتا ہے کہ راہل نئی توانائی کے ساتھ مؤثر طریقے سے قیادت فراہم کریں گے۔ کانگریس ورکنگ کمیٹی کے رکن اے کے انٹونی کے مطابق انہیں یقین ہے کہ راہل گاندھی پارٹی کو مضبوط کرنے کے قابل ہیں۔ سونیا گاندھی اور راہل گاندھی کی قیادت میں کانگریس پارٹی پھر سے واپسی کرے گی۔بہرحال یہ تو نہیں معلوم کہ انٹونی کی خوش گمانی کس قدر درست ثابت ہوگی مگر اب تک راہل گاندھی نے کوئی ایسا کام نہیں کیا ہے جس سے ان کی سیاسی بالغ نظری کا ثبوت ملے۔ اگر انھوں نے پارٹی کی ٹھیک طریقے سے قیادت کی ہوتی تو اس کا جو حشر ہوا وہ کبھی نہیں ہوتا۔ ان کے قریبی لوگ مانتے ہیں کہ راہل کسی کی نہیں سنتے اور دوسروں کے تجربوں سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔ وہ بچوں کی طرح ضد کرتے ہیں اور اس کا ثبوت ہے پارلیمنٹ کے بجٹ اجلاس کے دوران ان کا چھٹی پر چلے جانا۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا