English   /   Kannada   /   Nawayathi

سری لنکامیں اسلام : ماضی اورحال

share with us

اسی کتاب میں پیچھے گزر چکا ہے کہ سرندیپ کا ایک وفد بارگاہ رسالت میں حاضری دینے کی غرض سے مدینہ گیا تھا مگر پہنچنے میں اتنی تاخیر ہوگئی کہ حضرت عمر فاروق کا دورخلافت آگیا۔ بہرحال خلیفۂ وقت سے مل کر اور حقیقت حال معلوم کرکے ایک شخص واپس بھی آیا تھا۔ اس واقعے کو ایرانی سیاح وجہاز راں بزرگ بن شہریار نے اپنے سفرنامے ’عجائب الہند‘میں بیان کیا ہے۔ مغل عہد کے معروف مورخ محمد قاسم فرشتہ کی کتاب’’ تاریخ فرشتہ‘‘،جلد۲، مقالہ۶، کے مطابق سرندیپ کا راجہ مسلمان ہوگیا تھا اور اسی سبب سے سرندیپ والے مسلمانوں سے خاص لگاؤ رکھتے تھے۔ بزرگ بن شہر یار نے ’عجائب الہند‘ میں یہاں کے سنیاسیوں اور اور سادھووں کے بارے میں لکھا ہے، جو جنوبی ہند میں آبسیتھے۔ وہ لکھتاہے:
’’ہندوستان کے پجاریوں، سنیاسیوں اور جوگیوں کی کئی قسمیں ہیں۔ ان میں سے ایک بیکور(بھکشو؟) ہوتے ہیں، جن کی اصل سرندیپ سے ہے۔ یہ مسلمانوں سے بہت محبت کرتے ہیں اور ان کی طرف بہت میلان رکھتے ہیں۔ وہ گرمی کے موسم میں ننگے رہتے ہیں، صرف چار انگل کی لنگوٹی کمر میں ایک ڈوری لگا کر باندھ لیتے ہیں اور جاڑوں میں گھاس کی چٹائی اوڑھ لیتے ہیں، اور ان میں سے بعض ایسا کپڑا پہنتے ہیں جس کو مختلف رنگوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں سے جوڑ کر ،سی لیتے ہیں،اور بدن پر مردوں کی جلی ہوئی ہڈیوں کی راکھ مل لیتے ہیں اور سر ،داڑھی مونچھ کے بال منڈاتے ہیں اور دوسرے بال بڑھاتے ہیں۔ گلے میں انسان کی کھونپڑی لٹکائے رہتے ہیں اور عبرت وخاکساری کے لئے اسی میں کھاتے ہیں۔‘‘ 
(عجائب الہند،ص۱۵۵)
متعدد تاریخی حوالوں سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ برصغیر میں اسلام کا پہلا مرکز سرندیپ یا سری لنکا تھا۔ اس خطے میں ۴۰ھ کے آس پاس اسلام کی اشاعت ہوگئی تھی۔ یہاں تک کہ اس جزیرے کے راجہ نے بھی اسلام قبول کرلیا تھا، یہی وجہ تھی کہ یہاں کے بعد کے راجگان اور باشندے بھی مسلمانوں کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے تھے اور یہ سلسلہ آگے بھی جاری رہا۔ پہلی صدی ہجری کے اخیر میں پیش آنے والے ایک تاریخی واقعے سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے،جس کا ذکر بلاذری نے ’’فتوح البلدان‘‘ میں کیا ہے اور بعد کے متعدد مورخین نے اسے نقل کیا ہے۔ واقعہ یوں ہوا کہ جب امویوں کی حکومت تھی اور حجاج بن یوسف عراق کا گورنر تھا،اسی زمانے میں سری لنکا میں رہ کرتجارت کرنے والے مسلمانوں میں سے کسی کی موت ہوگئی اور اس کے ساتھ مال واسباب کے علاوہ اس کے اہل خاندان بھی تھے۔ چنانچہ یہاں کے راجہ نے دوستی اور خلوص کے اظہار کے لئے کچھ تحفے تحائف کے ساتھ مسلمان تاجر کے اہل خاندان واسباب کو ایک جہاز میں سوار کر کے عراق کے لئے روانہ کردیا۔ اسی جہاز کو سندھ کے قریب سمندری لٹیروں نے لوٹ لیا تھا اور یہی واقعہ محمد بن قاسم کے سندھ پر حملے کا بنیادی سبب قرار دیا جاتا ہے۔اس واقعے کو’’ فتوح البلدان‘‘ میں یوں بیان کیا گیا ہے:
’’جزیرہ یاقوت (سری لنکا) کے راجہ نے حجاج کے پاس کچھ عورتیں تحفے میں بھیجیں۔(یا تحفے کے ساتھ بھیجیں) یہ عورتیں مسلمان تھیں اور اسی راجہ کے ملک میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے آباء واجداد یہاں تجارت کرتے تھے اور یہیں فوت ہوگئے تھے۔ راجہ نے حجاج کو خوش کرنے کے لئے ان عورتوں کو بھیجا تھا۔ جس کشتی میں یہ سوار تھیں دیبل کے میدوں نے جو جنگی کشتیوں میں سوار تھے، ان کشتیوں اور ان کے کل سامان پر قبضہ کرلیا۔ قبیلہ بنی یربوع کی ایک عورت نے حجاج کی دہائی دی۔ حجاج کو جب یہ خبر معلوم ہوئی تو اس نے جواب میں کہلا بھیجا کہ وہ عورتوں کو چھڑا کر بھیج دے۔ داہر نے جواب دیا کہ انھیں بحری قزاقوں نے پکڑا ہے،جو میرے بس سے باہر ہیں۔‘‘ 

اس واقعے سے ظاہر ہے کہ محمد بن قاسم کے سندھ پر حملے سے قبل سری لنکا میں مسلمانوں کی بستیاں بس چکی تھیں۔ یہ حملہ۹۳ھ میں ہوا تھا،مگر اس سے پہلے سری لنکا میں مسلمان رہتے سہتے تھے اور تجارت کیا کرتے تھے، کیونکہ بلاذری کی تحریر کے مطابق جو عورتیں جہاز سے عراق جا رہی تھیں وہ سری لنکا میں ہی پیدا ہوئی تھیں۔
سری لنکا میں اسلام کی آمد عرب تاجروں کے سبب ہوئی مگر اس کی اشاعت میں صوفیہ کا بھی حصہ رہا،جو یہاں قدم آدم کی زیارت کے لئے آیا کرتے تھے اور یہاں کے باشندے ان سے بیحد عقیدت رکھتے تھے۔یہاں جو عرب یا ایران کے صوفیہ آتے تھے ان سے لوگوں کی عقیدت کا یہ عالم تھا کہ ان کی عبادت اور چلہ کشی کی جگہوں کو بطوریادگار اور خیر وبرکت محفوظ کرلیا جاتا تھا۔ ابن بطوطہ نے اپنے سفرنامے میں ان مقامات کا بھی ذکر کیا ہے جو لوگوں کی عقیدت کا مرکز بن گئے تھے۔ ان میں خواجہ خضر اور بابا طاہر کے غار بھی تھے۔ یہاں عوام میں صوفیہ کی کرامتیں مشہور تھیں انھیں میں سے ایک شیخ عبداللہ خفیف رحمۃ اللہ علیہ کی بھی کرامت تھی کہ چیلاؤ (سالائم)کے مقام پر ہاتھی کثرت سے پائے جاتے تھے،مگر یہ کسی کو نقصان نہیں پہنچاتے تھے۔ ایسا مذکورہ شیرازی بزرگ کی دعاء کے سبب تھا۔ ابن بطوطہ کے مطابق جب سے یہ کرامت ظاہر ہوئی یہاں کے غیر مسلم ،حضرت عبداللہ خفیف کے نام کا احترام کرتے ہیں۔مسلمانوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے ہیں اور انھیں اپنے گھروں میں بال بچوں کے بیچ ٹھہراتے ہیں۔حالانکہ یہاں کاراجہ بت پرست تھا مگر مسلمانوں کی عزت کی جاتی تھی۔
اکیسویں صدی میں بھی صوفیہ کی کچھ یادگاریں باقی ہیں اور عوام ان سے اکتساب فیض کرتے ہیں۔ سری لنکا میں کوہ آدم سے کچھ دور جیلانی کے مقام پرایک خانقاہ ہے جسے شیخ عبدالقادر جیلانی کی خانقاہ کہتے ہیں۔ یہ صدیوں پرانی خانقاہ کس بزرگ کی تعمیر کردہ ہے یہ تو پتہ نہیں البتہ ایک بات تو طے ہے کہ یہاں کبھی بھی قادریہ سلسلے کے بانی شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ تشریف نہیں لائے۔ممکن ہے یہ ان کے سلسلے کے کسی بزرگ کی خانقاہ ہو جو یہاں تشریف لائے ہوں۔ یہ خانقاہ اس خطے میں تصوف کی قدامت کو ظاہر کرتی ہے۔
سری لنکا میںیہ سلسلہ بعد کے دور میں بھی جاری رہا اور آج بھی اہل اللہ کااحترام کیاجاتا ہے ۔ گزشتہ دو دہائیوں میں بھی یہاں کئی صوفیوں کو مقبولیت ملی اور ان کے صوفی سلسلوں کی اشاعت ہوئی۔ ان میں ایک شیخ عبداللہ بن عمر بادیب یمنی ہیں جن کی سری لنکا آمد ۵۸ ۱۸ء میں ہوئی۔انھوں نے مکہ معظمہ میں تعلیم پائی تھی اور اس بعد مصر کی مشہور یونیورسیٹی جامعہ الازہر سے فارغ التحصیل ہوکر یہاں آئے تھے۔یہ دینی علوم کے مختلف شعبوں میں تو مہارت رکھتے ہی تھے سائنس میں بھی ماہر تھے۔ انھوں نے مسلمانوں کو تعلیم کے شعبے میں آگے بڑھانے کی کوشش کی۔ شیخ نے کئی کتابیں تحریر کیں اور قادری سلسلے کی اشاعت کی۔
۲۰۱۳ء میں سری لنکا میں مسلمانوں کی کل آبادی بیس لاکھ سے زیادہ ہے۔ یہ ملک کی کل آبادی کا دس فیصد ہیں،جو نسلی اعتبار سے تین حصوں میں منقسم ہیں۔ ان میں سب سے بڑا گروپ مور(MOOR) کہاجاتا ہے ۔ یہ سری لنکا کے قدیم باشندے ہیں۔ یہ ان عرب تاجروں کی اولاد ہیں جو صدیوں پہلے یہاں چلے آئے تھے، اور پھر یہیں کے ہوکر رہ گئے۔ ان میں وہ مقامی باشندے بھی شامل ہیں جو بہت پہلے عرب تاجروں یا ان کی اولاد کے اثر سے مسلمان ہو گئے تھے۔ ان لوگوں نے مقامی اثرات کو قبول کرلیا ہے اور اس طرح سے یہ عرب و سری لنکن تہذیب کے اختلاط سے ایک الگ تہذیب کو جنم دے چکے ہیں۔یہ لوگ اسلامی اصولوں کی پابندی کرتے ہیں اورسوفیصدافراد سنی ہیں۔ یہ لوگ فقہی مسلک شافعی کی پیروی کرتے ہیں۔انھوں نے اپنے مذہب اور تہذیب کے دائرے میں رہ کر تعلیم حاصل کرنے کے لئے بہت سے مدرسے اور اسکول قائم کئے ہیں۔
انٹرنیٹ کے وکی پیڈیا سے حاصل شدہ جانکاری کے مطابق سری لنکا کے مسلمانوں کے اپنے قائم کردہ ۷۴۹،اسکول اور ۲۵۰، دینی مدرسے ہیں،جبکہ ایک اسلامی یونیورسیٹی(جامعہ نعیمیہ) بھی ہے۔ یہاں پانچ ہزار مسجدیں ہیں،جن میں بعض بہت عالیشان ہیں اور تاریخی اہمیت کی حامل ہیں۔ 
عرب سے آنے والے مسلمانوں کے سبب یہاں کی تہذیب و زبان میں بہت سے عرب و اسلامی اثرات شامل ہوگئے ہیں۔ انھوں نے یہاں کے نومسلموں میں شادی بیاہ کیے اورایک مخلوط نسل کی بنیاد رکھی۔مقامی بول چال کی زبان بھی ان سے متاثر ہوئی ہے اور عربی وفارسی کے بہت سے الفاظ لوگوں کی زبان کا حصہ بن چکے ہیں۔ انھوں نے دینی تعلیم کے لئے بہت سے مدرسے قائم کرلئے ہیں اور سختی سے مذہبی اصولوں کی پابندی کرتے ہیں۔یہ لوگ دوسرے مقامی باشندوں کی طرح ہی کاشتکاری کرتے ہیں، ماہی گیر ہیں یا تجارت پیشہ ہیں۔حالانکہ اب دوسروں کی طرح یہ بھی جدید پیشوں میں آرہے ہیں اور آج کے سری لنکن مسلمان ڈاکٹر ہیں، انجینیئر ہیں،اکاؤنٹس کے شعبے سے جڑے ہوئے ہیں اور سرکاری وغیر سرکاری نوکریوں میں ہیں۔ ان میں سے کچھ لوگ روزگار کے سلسلے میں خلیجی ممالک کارخ بھی کر رہے ہیں۔
سری لنکا میں جو مسلمان آباد ہیں ان میں تھوڑی تعداد ملیشیائی نسل کے مسلمانوں کی بھی ہے ، جو انڈونیشیا اور ملیشیا سے ڈچوں اورانگریزوں کے ذریعے لائے گئے لوگوں کی اولاد ہیں اور اب پوری طرح سری لنکا کے سماج کا حصہ ہیں۔ ان کے اجداد فوجی کی حیثیت سے یہاں آئے تھے۔اندازہ ہے کہ ان کی تعداد ۲۰۱۳ء میں پچاس ہزار سے کچھ زیادہ ہے۔
سری لنکا میں خاصی تعداد ہندوستانی نسل کے لوگوں کی بھی ہے۔ ان میں ایک تو تمل مسلمان ہیں جو کبھی جنوبی ہند سے یہاں آئے تھے اور اب یہیں کے ہوگئے ہیں۔ ان میں وہ تمل بھی شامل ہیں جو یہیں مسلمانوں کے اثر میں آکر اسلام کے دامن میں آئے ہیں۔ تمل مسلمان دوسروں کے مقابلے بہتر تعلیمی اور معاشی حیثیت رکھتے ہیں، کیونکہ یہ برطانوی عہد میں اہم سرکاری عہدوں پر فائز تھے اور تعلیم میں بھی آگے تھے۔ یہ عام طور پر شافعی فقہی مسلک کی پیروی کرتے ہیں۔ یہ خود کو مسلم طبقے کا لازمی حصہ گردانتے ہیں اور تمل ہندووں کے ساتھ کسی قسم کا سیاسی اشتراک نہیں رکھتے۔
یہاں گجرات (بھارت)کے میمن، خوجہ اور بوہرے بھی ہیں جو سری لنکا تجارت کی غرض سے سو ، دوسوسال کے اندر آئے ہیں۔ ان میں ایسے ہندوستانی بھی ہیں جو حالیہ دور میں یہاں تجارت کے مقصد سے آئے اور پھر یہیں کے ہوکر رہ گئے۔ اب پاکستانی مسلمان بھی پائے جاتے ہیں،اوراکا دکا بنگلہ دیشی بھی دکھ جاتے ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان سے یہاں آکر بسنے والے عام طور پرسنی، حنفی ہیں مگرخوجہ اور بوہرے شیعوں کے ایک فرقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہاں چند قادیانی بھی پائے جاتے ہیں،جنھیں عام مسلمان ،غیر مسلم تصور کرتے ہیں۔
سری لنکا میں اسلام کی آمد اگرچہ صحابہ کے دور میں ہی ہوچکی تھی مگر دھیرے دھیرے اس کے اثرات پھیلتے رہے اور آج بھی اس کی اشاعت کا سلسلہ جاری ہے۔ یہاں آج بھی لوگ اسلام کے بارے میں جان کر یا مسلمانوں سے تعلقات کے سبب مسلمان ہوتے ہیں۔ گو اب اسلام کی اشاعت بہت سست رفتاری سے ہورہی ہے مگر یہ بات صرف سری لنکا کی حد تک ہی نہیں ہے بلکہ عالمی سطح پر کہی جاسکتی ہے۔سری لنکا میں متعدد مسلمان دعوتِ دین کے میدان میں کام کر رہے ہیں اور غیرمسلم بھائیوں تک اسلام کا پیغام پہنچانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا