English   /   Kannada   /   Nawayathi

والدین کا مقام اسلامی نقطۂ نظر سے !!!

share with us

و ان تعدو ا نعمت اللہ لا تحصوہا(سور ہ ابراہیم :۳۴) ''اگر تم اللہ کی دی ہو ئی نعمتوں کو گننا چا ہو تو نہیں گن سکتے ہو ''ہر نعمت کی اپنی جگہ بڑی اہمیت و حیثیت ہو تی ہے لیکن اس کرۂ ارض پر پا ئی جانے والی نعمتوں میں کون سی نعمت ہے جو ہر کسی کو میسر ہے ؟ آنکھ ، زبان ، قلب و جگر ، اعضاء و جوارع، دولت و ثروت ، بلڈنگ و بنگلہ ، فصاحت و بلاغت ، شجاعت و بہادری،سخاوت و فیاضی، شہرت و نام وری؟ نہیں ہر گز نہیں ۔ بلکہ وہ مقدس ہستی ''ماں ''ہے ۔ 
ماں باپ اس جہاں میں سب سے بڑی ہے دولت 
سچ پو چھئے تو یہ ہیں دونوں جہاں کی رحمت 
اس روئے زمین پر اللہ و رسول ﷺکی اطاعت و فرما نبرداری کے بعد اگر کسی کا حق ہے تو وہ والدین ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ رب کائنات نے اپنی اطاعت وفر ما نبر داری فوراًبعد والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے ۔ ایسا کیوں ؟ والدین کے ساتھ اچھے اخلاق و عادات کے ساتھ پیش آنے کا اس قدر تا کیدی حکم کیوں ؟ کیوں کہ کائنات میں ''ماں ''وہ واحد ہستی ہے جو اپنے لاڈلے کے لئے ہرطرح کی تکلیف و مصیبت کو بر داشت کرنے پر راضی ہو تی ہے ۔ یہی وہ ہستی ہے جو اپنے بطن نازک میں کھلنے والی کلی کو ایک دو ماہ نہیں بلکہ مسلسل نو ماہ تک پناہ دیتی ہے ۔ اس اثناء میں ماں کو ...آہ ..کیسی کیسی تکلیفیں ہو تی ہیں کو ئی دوسرا کیا جانے ۔ اے کاش ! اس کیفیت کو بتانے والے الفاظ میرے پاس ہو تے۔ یہ تو وہ درد والم ہے جسے وہ دورانے حمل برداشت کرتی ہے۔ 
لیکن جب بچہ کی پیدائش کا وقت آتا ہے تو مت پوچھےئے بعض مائیں تو موت حیات کی کشمکش مبتلا ہو جاتی ہے بعض اس جانکی عالم میں کبھی کبھار (بعض دفعہ) اپنی کھلتی کلی کو بڑی حفاظت سے دنیا کی سیرو سیاحت بخشی ہیں لیکن خود موت کے آغوش کے میں سو جاتی ہے یہ ہے ماں کا بچوں کے ساتھ الفت ومحبت کا نداز سچ کہا ہے کسی شاعر نے ۔ 
تیرے دامن میں محبت کی ہوا چلتی ہے 
تیرے گلشن میں مدّت کی کلی کھلتی ہے 
جس کو کہتے ہیں محبت کا جہاں تو ہی ہے
کر ۂ ارض پر جنت کا نشاں تو ہی ہے
یا اللہ ! محبت کا یہ جذبہ کے جب وہ اپنے بچے کو دیکھتی ہے تو مارے خوشی کے پھولے نہیں سماتی اور بڑے شفقت و پیا ر سے بچے کی پیشانی کو اپنے ہو نٹوں سے لگا تی ہے ۔ اپنے سینے سے لگاتی ہے اور خون جگر سے سیراب کرنے لگتی ہے ۔ میٹھے میٹھے دودھ سے سیرابی کا یہ سلسلہ تقریباً دو سال تک جاری رکھتی ہے اور اس دور ان اپنے بچے کی حفاضت کی خاطر محبوب مشغلہ لذیذ غذا اور ہر طرح کی آرام و اسائش تک کو ترک کر دیتی ہے تاکہ نازک کلی چٹخنے نہ پائے ۔ گو یا ماں تقریباً ایک سال ہمل کی تکلیف اٹھاتی ہے اور دو سال اپنے خون جگر کو بشکل دودھ بچے میں منتقل کرتی ہے یہ نہایت تکلیف و پریشانی کن مر حلہ تیس مہینے میں پو را ہو تا ہے ۔ جس کا نقشہ قرآن نے یوں کھینچا ہے و وصینا الا انسان لوالدیہ احساناً حملتہ امہ کر ھاًووضعتہ کر ھاًو حملہ و فصالہ ثلٰثون شھراً (الا حقاف۔۱۵) 
ہم نے انسان کو والدین کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا ماں نے تکلیف اٹھا کر اس کو پیٹ میں رکھا اور تکلیف اٹھا کر اس کو جنا۔ اس کا پیٹ میں رکھنا اور دودھ چھڑانا تیس مہینہ میں پو را ہو تا ہے ۔ قرآن مجید کا تا کیدی حکم ہے کہ ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جائے ۔ دوسری جگہ بھی اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے ووصینا الا نسان لوالدیہ احساناً حملتہ امہ وھناًعلیٰ و ھنِِ و فصٰلہ فی عامین (لقمان ۔ ۳۱۔۱۴) 
اور ہم نے انسان کو اپنے ما ں باپ کے حق میں نیک سلوک کرنے کا حکم دیا ، اس کی ماں نے اس کو تھک تھک (اپنے پیٹ ) میں اٹھا یا اور دو سال میں اس کا ددودھ چھوٹا ۔ اتنے سارے دشوار گذار مراحل سے ماں اپنے بچوں کو گذار کر ایک نئے محفوظ پناہ گاہ پہنچتی ہے ۔ 
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نو ری پر روتی ہے 
بڑی مشکل سے ہو تاہے چمن میں دیدہ ور پیدا 
ماں ، جس کی آنکھوں میں ممتا ، لبوں پر پیار ،قلب و جگر میں شفقت وہمدردی اور آنچل الفت و محبت سے بھرا ہو تا ہے ۔ اس چاند کے ٹکرے کو ہمیشہ اپنے آغوش محبت میں رکھتی ہے ، اس کے چہرے پر سدا مسکراہٹ دیکھنا چاہتی ہے اور اگر ذرا بھی پریشانی پر اداس کے شکن کو پاتی ہے تو مضطرب و پریشانی ہو جا تی ہے اور جگہ جگہ ڈاکٹر اور حکیم کا چکر لگانا شروع کر دیتی ہے ۔ 
سخت جاڑے کا موسم ہو یا چلچلاتی دھوپ کی شدت ، رات کی تاریکی ہو یا اندھیری رات میں آندھی و پتھر کا طوفان ، موسلا دھار بارش کا قہر ہو یا گرجتا بادل یا پھر کڑ کڑ اتی بجلیاں ہوں ، غرض کہ بچے کی تسکین کی خاطر ماں سب کچھ جھیلنا گوارا کر لیتی ہے تا کہ جگر پارے کو کچھ ہو نہ جائے ۔ یا اللہ ماں کیسی ہستی ! کیسا احسا س ہے ؟ کیسا جذبہ ! 
نیلگو ںآسمان، آنکھ مچولی کھیلتے کالے بادل ، وسیع و عریض زمین ، بلند پہاڑ ، مو جو سے بھرے بحر نا پیدا کنار ، صاف و شفاف میٹھے اور ٹھنڈے پانی کے تالاب و ندی ، چار سو ہنستے و مسکراتے پھول اور کلیاں اور پھولوں کا رس چوستی پڑیوں کی طرح نازک تتلیاں ، اللہ کی اس حسین و جمیل اور وسیع کائنات میں خوبصورتی کے چھوٹے بڑے چند مناظر ہیں ۔ بے شک چاند بھی خوبصورت ہے اورسورج بھی ، آسمان میں چمکتے و جھلملاتے تارے بھی ، زمین پر لہلہاتی کھیتیا ں اور باٖغات بھی ۔ لیکن حسن خو بصورتی کے ان تمام نمونوں میں سب سے جاذب نظر ، حسین و خو بصورت اور قدرت کی تخلیق کا شاہکار جسے کہا جا سکتا ہے وہ ماں ہے ۔ ماں ہما ری اس دناے میں سب سے پیا ری اور حسین شئے ہے ۔ 
ہر دم مسکراتی ہو ئی ٹھنڈی ، میٹھی اور لطیف روح کو سرشار کرنے والی ہستی جیسے رم جھم رم جھم ساون کا سماں ، ماں کیا چیز ہے ؟ اس کے جواب میں انسانیت نے کہا ! پہاڑوں کی بلندی ، جھڑنوں کا ترنم کلیوں کی مہک، شبنم کے قطرے ، پھولوں کی خو شبو ں ، تاروں کی چمک ،شہد کی مٹھاس ، دودھ کی سفیدی ، سمندر کی گہرائی ، آسمان کی بلندی ، زمین کی تواضع جیسی صفاعت کو یکجا کر کے جو مقدس رشتہ جنم دیا گیا اس کا نام''ماں ''ہے ۔ 
آسمان نے کہا : ماں کی عظمت و رفعت افلاک سے بڑھ کر ہے ، سورج نے کہا : ماں ایک ایسی دھوپ ہے جہاں صدق و صفا کے مو تی چمکتے ہیں ۔ چاند نے کہا : ما ں کے اندر ایک ایسی روشنی ہے جو دنیا کی ساری روشنی پر غالب ہے ۔ ستاروں نے کہا : ماں ایک ایسی دیپ ہے جس کی تا بندگی کے آگے زہرہ ، مرّیخ اور ثاقب کی روشنی بھی ماند پڑجا تی ہے ۔ 
بادل نے کہا ماں کی نظر کرم ابر رحمت کا خو ش گوار تحفہ ہے ، قدرت نے کہا : ماں دنیاں والوں کے لئے میری طرف سے عظیم تحفہ ہے ، 
لہذا اے دنیا والوں ! اپنے والدین کے ساتھ بہترین اور اچھا سلوک کرو ۔ ان کو چین و سکوں اور امن و سلامتی پہنچانے کے لئے ہر ممکن طریقے اختیار کرو خوش کن جملے اور مسرت و شادمانی سے لبریز باتیں دوران گفتگو استعمال کرو ۔ ان کے حق میں ادب و احترام اورتکریم و تعظیم کا وہ نمونہ پیش کرو کہ آرام و اسائش اور راحت سکون کے لئے خود وقف کر دو ۔ اور نہایت خلوص و چاہت کے ساتھ ان کے حق میں دعا ئے خیر کیا کرو۔ 
کتنے نا سمجھ اور بے شعور ہیں وہ لوگ جو والدین کا اس وقت تک تو خیال رکھتے ہیں جب تک دولت وثر وت ، طاقت و قوت اور صحت و تندرستی میں ہو تے ہیں ، لیکن حالت ضعیف میں پاکر نار وا سلوک کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔
ماؤں نے جن کو خون پلا کر جواں کیا 
بچپن کے لوٹتے ہی وہ بچے بد ل گئے
تہی وہ لوگ ہیں جنہیں قرآن نے حدایت کی ہے :۔ 
اماّ یبلغن عندک الکبر احد ھما او کلھما فلا تقل لھما ا فَّ ولا تنھر ھما و قل لھما قولا کریما ۔ واخفص لھما جناح الذل من الرحمت وقل رب الرحمھما کما ربیٰنی صغیرا( اسراء: ۲۳۔۲۴) 
ٍٍ اگر دونوں یا ان دونوں میں سے کوئی ایک بو ڑھاپے کی حالت کو پہنچ جا ئے تو خبر دار( ان کے کسی حکم پر ناراض گی اور نا گواری کا اظہار کرتے ہو ئے )''اف ''تک بھی نہ کہنا ۔ بلکہ ان دونوں سے نرمی سے بات کرنا عجز و نیاز سے ان کے آگے جھکے رہو اور ان کے حق میں دعا کیا کرو کے اے پر ور دگا ر جیسا انہوں نے مجھے شفقت سے پر ورش کیا ہے تو بھی ان پررحم و کرم فرما ۔ باپ کا بھی رتبہ کم نہیں ہے :۔ 
اے دنیا والو! با پ کا احترام کرو ، تا کہ تمہا ری اولاد تمہارا احترام کرے ۔ با پ کی عزت کرو، تا کہ اس سے فیضیا ب ہو سکے ۔باپ کا حکم مانو ، تا کہ خو شہال ہو سکو ، با پ کی سختی بر داشت کرو ، تا کہ با کما ل ہو سکو باپ کی باتیں غو ر سے سنو ، تا کہ دوسرو ں کی نہ سننی پرے ۔ باپ کے سامنے میں اونچا نہ بولو ورنہ اللہ تم کو نیچا کر دیگا با پ کے سامنے نظر جھکا کر رکھو، تاکہ اللہ تم کو دنیا ں میں بلند کر دے ۔ با پ ایک کتاب ہے ، جس پر تجربات تحریر ہو تے ہیں ۔ با پ کے آنسو تمہارے دکھ نہ گریں ورنہ اللہ تم کو جنت سے گرا دے ۔ با پ ایک مقد س محافط ہے ، جو ساری زندگی خاندان کی نگرانی کرتا ہے ۔ 
والدین میں ماں کا درجہ کافی بلند ہے متعدد احادیث میں اس بات کی صراحت مو جود ہے کہ ماں کی خد مت کو مقد م رکھا جائے ، صحیح بخاری و مسلم کی حدیث ہے ، ایک شخص نے نبی کریمﷺپو چھا :۔
من احق الناس و حسن صحابتی ؟قال امک کالا ثم من ؟ قالا امت ، قال ثم من ؟ کال امک ، قا ل ثم من؟ قال ابو ک ۔
میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے ؟ آپ ﷺ نے فر مایا تمہاری ماں ، اس نے پھر کہا اس کے بعد کو ن ؟ فرمایا تمہا ری ماں ، اس نے کہا اس کے بعد کون ؟ فر مایا تمہا ری ماں ، اس نے کہا اس کے بعد کون ؟ فرمایا تمہارا باپ ،، ( متفق علیہ) 
آپ ﷺ نے والدین کے ساتھ بد سلوکی کو کبیرہ گنا ہوں میں سب سے برا کبیرہ گناہ قرار دیا ہے ۔ شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ یہی ہے ۔ صحیحین کی حدیث ہے ۔
الا انبئکم با کبر الکبرالکبائر ثلاثاً قالو ابلیٰ یا رسول اللہ ، قال الا شرک با للہ و عقوق الو الدین وکان متکئاً فجلس فقال : الا وقول الزور و شھادت الزور۔
''کیا میں تمہیں یہ نہ بتا دوں کہ کبیرہ گناہوں میں سب سے برے گناہ کون سے ہیں ؟ آپ ﷺ یہ بات تین مر تبہ دھرائی ۔ صحابہ نے عرض کیا ضرور بتا ئیے یا رسول اللہ : فرمایا کسی کو اللہ کا شریک ٹھہرانا ، والدین کے ساتھ برا سلوک کرنا ۔ آپ ﷺ ٹیک لگا ئے ہو ئے تھے تو اٹھ بیٹھے اور فرمایا سنو ! قول زور شھا دت زور بھی''
نیز فرمایا : کل الذنوب یو خر اللہ منھا ما شا ء الیٰ یو م القےٰمت الا عقو قا الوالدین فا ن اللہ یعجلہ لصاحبہ فی الحیات قبل الممات ( الحاکم ) 
"اللہ جب گنا ہوں کو چا ہتا ہے قیامت تک کے لئے مؤ خر کر دیتا ہے سوائے والدین کے ساتھ قطع تعلق کے اللہ اس کا بدلہ مو ت سے پہلے اس زند گی میں دیتا ہے ''یہی نہیں بلکہ ماں وہ ہستی ہے جس کے قدموں تلے جنت ہے ۔ حضرت معاویہ بن جاہمہؓ فر ماتے ہیں : ان جاہمت جا ء الی النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فقال یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ! اردت ان اغذو و قد جنّت استشیرک فقال : ہل لک من امّ ؟ قال : نعم قال فالز مہا فان الجنّت تعت رجلیہا ( سنن نسائی ) 
حضرت جاہمہؓ نبی ﷺ کے پاس آئے اور کہا اے اللہ کے رسول ﷺ میں جہاد میں جانا چاہتا ہوں اور آپ سے مشورہ طلب کرنے آیا ہوں ۔ آپ ﷺ نے پو چھا کہ تمہا ری ماں زندہ ہے ؟ انہوں نے جواب دیا ہاں ، تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اس کی خدمت میں لگ جا ؤ کیوں کہ اس کے قدموں کے تلے جنّت ہے ۔ 
عبد اللہ بن عمر عاص فر ماتے ہیں : جاء رجل الی نبی اللہ ﷺ فا ستا ذنہ فی الجہاد فقال احی والد ک ؟ قال نعم ، قال ففیہما فجا ہد ۔ ( متفق علیہ ) ''ایک شخص نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے آپ ﷺ سے جہاد کی اجازت مانگی ۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا : تمہارے والدین حیا ت ہیں ؟ اس نے عرض کیا جی ہا ں ۔ تو پھر انہیں میں جہا د کرو "
یعنی والدین کی خد مت اور ان کے ساتھ نیک سلوک کو میدان جہاد بنا لو ۔ والدین کی اجازت کے بغیر جہاد کے لئے جانا جائز نہیں جب کہ جہاد فرض عین نہ ہو ۔ اسی طرح ایک شخص کو جو ہجرت اور جہاد پر بیعت کرنے کی غرض سے حاضر ہوا تھا آپ ﷺ نے فرمایا : افتبتغی الا جرمن اللہ ؟ قال نعم ، قال فارجع الی والد یک فاحسن صحبتہما ۔ ( رواہ مسلم ) "کیاتم اللہ سے اجر کے طالب ہو ؟ اس نے کہا جی ہاں ! فرمایا تو اپنے والدین کے پاس جاؤ اور ان کو اچھی طرح خدمت کرو "
ایک اور شخص آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو ا اور عرض کیا : میں ہجرت پر آپ ﷺ سے بیعت کرنے کی غرض سے حاضر ہوا ہوں اور والدین کو اس حال میں چھوڑ آیا ہوں کہ وہ رو رہے تھے ۔ فر مایا : ارجع الیہما فا ضحکہما کما ابکیتہما ( البخاری) "اپنے والدین کے پاس واپس چلے جا ؤ اور جس طرح انہیں ر لایا ہے اسی طرح انہیں ہنساؤ ''والدین کے معاملہ میں اسلام نے نہایت اعلی تعلیم دی ہے اور ان کے ساتھ بد سلوکی کو بہر صورت حرام ٹھہرایا ہے ۔ 
اللہ و رسول سے محبت کرنے والے کیا ماں جیسی ہستی کے دل کو دکھا سکتے ہیں ماں کے احسانات اور اس کی عظمت کو جاننے والے کیا اس کی آنکھوں میں آنسو ں برداشت کر سکتے ہیں نہیں ۔ ہر گز نہیں ۔ 
یاد رکھو کہ یہ نصیحت ہے 
فرض ماں باپ کی اطاعت ہے 
نہ کرو ان کو تم کبھی ناخوش 
ان کے قدموں کے نیچے جنّت ہے 
اللہ ہم سب کو والدین کے ساتھ حسن سلوک اور ان کو راضی کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا