English   /   Kannada   /   Nawayathi

سشماسوراج کا یہ جذبہ خیرخوب ،مگر۔۔۔

share with us

سشماجی کو شہرت اس وقت بھی ملی جب ایدھی فاؤنڈیشن، کراچی کی زیر پرورش ایک گونگی بہری ہندولڑکی گیتا کو ہندستان لایا گیا۔ ہر چند کہ ابھی تک اس کے اصل والدین کا کچھ اتا پتا نہیں ۔تازہ واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنا اثررسوخ بروئے کارلاکر ایک پاکستانی لڑکی کے میڈیکل کالج میں داخلہ کی راہ ہموارکرادی ہے۔ اس لڑکی نے حالیہ سی بی ایس سی (بارہویں) امتحان میں 91فیصدنمبر حاصل کئے ۔اس کے والد ڈاکٹر ہیں۔ خاندان کے بعض دیگرلوگ بھی ڈاکٹر ہیں۔ وہ بھی ڈاکٹربننے کی خواہش مند تھی۔ مگر داخلہ ٹسٹ میں شریک نہیں ہوسکی ۔ ضابطہ کے مطابق صرف ہندستانی شہری یا این آئی آر ہی اس کے اہل ہیں، جبکہ یہ لڑکی اپنے خاندان کے ساتھ دوسال قبل حیدرآبادسندھ سے آئی ہے اورطویل مدتی ویزا پر جے پور میں مقیم ہے۔محترمہ سوراج کو جیسے ہی اس کا علم ہوا، اس کو پیغام بھیجا:’’مشعل، میری بچی، مایوس نہ ہو۔ میڈیکل میں تمہارے داخلہ کاکیس میں خود دیکھوں گی۔‘‘ اس کے بعد دوبارہ پیغام بھیجا:’’ مشعل ، میں تم کو سی این این نیوزپردیکھ رہی ہوں ۔ مجھ سے فون پر بات کرو ۔ میں تمہارے فون کی منتظرہوں۔‘‘ اس پیغام میں انہوں نے اپنا فون نمبر بھی دیا ۔ فون پربات کے بعد اس لڑکی نے ان کو اپنے سرٹیفکیٹ ای میل سے بھیجے اورمحترمہ سوراج نے کرناٹک میں اس کے لئے ایک سیٹ کا بندوبست کرکے اس کو مطلع کردیا۔
ہم ایک طالبہ کے ساتھ محترمہ سوراج کے اس جذبہ خیر کی قدرکرتے ہیں۔نسوانیت کا یہی تقاضا بھی ہے۔زیادہ اہم اس لئے کہ وہ لڑکی پاکستانی ہے۔ شاید محترمہ سوراج کسی ہندستانی لڑکی کے لئے بھی اتنی زحمت نہیں کرسکتی تھیں؟ دوسرا سوال ذہن میں یہ کھٹکتا ہے اگراس لڑکی نام ’’مشعل مہیشوری‘‘ کے بجائے ’’مشعل بی بی ‘‘یا ’’مشعل احمد‘‘ ہوتا اورگیتا کی جگہ کوئی غوثیہ یا رضیہ یا بنت رضاہوتی توکیا اس صورت بھی ان کو ایسے ہی جذبہ خیرکی کوئی رمق اپنے سینے میں محسوس ہوتی؟
ہندستان کہنے کو ایک انصاف پسنداورسیکولر ملک ہے۔ یو این او میں بھی مستقل نشست کا خواہاں ہے اورعالمی دباؤ میں قوانین بھی بناتا ہے ۔ لیکن نسل پرستی اورفرقہ ورانہ تعصب کی قبیح سیاست میں بھی گرفتارہے۔ مثال کے طور پردنیا بھر میں یہ قانون ہے کہ اگراس کا کوئی باشندہ مرد ہو یا عورت، کسی غیرملکی سے جھوٹ موٹ کا بھی بیاہ رچالے تواس کی غیرملکی بیوی یا شوہر کو، اس ملک کی شہریت مل جاتی ہے۔لیکن ہندستان ایسا انوکھا ملک ہے جو شادی کے باوجود کسی پاکستانی یا بنگلہ دیشی مسلم لڑکے کو تو یا لڑکی کوبھی شہریت نہیں دیتا۔لڑکیوں کو البتہ طویل مدتی ویزہ ضرورملتا ہے اس کے لئے بھی سال بہ سال ہزارجتن کرنے ہوتے ہیں ۔ جبکہ ان ممالک کے غیرمسلم باشندوں کا کشادہ دلی سے خیرمقدم ہوتا ہے۔ حال یہ ہے کہ اگرنسل درنسل ہندستان میں رہنے والا کوئی بنگلہ بھاشی ٹوپی اورتہمد پہنے ہوئے ہے، تووہ بنگلہ دیشی درانداز قراردیدیاجاتا ہے۔ یہ تفریق نئی نہیں۔ آزادی کے بعد سے ہمارے سبھی حکمرانوں کایہی طریقہ رہاہے جس کو سیاسی پارٹیوں نے انتخابی فائدے کے لئے مزید ہوادی ہے ۔موجودہ حکمراں پارٹی ایسے موضوعات کا سیاسی فائد اٹھانے میں پیش پیش ہے۔ گیتااورمہیشوری کے ساتھ یہ ہمدردی بھی شدت پسند ہندورائے دہندگان کی منھ بھرائی کے لئے ہے۔
تازہ مثال
حصہ رسدی تمام نام نہاد سیکولرسیاسی پارٹیوں میں اس تعصب کی تازہ مثال راجیہ سبھا کے لئے امیدواروں کی نامزدگی ہے۔سنہ2014ء کے لوک سبھا چناؤمیںیوپی سے ایک بھی مسلم امیدوارلوک سبھا کے لئے نہیں چناگیا تھا۔ ایسا پہلی بارہوا تھا۔ اس لئے ضرورت تھی کہ پارلیمنٹ میں اقلیتی فرقہ کو نمائندگی دینے کے لئے چند افراد کو راجیہ سبھا میں بھیجا جائے ۔لیکن اس کا الٹا ہورہا ہے۔ سب سے بڑاکمال ایس پی نے کیا۔ راجبہ سبھا سے اس کے چارمسلم ممبران ریٹائرہوئے ہیں۔ لیکن آئندہ ہفتہ ہونے والے چناؤ کے لئے اس کے سات امیدواروں میں سے ایک بھی مسلم نہیں۔ اس پارٹی نے دوٹکٹ بلڈروں کودیدئے اوردو حال ہی میں پارٹی میں واپس آنے والے لیڈران بینی پرساد ورما اور امرسنگھ کودیدئے۔یہی حال بی ایس پی کا ہے جس نے اپنے کوٹے کی ایک سیٹ ایک ایس سی کو اوردوسری ایک برہمن لیڈرکو دیدی ۔ کانگریس نے اپنی واحد سیٹ پر کپل سبل کو کھڑاکردیا۔ یوپی کی موجودہ اسمبلی میں 68مسلم ممبر ہیں، لیکن کوئی آواز اس ناانصافی پر نہیں اٹھی۔ صرف ہمارے امام صاحب محترم سید احمدبخاری نے ہی اس پر احتجاج درج کرایا ہے۔اب یہ بات صاف ہوتی چلی ہے کہ ملائم سنگھ کو آیندہ اسمبلی الیکشن میں اس کانقصان اٹھانا ہوگا۔ 
بہار میں لالو جی کا بھی مسلم پریم بھی کہیں کھو گیا اورانہوں نے رام جیٹھ ملانی کوگلے لگالیا ۔جے ڈی (یو) نے بھی اپنے دونوں ٹکٹ دیتے ہوئے یہ خیال نہیں رکھا کہ ریاست میں اس کی جیت مسلم رائے دہندگان کا بڑرول تھا۔قیاس کیا جارہا تھا کہ بھاجپا یہاں سے سید شاہ نواز حسین کو کھڑا کرے گی مگران کو نظراندازکرکے ایک راجپوت لیڈرکو ٹکٹ دیدیا ، حالانکہ دوراجپوت ایم پی پہلے سے موجود ہیں۔ یہی کچھ صورتحال اندھراپردیش میں بھی نظرآرہی ہے۔ اب تک تقریبا دودرجن جو نام ظاہرہوئے ہیں، ان میں بس ایک نام مختار عباس نقوی کاجن کو جھارکھنڈ سے بھاجپا کا ٹکٹ ملا ہے دوسری ایم جے اکبرکا جن کو مہاراشٹرا سے گھڑاکیا گیا ہے۔ یہ دونوں بھاجپا امیدورا ہیں۔ اس سے مسلم ذہن کوآسودگی حاصل نہیں ہوگی۔
وزیرداخلہ کا بیان
وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ نے ایک حالیہ انٹرویومیں کہاکہ’’ اگرچہ ہم فرقہ ورانہ گول بندی سے سیاسی فائدہ اٹھا سکتے ہیں، مگرہم ایسا کریں گے نہیں۔‘‘انہوں نے مزید کہا :’’ حال ہی میں دہلی پولیس نے جن 13مسلمانوں کو دہشت گردی کے شبہ میں پکڑا تھا،ان میں سے دس کو اس لئے چھوڑدیا گیا کہ خودانہوں نے پولیس سے کہہ دیا تھا کہ بغیر پختہ ثبوت کسی کو گرفتارنہ کیا جائے۔‘‘ہم وزیرداخلہ کے ان دونوں بیانوں کا خیرمقدم کرتے ہیں۔لیکن ان کی توجہ کچھ دیگر امورکی طرف بھی دلانا چاہتے ہیں۔
عسکری تربیت
خبریںیہ آرہی ہیں کہ ان کی پارٹی کی بغلی تنظیمیں نوجوانوں کو ’’اپنی دفاع ‘‘ کے نام پر عسکری تربیت دے رہی ہیں اوران کے ذہنوں کو اقلیتی فرقہ کے خلاف زہرسے بھررہی ہیں۔ہمیں نہیں معلوم وزارت داخلہ اورپارٹی قیادت ملک کیلئے مہلک اس مہم کوروکنے کے لئے کیا کررہی ہیں؟ جب کہ اس عسکریت پسندی کو بھاجپا لیڈرہی ہوا دے رہے ہیں۔ مثلا یوپی کے گورنررام نائک نے اس کی تائید کی ہے۔ مغربی بنگال کے ایک بھاجپائی لیڈر نے کہہ دیا کہ ہم آرایس ایس کے تربیت یافتہ ہیں، خالی ہاتھ بھی گردن توڑدیں گے۔ ہریانہ کے ایک اعلاپولیس آفیسر نے کہہ دیا کہ اپنی حفاظت کے لئے دوسروں کو قتل کردینے کا حق ہے۔اس کی تائید میں اورآوازیں بھی اٹھ رہی ہیں ۔راج ناتھ سنگھ جی بتائیں کہ یہ کیا ہے اورکیوں ہورہا ہے؟ کیا اس کے پس پشت مقصد انتخابی فائدے کے لئے گول بندی نہیں ہے؟
خطرہ یہ ہے کہ اس جنگجوئیت کی بدولت بے قابو نجی سیناؤں کا وجودعمل میں آجائیگا،جوملک میں امن اورقانون کی عملداری میں ویسی ہی مشکلات کھڑی کردیں گی جیسی بعض پڑوسی ممالک میں نظرآتی ہیں۔ہمارے ملک میں پولیس اوردیگرمسلح دستوں کی ایک بڑی نفری موجودہے جو ہرقسم کے خطروں کا مقابلہ کرنے کی اہل ہے۔ جو لوگ ان فورسز کے باوجود اپنی سینائیں کھڑی کررہے ہیں ان کو شاید ہماری مسلح افواج اوردیگرحفاظتی دستوں کی قوم پرستی اورسرفروشی کے بلند بالا جذبہ کی قدر نہیں یا وہ ان کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ 
ظاہر ہے یہ سب مشقتیں فرقہ ورانہ کشیدگیاں پھیلانے کے لئے کی جارہی ہیں ۔اس کا فائدہ صرف ان طاقتوں کو پہنچے گا جو ملک میں افراتفری پھیلاکر آئینی حکمرانی کو معطل کرنا اور نسل پرستانہ نظام قائم کرنا چاہتی ہیں۔ 
دہشت گردی کے کیس
جہاں تک دہشت گردی کے الزام میں گرفتاریوں کا تعلق ہے توہم وزیرداخلہ کی توجہ ایک حالیہ خبر کی طرف دلانا چاہتے ہیں۔ اسی اتوار شموگہ کے نثارالدین کو 23برس بعد جیل سے رہائی ملی ہے۔ جب نثارکو پکڑاگیا تواس کی عمر19برس تھی اوروہ فارمیسی کے دوسرے سال کا طالب علم تھا۔ جیل میں ہی اس پر کئی دوسری ریاستوں میں مختلف بم دھماکوں میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کردئے گئے۔ اس کو عمر قید کی سزابھی ہو گئی۔23برس بعد اس کو سپریم کورٹ نے بے قصورقراردیا اورفوری رہائی کا حکم دیا۔
یہاں اس قیامت کی تفصیل بیان کرنا مقصودنہیں جو نثاراورانکے انجنئر بھائی کو ظلماً گرفتارکرلینے سے ان کے خاندان پر اورشریک ملزمان پر ٹوٹ پڑی۔ عرض یہ کرنا ہے ایسی کیس برابرسامنے آرہے ہیں کہ ایک طویل مدت جیل میں گزارنے کے بعد فرضی الزام سے نجات ملی۔ ایسے نجانے کتنے افراد ابھی اورجیلوں میں ہیں۔وزیرداخلہ سے کہنا یہ ہے کہ ایسے تمام معاملو ں کی اسکروٹنی کرالیجئے۔جو بے قصورگرفتارہیں، جن کے خلاف کوئی پختہ ثبوت نہیں، ان کے خلاف معاملات واپس لئے جائیں، ورنہ مقدمات کی سماعت تیزی سے ہواوراستغاثہ کی طرف سے ہونے والی تاخیرپر لگام لگائی جائے تاکہ مقدمات جلدفیصل ہوجائیں۔انصاف کا تقاضا یہ بھی ہے کہ جن بے قصوروں کو پولیس نے ظلماً جیلوں میں ڈالا، حکومت ان کی سماج میں بازآبادکری کرائے اورایسی ہی فراخدلی سے ان کی مالی اعانت کرے اور دیگر مراعات بحال کرے جیسی آسٹریلیا نے ہندستانی ڈاکٹرمحمد حنیف کی تھی جن کو دہشت گردی کے معاونت کے الزام میں صرف 12 روز محصور رکھا گیا تھا۔اگرچہ سزاخاطی پولیس عملے کو بھی ملنی چاہئے مگرہمارے ملک میں پولیس سیاست دانوں کے تحت کام کرتی اوروہی کرتی ہے جواس سے مطلوب ہوتا ہے۔
وزیرداخلہ نے جو ہدایت دہلی پولیس کو دی ہے، کہ بغیرثبوت کسی کو گرفتارنہ کیا جائے، ایسی ہی ہدایت ریاستی حکومتوں کو بھی دینی چاہئے۔مرکزکم از کم ان ریاستی حکومت کو تو سخت پیغام دے ہی سکتا ہے جہاں بھاجپا کی سرکاریں ہیں۔ ورنہ وزیر داخلہ کا یہ بیان بس اخباروں کی زینت بن کر رہ جائیگا۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا