English   /   Kannada   /   Nawayathi

سب کچھ گیا بڑ بولا پن نہ گیا

share with us

اور اعتراف کیا ہے کہ اسکے لئے سب سے زیادہ مالی مدد لیبیا کے سابق صدرمعمر القذافی نے کی تھی ۔جنکے مسٹر بھٹو سے بہت قریبی تعلقات تھے ۔
اب انہوں نے شگوفہ چھوڑا ہے کہ دہلی صرف پانچ منٹ میں نشانہ بن سکتا ہے ۔انھوں نے اسکے تجربہ کی کوشش بھی کی تھی لیکن جنرل ضیاء الحق نے یہ کہہ کر روک دیا کہ عالمی برادری سے افغان جنگ کے لئے جو امداد مل رہی ہے وہ بند ہو جائے گی ۔اور یہ لکھ کر اعتراف کر لیا کہ ہاں ہم دوسروں کے ٹکڑوں پر پل رہے ہیں ۔
حیرت ہے کہ پاکستان کا ہر آدمی الگ بولی بولتاہے ۔وزیر اعظم ہر حال میں ہندوستان سے اچھے تعلقان چاہتے ہیں ۔ہندوستان کے وزیر اعظم بھی اچانک انکی سالگرہ پر مبارک باد دینے پہنچ جاتے ہیں ۔اور اب نواز شریف کے ہونے والے دل کے آپریشن کے لئے نیک خواہشات بھی بھیج رہے ہیں ۔لیکن کشمیر کی سرحد پر ہر دن حافظ سعیدیا اظہر مسعود کے بھیجے ہوئے لفنگے ہندوستانی جوانوں کی گولیوں کا نشانہ بن کر کتوں کی موت مررہے ہیں۔حافظ سعید ،اظہر مسعود ،صلاح الدین اورلکھیّ بہروپ ایسا بنائے ہوئے ہیں جیسے بڑے دین دار اور اللہ والے ہیں ۔لیکن ہر دن دو چار جاہل مسلمان نوجوانوں کو قرآن عظیم کی جھوٹی تفسیر اور جھوٹی حدیثیں سنا کر انہیں جنت کا لالچ دیکر پاکستان کی طاقت کم کررہے ہیں ۔جس کی وجہ سے خود قاتلوں میں شمار کئے جانے کے مجرم ہیں ۔اور اس سے بھی زیادہ پاکستان کے بڑے علما کی خاموشی ۔ایک معمّہ ہے ۔آخر وہ انکے خلاف کھل کر کیوں نہیں کہتے کہ جوانکے فریب میں آکرکشمیر میں جہاد کرنے جارہا ہے وہ فریب ہے ۔پاکستان کی کسی سرحد پر بھی کوئی جہاد نہیں ہورہا ۔اور جو وہاں جاکر مر رہا ہے وہ جنت میں نہیں جہنم میں جارہا ہے ۔
ڈاکٹر عبد القدیر خاں 5منٹ میں دہلی تباہ کرنے کی اپنی صلاحیت کا تو ذکر کر رہے ہیں لیکن اسکا ذکر نہیں کررہے کہ اسوقت ہندوستان سیکڑوں قسم کی مزائیل بناکر کس پوزیشن میں ہے ؟اور وہ دہلی کے جواب میں بیک وقت کراچی لاہور اسلام آباد حیدرآباد راولپنڈی اور فوج کے اہم ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے ؟
پاکستان کے سائنس داں ہر وقت دور بین لگا کر دیکھ رہے ہیں کہ ہندوستان کیا کیا بنا رہا ہے ؟اور ہندوستان اپنے پڑوسی کی ہر جد وجہد کو نظر سے دیکھ رہا ہے ۔اور دونوں اس لئے خاموش ہیں کہ دونوں دیکھ رہے ہیں کہ کوریاا ور تائیوان جیسے چھوٹے چھوٹے ملک اب امریکہ جیسی سب سے بڑی طاقت کو سلام نہیں کرتے بلکہ دھمکی دیتے ہیں ۔اور اسکی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ جانتے ہیں امریکہ انہیں پوری طرح تباہ کر سکتاہے ۔لیکن امریکہ کو یہ بھی معلوم ہے کہ ان میں سے کوئی بھی چھوٹاملک مرتے مرتے اسے ختم تونہیں کریگا مگر اتنا نقصان پہنچا دیگا کہ امریکہ اپنی ساری دولت مرمت اور جو لاکھوں کی تعداد میں زخمی بچیں گے وہ برسوں انکی مرہم پٹی کرتا رہے گا ۔
ڈاکٹر قدیر خاں نے اسے اللہ کا بہت بڑا کرم بتایا ہے کہ جس ملک میں موٹر سائیکل بھی باہر سے بن کر آتی ہے ۔اس میں ملک میں ہم نے ایٹم بم بنا لیا ۔ڈاکٹر قدیر خاں اس پر فخرکر رہے ہیں ۔اور اس بات پر ایک بہت بڑے صحافی اور بہت بڑے عالم دین مفسر قرآن حضرت مولانا امین احسن اصلاحی کے فرزند ارجمند نے 1973میں شرم سے سر جھکا یا تھا وہ مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ پاکستان کے دو لاکھ فوجی قیدیوں کو چھڑانے کے لئے وزیر اعظم اندرا گاندھی سے ملنے شملہ آئے تھے ۔تین دن مذاکرات میں گذار کر اور شملہ معاہدہ کی نقول لیکر وہ جب پاکستان پہنچے تو انھوں نے جو سفر نامہ لکھا اس میں سب سے زیادہ زور اس پر دیا کہ جب ہمارا جہاز شملہ کے ائر پورٹ پر اتر ا تو ہماری نظر اس کار وں کے بیڑے پر پڑی جو دودھ کی طرح سفید اور ایک جیسی لائن میں کھڑی تھیں جنکی تعداد پچاس تھی ۔قریب آئے تو دیکھا کہ گاڑی کا نام ایمبیسڈر تھا اور جب کچھ دور چلے اور اسکے آرام دہ ہونے کا احساس ہوا تو ہم نے ڈرائیور سے معلوم کیا کہ یہ گاڑی کہاں کی بنی ہوئی ہے ؟تو اسنے جواب دیا کہ یہ اپنے ہی ملک میں بنتی ہے ۔ڈرائیور کے اس جواب پر ہم پاکستانی صحافی ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے ۔کیوں کہ ہم اس ملک کے باشندے تھے جو ہندوستان سے 24گھنٹے پہلے آزاد ہوا تھا ۔اور ہم آزادی کے 27سال کے بعد اپنے ملک میں سائیکل بھی نہیں بنا رہے تھے اور جس ملک کو ہمارے وزیر اعظم مسٹر بھٹو نے ایک ہزار سال تک جنگ کرتے رہنے کی دھمکی دی تھی اس نے انتہائی شاندار اور بڑی کاریں بھی بنانا شروع کر دی ہیں ۔عبد القدیر خاں نے اسوقت کا ذکر کیا ہے جب جنرل ضیا الحق سر براہ تھے ۔اسو قت موٹر سائیکل بھی باہر سے آرہی تھی ۔اور اب ہندوستان کا یہ حال ہے کہ اچھے اچھے گھرانوں کی لڑکیاں اسکوٹی سے کالج جاتی ہیں جو انہیں منٹوں میں پھول کی طرح منزل پرپہنچا دیتی ہے ۔
ہم چاہیں نہ چاہیں خبروں کے چینل میں ہفتے دو ہفتے کے بعد دیکھ ہی لیتے ہیں کہ ایک اور میزائل فضا میں اڑا دی گئی اور یہ ایسی ہے کہ ایک معینہ وقت پر اسے واپس بھی لے آیا جائے گا ۔مگر ہم نے وزیر دفاع سے تو کیا کسی پارٹی لیڈر سے بھی نہیں سنا کہ وہ کہہ دیا ہو کہ اب ہم اس پوزیشن میں ہیں کہ اگر پاکستان 65جیسی کوئی غلطی کرے توہم 12گھنٹے میں اتنا کردیں گے کہ پاکستان کے شہروں کو تلاش کرنا مشکل ہو جائیگا کہ وہ کہاں سے شروع ہوتے تھے اور کہاں ختم ہوتے تھے ؟
کسی کو یاد ہو نہ ہو ہمیں یہ یاد ہے کہ بریلی کے ہر جلسہ میں مسلم لیگ کے لیڈر کہا کرتے تھے کہ فن جہاں رانی اور جہاں بانی تو کوئی ہم مسلمانوں سے سیکھے جن کے باپ دادا نے ایک ہزار برس ہندوستان پر حکومت کی اور اسے ایک عظیم اور تاریخی ملک بنا دیا ۔اور اب ڈھائی سو سال کے بعد دنیا ہندوستان کو بھی دیکھے گی اور پاکستان کو بھی ۔اور اب دنیا دیکھے نا دیکھے پاکستان دیکھ رہا ہے کہ وہ کہاں ہے اور ہندوستان اتنا لمبا چوڑا ہونے کے باوجود کہاں پہنچ گیا ؟جبکہ مشہور ہے کہ چھوٹا پریوار سکھی پریوار ۔اور پاکستان نے دکھادیا کہ باپ دادا بیشک اہل تھے ۔اور اولا د نااہل جتنی 1857میں تھی اتنی ہی سو سال کے بعد بھی رہی اور 159سا ل کے بعد بھی ہے ۔اور آج بھی یہ کہنا بڑتا ہے کہ رسی جل گئی بل نہیں گئے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا