English   /   Kannada   /   Nawayathi

میڈیا کو بی جے پی پر پیار کیوں آتا ہے؟

share with us

گزشتہ آسام اسمبلی الیکشن سے قبل بھی میڈیا نے بی جے پی کے حق میں ماحول بنانے کا کام کیا۔اس قسم کا رویہ اگر صرف زی نیوز، انڈیا ٹی وی یا سدرشن نیوز کا ہوتا تو زیادہ حیرت کی بات نہیں تھی بلکہ کم وبیش تمام ٹی وی چینلوں کا تھا۔ ان دنوں تمام چینلوں کا ایک محبوب مشغلہ یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کی دہشت گردی کی جھوٹی کہانیاں خوب نمک مرچ لگاکر بیان کرتے ہیں اور ان کے خلاف دہشت کا ماحول بناتے ہیں۔اگر کسی مسلمان کو پوچھ تاچھ کے لئے بھی پولس بلائے تو میڈیا اس کا رشتہ آئی ایس تک پہنچادیتا ہے اور جب وہ رہا کیا جاتا ہے تو معمولی سی خبر بھی نہیں آتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ رویہ بھی بی جے پی کو فائدہ پہنچانے والا ہے کیونکہ مسلمانوں کا خوف دکھانے سے ہندوووٹ بی جے پی کے حق میں اکٹھا ہوتا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ میڈیا کا آخر ایسا رویہ کیوں ہے؟ کیا سبب ہے کہ وہ سچائی پیش کرنے کے بجائے سنگھ پریوار کے لئے ڈھول بجانے کا کام کرتا ہے؟ آخر کیا سبب ہے کہ لوک سبھا الیکشن سے قبل نریندر مودی کو ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا اور آج بھی ان کی معمولی معمولی باتوں کو بڑھا چڑھاکر پیش کیا جاتا ہے؟ ہمارے ملک میں اور بھی وزیراعظم ہوئے ہیں مگر ان کی تقریریں دوردرشن اور آل انڈیا ریڈیوسے آگے نہیں بڑھتی تھیں مگر آج
کل مودی جی میڈیا کے ہردے سمراٹ کیوں بنے ہیں؟مودی سرکار کے دوسال پورے ہوچکے ہیں اور اب تک حکومت کا کوئی کام دکھائی نہیں دے رہا ہے مگر میڈیا یہ باور کرانے کی کوشش میں مصروف ہے کہ ملک ترقی کی منزلیں طے کر رہاہے۔آخر میڈیا کی اس مودی نوازی کے پیچھے کیا ہے؟
سچ پوچھوتو اب میڈیا پوری طرح صنعت کاروں کے ہاتھ میں ہے اور کسی خبر کی اہمیت اس کے لئے اہم نہیں بلکہ یہ بات اہم ہے کہ اس کا اپنا مالی مفاد کس حکومت میں محفوظ ہے۔ اسی کے ساتھ ایک سچائی ہے بھی ہے کہ اس وقت بیشتر ٹی وی چینلوں کی ملکیت مکیش امبانی کی ریلائنس کمپنی کے پاس ہے، یہ وہی مکیش امبانی ہیں جنھوں نے وزیراعظم کی امیدواری کے لئے سب سے پہلے نریندر مودی کا نام پیش کیا تھا۔ اس میں کسی کو شک نہیں ہوسکتا کہ اس قسم کی کمپنیاں ہی سیاسی پارٹیوں کے انتخابی اخراجات بھی اٹھاتی ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ الیکشن کے بعد وہ اپنی رقم کو سود کے ساتھ وصول کرتی ہیں۔ کس پارٹی کو کہاں سے پیسے ملتے ہیں یہ بتانے کے لئے وہ پابند عہد نہیں ہے۔اسی طرح میڈیا کو بھی پوشیدہ ذرائع سے پیسے آتے ہیں جس کے نتیجے میں میڈیا کا اب کوئی دھرم ایمان نہیں بچا ہے۔ زی نیوز کے ایک صحافی کو نوین جندل سے بھتہ وصول کرنے کے الزام میں جیل جانا پڑ چکا ہے ،حالانکہ وہ صحافی اب بھی چینل میں اہم عہدے پر فائز ہے۔یہی سبب ہے کہ اب عوام کا اعتماد میڈیا سے اٹھتا جارہاہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا میڈیا اب سچ بولنا چھوڑ دے گا؟ اب اس کا مقصد صرف سرکار کی چاپلوسی ہوگی یا اپنے مخالفین کی بلیک میلنگ؟ کیا میڈیااب پوری طرح سرمایہ داروں کا غلام ہوگیا ہے اور وہ صرف چند دولت مند افراد کا بھونپو بن گیا ہے؟ اب بھارت میں سچ کی آواز دبانا آسان ہوگیا ہے؟ میڈیا پر یوں تو پہلے بھی سرمایہ داروں اور دولت مند افراد کا قبضہ رہا ہے مگر اسی کے ساتھ کچھ ایسے جرنلسٹ بھی تھے جو عوام کی آواز اٹھاتے تھے مگر اب صورت حال ایسی ہوتی جارہی ہے کہ نہ میڈیا سچ بولے گا اور نہ صحافی حق گوئی کے راستے پر چلیں گے کیونکہ تمام اہم ٹی وی چینلوں اور اخبارات پر ریلائنس گروپ کا قبضہ ہوچکا ہے اور مکیش امبانی اس کے بے تاج بادشاہ بن چکے ہیں۔ باقی بچے دیگر چینلوں میں انھوں نے سرمایہ کاری کردی ہے جس کے سبب وہ ریلائنس گروپ اور اس کے مفادات کے خلاف ایک لفظ نہیں بول سکتے۔ کچھ ایسے بھی ٹی وی چینل اور اخبارات ہیں جن پر ریلائنس نہیں بلکہ دوسرے سرمایہ داروں کا قبضہ ہے جیسے فوکس گروپ کو جندل نے خرید لیا ہے تو سہارا میڈیا گروپ کی ملکیت سبرتو رائے سہارا کے پاس ہے۔ یونہی دیگر میڈیا گروپس پر کچھ دوسرے سرمایہ داروں کا قبضہ ہوچکا ہے۔ میڈیا جس پر عوام بھروسہ کرتے ہیں اور اسے دبے کچلے طبقے کی آواز سمجھا جاتا ہے اب اس کا کام ملک کو سرمایہ داروں کا غلام بنانا ہو گیا ہے۔ سرمایہ داروں نے پہلے ہی سے نیتاؤں اور سیاسی افراد کو خرید رکھا تھا جو ان کے مفاد کے خلاف جانے کو تیار نہ تھے مگر اب میڈیا بھی ان کے شکنجے میں کستا جارہا ہے اور صحافیوں کے قلم و آواز کو منہ مانگی قیمت دی جارہی ہے تاکہ وہ کسی سرمایہ دار کے مفاد کے خلاف نہ کچھ بولیں اور نہ لکھیں۔ ان حالات کے پیش نظر ملک کا مستقبل اب صنعت کاروں اور دولت
مند افراد کے ہاتھ میں جارہا ہے۔ کون ان سرمایہ داروں کی اندھیر گردی کے خلاف آواز اٹھائے ؟ جو نیتا ان کے خلاف آواز اٹھائیں گے ان کا حشر اچھا نہیں ہوگا۔ ریلائنس کی قربت کا فائدہ نریندر مودی کو ملا جو آج اس ملک کے حکمراں ہیں اور ان کے مخالفین چاروں خانے چت ہوچکے ہیں۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ مودی کا نام وزیر اعظم کے طور پر سب سے پہلے مکیش مبانی نے نے لیا تھا اس کے بعد پورا میڈیا ان کی حمایت میں آگیا اور ایسا طوفان کھڑا کیا کہ آج وہ پوری اکثریت سے اقتدار میں ہیں۔ اب ایسے میں اگر کسی کے مفادات محفوظ ہیں تو وہ مکیش امبانی ہیں اور عوام تو پہلے بھی بیوقوف بنتے رہے تھے اور آج بھی بن رہے ہیں۔
ریلائنس کے ٹی وی چینل
ریلائنس گروپ نے تمام بڑے بڑے ٹی وی چینلوں کو خرید لیا ہے یا ان میں سرمایہ کاری کر ررکھی ہے۔ حال ہی میں حکومت ہند نے کچھ نئے ٹی وی چینلوں کو لائسنس دیاہے جن میں بیشتر ریلائنس گروپ کے ہیں ۔ریلائنس کے پاس جن چینلوں کی پہلے سے ملکیت ہے ان میں مختلف زبانوں کے نیوز چینل ، تفریحی اور معلوماتی چینلس سے لے کر بچوں کے چینل بھی شامل ہیں۔ اس نے ای ٹی وی گروپ کے تمام چینلوں کو ای نائیڈو گروپ سے خرید لیا ہے تو اسی کے ساتھ ٹی وی 18نیٹ ورک کو بھی اپنے کنٹرول میں کر لیا۔ اس طرح وہ کئی درجن چینلوں کا مالک بن چکا ہے۔ ان چینلوں میں CNN-IBN,IBN7,اور IBNلوک مت(مراٹھی نیوزچینل) شامل ہیں۔ اسی گروپ نے ایک ایک گجراتی زبان کا چینل کیا ہےIBNگجراتی۔ علاوہ ازیں اس کے بزنس چینل ہیں CNBC-TV18,CNBC AWAAZ, CNBC BAJARان میں آخر الذکر گجراتی بزنس چینل ہے۔قارئین کو یاد رہے کہ CNBC TV18وہ بزنس چینل ہے جو کل ویور شپ کا 56فیصد حصہ رکھتا ہے۔ یونہی نگریزی نیوز چینل CNN-IBNکل انگریز ی ناظرین کا 27.5حصہ رکھتا ہے اور باقی میں ملک کے تمام ٹی وی چینل ہیں اس طرح سے اس گروپ میں بزنس اور انگلش ناظرین کا سب سے بڑا طبقہ پکڑ لیا ہے۔ یونہی ہندی نیوز چینل IBN7بھی ایک بڑا ٹی وی چینل ہے جس کی ٹی آر پی اچھی ہے۔ اس نے علاقائی زبانوں کو ناظرین کو متاثر کرنے کے لئے ETVگروپ کے تمام علاقائی زبان کے چینلوں پر بھی قبضہ کرلیا ہے۔ ان میں کچھ تو ہندی کے ریجنل چینل ہیں جیسے یوپی، بہار، مدھیہ پردیش، راجستھان کے چینل تو دوسری طرف اس کے علاقائی زبانوں میں کنڑ، تیلگو، تمل، بنگالی کے کئی چینل ہیں۔ اسی کے ساتھ ایک اردو کا چینل بھی ہے۔ ان میں بعض چینل اپنی ٹی آر پی کے لحاظ سے ایک نمبر پر ہیں تو بعض دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ تفریحی چینلوں میں COLORS, COLORS HD,MTV, Comedy Central, VH1ہیں تو بچوں کے لئے چلنے والے چینلوں کو بھی ریلائنس نے نہیں چھوڑا ہے۔ ان میں Nick,Sonic,Nick jr, Teen Nickشامل ہیں۔ اسی طرح عام معلومات والے چینلوں میں ایک انٹر نیشنل چینل History Tv18بھی ہیں جو ایک ساتھ انگریزی، ہندی، بنگلہ، تمل اور بنگالی میں آتا ہے۔ان چینلوں کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے چینل بھی ہیں جو صرف انٹرنیٹ پر آتے ہیں یا ہوم شاپنگ کے چینل ہیں۔ یونہی معروف forbes Indiaمیگزین ہے تو درجنوں ویب سائٹس بھی شامل ہیں جن کا ستعمال خبروں اور دوسرے مقاصد کے لئے کیا جاتا ہے۔ ان ویب سائٹس پر ہر مہینے کروڑوں افراد جاتے ہیں۔
درجنوں ٹی وی چینلوں کے مالک مکیش امبانی کی میڈیا پر قبضہ کی بھوک یہیں پر نہیں مٹتی ہے ، انھوں نے کچھ دیگر چینلوں میں سرمایہ کاری بھی کی ہے اور ان کی پالیسی کو متاثر کر رہے ہیں۔ خبر ہے کہ NDTV اور NDTV Indiaکو انھوں نے ایک خطیر رقم قرض کے طور پر دی تھی مگر یہ گروپ ان کا قرض نہ اتار سکا اور اب اس مین بھی ان کی بڑی حصہ داری ہوگئی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دو نئے ٹی وی چینلوں Nation Newsاور اسی کے ایک دوسرے علاقائی چینل میں بھی ریلائنس نے سرمایہ لگایا ہے، اس طرح اب اس کی پالیسی پر بھی اس کا اثر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسٹار کروپ کے چینلوں میں بھی اس نے پیسے لگا رکھے ہیں۔ 
میڈیا میں سرمایہ کاری
میڈیا میں سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کی دلچسپی کوئی نئی نہیں ہے اور یہ مکیش امبانی تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ دوسرے دولت مند لوگ بھی اس میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ حال ہی میں مشہور صنعت کار اور کانگریس کے لیڈر نوین جندل نے فوکس کروپ کو خریدا ہے حالانکہ وہ اسے چلا نہیں پائے اوران کے بیشتر چینل بند ہوگئے۔ اس گروپ کے چھ ٹی وی چینلوں کے مالک پہلے متنگ سنگھ تھے جو مرکز میں منتری بھی رہ چکے ہیں اور ان میں ان کی دوسری بیوی منورنجنا سنگھ کا بھی شیئر تھا جسے نوین جندل نے خرید لیا۔ اس کے تحت فوکس، ہمار(بھوجپوری) این ای ٹی وی ، این ای ہائی فائی، این ای بنگلہ اور ایچ وائی ٹی وی آتے تھے۔ جندل نے ٹی وی چینلس کی خریداری کا فیصلہ تب کیا جب ان کے خلاف کچھ خبریں میڈیا میں آئی تھیں اور ایک بڑے میڈیا گروپ نے انھیں بلیک میلنگ کی کوشش کی تھی۔ 
جندل کی طرح ہی سہارا گروپ کے بہت سے ٹی وی چینل اور اخبارات ہیں۔ سہارا سمے، سہارا نیوز، سہارا یوپی، عالمی سہارا وغیرہ اس کے مشہور چینل ہیں اور ہندی ، انگلش کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی مختلف شہروں سے اس کا اردو اخبارروزمانہ راشٹریہ سہارا اور ہفت روزہ عالمی سہارا شائع ہوتا ہے۔ 
سب سے طاقتور شخص 
صنعت کار پہلے تو سیاستدانوں کو خریتے تھے مگر اب نیتاؤں اور منتریوں کے ساتھ ساتھ صحافیوں کو بھی خرید رہے ہیں۔ انھیں مختلف گھرانوں سے پیسے ملتے ہیں اور انھیں کے مفاد میں وہ لکھتے ہیں۔ ریلائنس نے ٹی وی 18خریدنے کے بعد سب سے پہلے ان صحافیوں کو ٹھکانے لگایا جو آزادانہ سوچ رکھتے تھے اور ان سے غلامی کرانا مشکل تھا۔ ماضی میں یہ بات عام رہی ہے کہ مکیش امبانینے یوپی اے سرکار سے منتریوں تک کو بدلوایا تھا مگر اب بی جے پی کی سرکار ہے اور یہاں ان کی مرضی زیادہ چل سکتی ہے۔ ویسے بھی کانگریس ہو یا بی جے پی، سماج وادی پارٹی ہو یا بہوجن سماج پارٹی ، بہار کی کوئی پارٹی ہو یا بنگال کی، شمالی ہند کی کوئی پارٹی ہو یا جنوبی ہند کی، سب پارٹیوں کو ریلائنس گروپ سے چندہ ملتا ہے اور سب کی سب مکیش امبانی کی جیب میں ہیں۔ اس وقت اس ملک میں کوئی طاقت ور شخص ہے تو وہ مکیش امبانی ہے جو کسی بھی نیتااور منتری کو خریدنے کی قوت رکھتا ہے۔ عوام کی تو کوئی حیثیت نہیں ہے اور وہ مجبور ہیں کہ اپنا پیسہ کسی بھی بہانے سے ریلائنس جیسی کمپنیوں کو دیتے رہیں۔ وہ کونسا ایسا دھندہ ہے جن میں یہ کمپنیاں سرمایہ کاری نہیں کرتیں ۔ آپ جہاں بھی خرچ کرینگے جائے ان کی جیب میں ہی۔بہر حال
یہ دستور زباں بندی ہے کیسا تری محفل میں 
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا