English   /   Kannada   /   Nawayathi

ہندوستان میں مسلمان حکمرانوں کے تمدنی جلوے

share with us

یہ دعوت روم کی مشہور ’’اپی کیور‘‘ کی دعوت سے یقیناً بہتر کہی جا سکتی ہے۔ جو اپنی بھوک رفع کرنے کیلئے زمین، ہوا اور سمندر کی تمام چیزیں فراہم کرنے کا عادی تھا۔ نورجہاں کا بھائی آصف خان اپنے محل میں شہزادوں اور شہزادیوں کی دعوت کرتا تو ان کے استقبال اور دعوت میں جتنازیادہ تکلف ممکن ہوتا وہ کیا کرتا۔ اسی زمانہ میں ایک فرنگی سیاح ’’ایف ایس منریق‘‘ لکھتاہے۔ کہ میں نے پہریدار کی سازش سے اس محل کے اندر چھپ کر ایک ضیافت کو دیکھنے کی کوشش کی، آصف خان نے شاہجہان کو اپنے زنان خانے میں مدعو کیا، تو جس وسیع ایوان میں اس نے یہ دعوت کی، اس کے فرش کو زرنگار قالین سے آراستہ کیا، چاند کی انگیٹھیوں میں جا بجا عنبر اور دوسری خوشبودار چیزیں جلائی جا رہی تھی، تمام فضا معطر تھی، مرصع اور زریں برتنوں سے پورا ایوان جگمگا رہا تھا، ایوان میں داخل ہونے کے راستے میں ایک چاندی کی بڑی مچھلی آویزاں تھی۔ اس کے منہ سے معطر فوارے چھوٹ رہے تھے۔ جب شاہجہان ایوان میں داخل ہوا، تو بغلی کمروں سے سرود و نغمہ کی آوازیں بلند ہوئیں، شاہجہان کے آگے آگے شہزادیاں تھیں، جو سونے اور چاندی کے کام والے زرق برق لباس پہنے ہوئے تھیں۔ ان کے گلوں اور سروں پر سونے اور موتیوں کے ہار جگمگا رہے تھے، دائیں طرف اس کی خوش دامن، اور بائیں طرف اس کی چہیتی بیگم ’’’ممتاز محل‘‘ تھیں۔ اس کے پیچھے دارالشکوہ اور آصف خان تھے، شاہجہان زرنگار مسند پر آگے بیٹھ گیا،اس کے بیٹھتے ہی دو حسین عورتیں ’’مور چھل‘‘ ہلانے لگ گئیں، اس کے فوراً بعد آصف خان کے گھر والے، خود شاہجہان کے شہزادے اور شہزادیاں آگے بڑھیں اور جھک کر کورنش اورچہار تسلیمات ، بجا لائیں،شاہجہان اپنی خوش دامن کے ساتھ نہایت تواضع سے پیش آیا اوراسے اپنے دائیں جانب بٹھایا۔ دوسروں کو بھی بیٹھنے کیلئے کہا، پہلی اور دوسری بار کہنے پر وہ سب کھڑے رہے، لیکن جب تیسری بار ان سے بیٹھنے کو کہا تو وہ ادب سے بیٹھ گئے، ان کے بیٹھتے ہی نہایت شیریں نغموں کی آوازیں آنی شروع ہوئیں، ان نغموں میں بادشاہ کے جنگی کارنامے بیان کیے جا رہے تھے۔ بعدمیں چار حسین لڑکیاں داخل ہوئیں جو آصف خان کے خاندان کی تھیں اور اپنے حسن و جمال میں کسی جگہ کی بھی حسین عورتوں سے کم نہ تھیں، وہ نہایت ادب سے بادشاہ کی طرف بڑھیں۔ ان میں سے ایک نے اس کے سامنے سفید ساٹن کا ایک کپڑا بچھایا، دوسری نے ایک خوبصورت ’’طلائی سیلانچی‘‘ سامنے رکھی، جس میں جواہرات جڑے ہوئے تھے۔ تیسری نے اسی قسم کے جواہرات سے مرصع طلائی برتن سے ہاتھ دھلائے اور چوتھی نے ہاتھ پونچنے کیلئے تولیہ پیش کیا۔ ان چاروں کے بعد بارہ عورتیں داخل ہوئیں، جو پہلی چار لڑکیوں کی طرح تو معزز نہ تھیں لیکن تہذیب میں کم بھی نہ تھیں۔ انہوں نے شہزادوں اور شہزادیوں کے ہاتھ اسی طرح دھلائے، اتنے میں کھانا دوسرے دروازے سے آنا شروع ہوا، تو طرح طرح کے نغمے بھی تیز ہونے لگے۔ خواجہ سرا سونے کے برتنوں میں کھانا لارہے تھے ان خواجہ سراؤں کا لباس اعلیٰ اورمعطر تھا چار خواجہ سرا کھانا لا کر دو خواجہ سراؤں کو دیتے۔ پھر یہ دو خواجہ سراء ان دو حسین عورتوں کو جوبادشاہ کے پاس کھڑی رہتیں یہ برتن دے دیتے، وہ دونوں عورتیں گھٹنے ٹیک کر بادشاہ کے سامنے رکھتیں۔ دسترخوان پر روٹیوں اور مٹھائیوں کی بہت سی قسمیں تھیں، کھانے کے بعد رقص ہوا، پھر نذرانے پیش ہوئے جن میں طرح طرح کے جواہرات تھے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا