English   /   Kannada   /   Nawayathi

’’تین طلاق‘‘ کا مسئلہ، کہیں کامن سول کوڈ کا سبب نہ بن جائے

share with us

آفرین کا کہنا ہے کہ اگر طلاق سے پہلے اس کی مرضی پوچھی جاتی تو وہ اپنے شوہر سے سمجھوتہ کرلیتی مگر ایک ساتھ تین طلاق کی صورت میں اس کے سامنے سمجھوتے کا کوئی راستہ نہیں تھاکیونکہ تین طلاق کی صورت میں خواتین کے حقوق، خواہشات کو پوری طرح نظر انداز کیا جاتا ہے۔ نیشنل وومین ویلفیئر سوسائٹی سے وابستہ نسیم اختر اس کی قانونی مدد کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے، تاکہ اسی کو نہیں بلکہ دوسری مسلم خواتین کو بھی انصاف ملے۔ مسلم خواتین کی تنظیم کا دیرینہ مطالبہ رہا ہے کہ اس طرح کے طلاق کوغیر قانونی قرار دیا جائے۔ تین طلاق کادرد صرف ایک آفرین کا نہیں ہے بلکہ اتراکھنڈ کی 38 سالہ سائرہ بانو کا بھی ہے جسے اپنے شوہر کی جانب سے اچانک ایک خط ملا اور خط کھولتے ہی اس کی زندگی تنکوں کی طرح بکھر گئی کیونکہ اس خط میں لکھا تھا۔ طلاق طلاق طلاق۔
طلاق، ایک ایسا لفظ ہے جو نہ صرف ہنستے مسکراتے خاندان کے ٹکڑے کر دیتا ہے بلکہ رشتوں کے معنی بھی بدل دیتا ہے۔ ہمارے ملک میں تین طلاق کا زہر پینے والی نہ جانے کتنی مسلم خواتین ہیں جو کسی نہ کسی خوف کی وجہ سے خاموش رہتی ہیں اور اپنے اوپر ہونے والے مظالم کو برداشت کرتی ہیں لیکن دو بچوں کی ماں سائرہ بانو ذرا الگ قسم کی خاتون ہیں۔ انھوں نے سپریم کورٹ میں تین طلاق ، حلالہ اور مردوں کے تعدد ازواج کو چیلنج کردیا۔ سپریم کورٹ نے سائرہ بانو کی اپیل قبول کر لی اور کورٹ نے خود نوٹس لیتے ہوئے گزشتہ مارچ 2016 میں اس سلسلے میں مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کر کے 6 ہفتوں میں جواب مانگا۔اس سلسلے میں سپریم کورٹ کی طرف سے ایسا فیصلہ آسکتا ہے جس کے بعد مسلم پرسنل لاء اور ہندوستانی قانون پر نئے سرے سے بحث شروع ہوجائے۔میڈیا کی خبروں کے مطابق آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کہہ چکا ہے کہ مرکزی حکومت اس معاملے میں کوئی مداخلت نہ کرے ۔ حالانکہ اس بات کا پورا امکان ہے کہ مرکزی سرکار اپنی بات کورٹ کے سامنے رکھے گی اور سپریم کورٹ بھی اپنا فیصلہ سنائے گا کیونکہ یہ معاملہ محض مسلم پرسنل لاء کا نہیں بلکہ ملک کے کسی شہری کے حقوق سے بھی جڑا ہوا ہے۔
حنفی فقہ کیا کہتا ہے؟
آفرین اور سائرہ بانو کے کیس میں اگر کسی حنفی مولوی سے مسئلہ پوچھا جائے تو وہ یہی جواب دے گا کہ اس کیس میں تین طلاقیں ہوگئیں۔ اب میاں بیوی ایک دوسرے کے لئے اجنبی ہیں۔ کسی سمجھوتے کی گنجائش نہیں۔ اسی طرح اگر ان خواتین کی باقی زندگی اور اخراجات کے بارے میں پوچھا جائے تو جواب ملے گاکہ وہ اپنے سابق شوہر سے سے اخراجات نہیں لے سکتیں کیونکہ طلاق واقع ہونے کے بعد ان کے بیچ کو ئی رشتہ نہیں رہا۔ مہر کے علاوہ صرف عدت کی مدت میں نان ونفقہ اور رہنے کے مکان کی حقدار ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس حالت میں مطلقہ عورت کہاں جائے؟ ہمارے ملک میں پہلی شادی میں مشکلیں آتی ہیں پھر دوسری شادی کیسے ہوسکتی ہے؟ باپ ضعف کے سبب اخراجات اٹھانے سے قاصر ہے یا اس کا انتقال ہوچکا ہے۔بھائی اپنی دنیا میں مست ہیں اور جس شخص پر اس مظلوم عورت نے اپنی جوانی قربان کی اب اسی نے طلاق دے کر اسے بے گھر کر دیا ہے۔ اب اس مطلقہ کے سامنے اس کے علاوہ کیا راستہ ہے کہ وہ لوگوں کے گھروں میں جھاڑو پونچھا کرتے ہوئے اپنی زندگی بتائے یا بھیک مانگے۔ مسلمانوں کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے ان کے اندر خواندگی کی شرح کم ہے اورمسلم خواتین تو اور بھی کم پڑھی لکھی ہیں۔ اسلام کی دہائی دے کر انھیں گھروں میں بند رکھنا اور تعلیم سے دور رکھنا عام مزاج ہے جب کہ اسلام نے جس طرح مرد پر حصول علم کو فرض کیا ہے اسی طرح عورت پر بھی فرض کیا ہے۔ایسے میں وہ نہ تو عزت کے ساتھ روزگار کماسکتی ہیں اور نہ کورٹ میں اپنے حق کی لڑائی لڑ سکتی ہیں۔کورٹ کے سامنے ہمیشہ یہ سوال آتا ہے کہ مسلم مطلقہ خواتین کا گزارا کیسے ہو؟ مسلم پرسنل لاء بورڈ بار بار کہتا ہے کہ کسی مسلمان عورت کو تاعمر نان ونفقہ نہیں ملنا چاہئے ۔ البتہ اس سوال کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا کہ مطلقہ عورت کے اخراجات کہاں سے پورے ہونگے؟ کیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اس کے اخراجات اٹھانے کو تیار ہے؟ جماعت اسلامی ہند یا جمعیۃ علماء ہند یہ ذمہ داری اٹھائینگی یا پھر وہ علماء دین اور مفتیان کرام اپنے کندھوں پر یہ بوجھ اٹھائینگے جو مسئلہ کا حل پیش کر نے کے بجائے اپنے فتووں سے مسئلے کو مزید گنجلک بنا دیتے ہیں۔ پہلے بات تو یہ کہ ایک مجلس کی تین طلاق کو تین مان کر صلح کی تمام راہوں کو مسدود کردیا جاتا ہے اور پھر جب مطلقہ کے گزارا بھتہ کی بات آتی ہے تو کوئی بھی اسے اپنے ذمہ لینے کو تیار نہیں ۔ایسے میں شاہ بانو کے راستے پر چلتے ہوئے کچھ مطلقہ خواتین کورٹ کی پناہ میں جاتی ہیں تو پھر شور مچایا جاتا ہے کہ کورٹ اور حکومت کی طرف سے شریعت میں مداخلت کی جارہی ہے۔ 
ایک مجلس میں تین طلاق
تین طلاق کے معاملے اکثر ہمارے سماج میں سامنے آتے ہیں اور طلاق کایہ غیرشرعی طریقہ بہت سے بسے بسائے گھروں کی ٹوٹ پھوٹ کا سبب بن جاتا ہے۔ علماء کا ایک طبقہ اس کے خلاف نظریہ رکھتا ہے مگر ہندوستان میں بس ایک ہی طریقے پر عمل کرنے پر اصرار ہے۔احادیث کی کتابیں بتاتی ہیں کہ عہد نبوی میں اگر ایک مجلس میں تین طلاق کو تین مانا گیا تو بعض اوقات اسے ایک بھی مانا گیا اور رجعت کا موقع دیا گیا مگر ہمارے مسلم پرسنل لاء بورڈ اور ہندوستانی علماء کو اصرار ہے کہ تین طلاق کو تین ہی تسلیمکریں۔ یہ علماء اگر ذرا سی سیع القلبی کا مظاہرہ کریں تو مسئلہ کی شدت کو کم کیا جاسکتا ہے۔ ہم حنفی فقہ کے بجائے ان احادیث پر بھی عمل کرسکتے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقوں کو ایک مانا گیا ہے۔ہندوستان میں اہل حدیث حضرات کے ہاں اسی پر عمل بھی ہے۔ یہ معاملہ شریعت کی حکم کوترک کرنے کا نہیں بلکہ متبادل پر عمل کرنے کا ہے۔اس مسئلے کو سنگین بناکر کیا ہم کورٹ اور حکومت کو مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کا موقع نہیں فراہم کر رہے ہیں؟ ہماری مسلکی شدت پسندی میں تھوڑی سے لچک سے یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے اور اس پہلو سے علماء کو غور وفکر کرنا چاہئے۔اگر ایسا کیا گیا تو آفرین جیسی بہت سی خواتین کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔اس وقت بہت سے مسائل اس لئے سامنے آرہے ہیں کہ ہم شریعت پر آدھے ادھورے طریقے سے عمل کرتے ہیں یا آسان راستے کو چھوڑ کر مشکل راستے پر چلنا شروع کردیتے ہیں۔ جب ہم یہ مانتے ہیں کہ علماء اور فقہاء کے اختلاف کی صورت میں کسی بھی ایک عالم کے طریقے پر عام مسلمان عمل کرسکتا ہے تو ہم فقہ شافعی، حنبلی اور مالکی سے بھی استفادہ کیوں نہیں کرتے؟ حالانکہ ہم حنفی ہونے کے باوجود اکثر امام ابوحنیفہ کے مسلک کے برخلاف کبھی امام محمد تو کبھی امام ابویوسف کے مسلک پر عمل کرتے ہیں۔ ہمیں اللہ اور رسول کی طرف سے قرآن وسنت پر عمل کا حکم ہے اور قرآن و سنت سے مسائل کا استخراج سبھی اماموں اور علماء نے کیا ہے،پھر اس تقلید میں تھوڑی سی لچک پیدا ہوجائے تو کیا ہی خوب ہو،اور شاید ہمارے مسائل میں کچھ کمی آجائے۔ بعض فقہی معاملات میں ہماری شدت پسندی کے سبب خواتین کا ایک طبقہ بغاوت پر اتارو نظر آتا ہے اور اس بغاوت کو اسلامی شریعت کے خلاف نہیں ماننا چاہئے بلکہ اسلام کے نام پر مسلکی تنگ نظری کے خلاف سمجھنا چاہئے۔
عورت کے حقوق میں اسلام رکاوٹ کیسے؟
سوال یہ بھی ہے کہ نہ شادی کے وقت اسلامی احکام پر عمل کیا گیا اور نہ ہی طلاق دینے میں اسلامی طریقے کا خیال رکھا گیا تو سابق شوہر پر عورت نے اپنی ناکتخدائی قربان کی اور جس کے حوالے اس نے اپنی زندگی بھر کی محفوظ پونجی کی ،اس سے گزارہ بھتہ لینے میں شریعت کیوں آڑے آتی ہے؟ علماء کرام سے بصداحترام کیا ہم یہ سوال پوچھ سکتے ہیں کہ زندگی کے کسی بھی موڑ پر جب اسلامی احکام کی پابندی نہیں کی جارہی ہے تو پھر خواتین کے حق کے معاملے میں اس پر اصرار کیوں؟ ایک مسلمان مرد دوسری شادی کے لئے شریعت سے حاصل حق کا دعویٰ کرتا ہے مگر پھر وہی پوری زندگی ان شرائط کو بھول جاتا ہے جو تعدد ازواج کے سلسلے میں اسلام نے عائد کی ہیں اور کسی ایک بیوی کی حق تلفی کرتا رہتا،اب ایسے میں تعدد ازواج پر پابندی عائد کردی جائے تو کیابرا ہوگا؟ کیا ہم مسلمان ہی اسلامی احکام کی دھجیاں اڑا کر حکومت کو شریعت میں مداخلت کا موقع نہیں دے رہے ہیں؟ ہم جانتے ہیں کہ اسلام نے ہر انسان کو اس کا جائز حق دیا ہے مگر اس کا غلط استعمال ہی تو دوسروں کو ہمارے معاملات میں مداخلت کا موقع فراہم کرتا ہے۔
مسلم دنیا اورتین طلاق 
خواتین اور بچوں کی فلاح کے سلسلے میں حا ل ہی میں مرکزی سرکار کی ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی کی سفارش سامنے آئی ہے۔مئی2013 ء میں یو پی اے سرکار کے ذریعہ قائم اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ وزارت برائے بہبود خواتین واطفال کو سونپی اپنی رپورٹ میں سفارش کی ہے کہ زبانی، ایک طرفہ یا تین بار طلاق بول کر نکاح توڑنے کی روایت پر پابندی لگنی چاہئے۔ کمیٹی نے تمام مذاہب میں شادی رجسٹریشن کو لازمی بنانے کی بھی سفارش کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اسلامی ممالک میں تین بار طلاق بولنے سے نکاح توڑنے کی روایت اب ختم کی جا چکی ہے۔ ان ممالک میں عراق، انڈونیشیا، پاکستان، ترکی، سعودی عرب، تیونس، ایران اور بنگلہ دیش سمیت کئی ملک ہیں، لیکن ہندوستان میں یہ اب بھی باقی ہے۔ کمیٹی نے تشویش ظاہر کی ہے کہ ان دنوں ایس ایم ایس، سوشل سائٹس اور اسکائپ پر تین بار طلاق بول کر شادی توڑنے کے معاملے سامنے آ رہے ہیں، لیکن اس پر غور نہیں کیا جا رہا ہے۔واضح ہوکہ یو پی اے حکومت نے یہ اعلی سطحی کمیٹی قائم کی تھی۔ اس میں 14 رکن ہیں۔ اس کمیٹی کو خواتین کی صورت حال پر رپورٹ دینے کے لئے کہا گیا تھا۔یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ جب مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ذمہ داروں سے جب یہ کہا جاتا ہے کہ ساری مسلم دنیا میں تین طلاق اور تعدد ازواج کے سلسلے میں ہندوستانی علماء کے برخلاف نظریہ ہے اوران ممالک میں ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک ہی مانا جاتا ہے ،اسی طرح دوسری شادی کے سلسلے میں بھی حکومت سے اجازت لینی پڑتی ہے تو جواب ملتا ہے کہ ہم شریعت کے پابند ہے نہ کہ کسی مسلم ملک کے۔اب سوال یہ ہے کہ کیا دنیا بھر کے مسلمانوں کی شریعت ہم سے مختلف ہے؟ آخر کیوں ساری دنیا کے علماء کو ہندوستانی علماء کے برخلاف شریعت نظر آئی؟
مسلم خواتین کیا سوچتی ہیں؟
تین بار طلاق کہہ کررشتہ ختم کرنے کے قانون سے مسلم خواتین کواتفاق نہیں ہے۔حال ہی میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق 92 فیصد مسلم خواتین کا کہنا ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق کا اصول ایک طرفہ ہے اور اس پر روک لگنی چاہئے۔ اس سروے کے تحت ایک غیر سرکاری ادارے بھارتیہ مسلم مہیلا آندولن نے ملک میں 4710 مسلم خواتین کی رائے جانی۔ سروے کے دوران شادی، طلاق، ایک سے زیادہ شادی، گھریلو تشدد اور شرعی عدالتوں پر خواتین نے کھل کر اپنی رائے ظاہر کی۔سروے میں کہا گیا کہ زیادہ تر مسلم خواتین اقتصادی اور سماجی طور پر کافی پسماندہ ہیں۔ وہیں 55 فیصد خواتین نے ماناکہ ان کی شادی 18 سال کی عمر سے پہلے ہو گئی تھی۔ ان میں سے بہت سی خواتین کو گھریلو تشدد کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا۔ سروے میں شامل 91.7 فیصد خواتین نے کہا کہ وہ اپنے شوہروں کے دوسری شادی کرنے کے خلاف ہیں۔ اس مطالعہ میں شامل میں 73 فیصد خواتین ایسی تھیں جن کے خاندان کی سالانہ آمدنی 50 ہزار روپے سے کم ہے۔ سروے میں شامل 525 طلاق شدہ خواتین میں سے 65.9 فیصد نے بتایا کہ انھیں زبانی طلاق ہوئی ہے، جبکہ 78 فیصد کا کہنا تھا کہ اک طرفہ طریقے سے طلاق ہوئی۔ 83.3 فیصد مسلم خواتین کو لگتا ہے کہ گھریلو معاملاتمیں اگر اسلامی قانون کا صحیح نفاذ ہو، تو ان کے خاندانی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ سروے میں شامل 95.5 فیصد مسلم خواتین نے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا کبھی نام ہی نہیں سنا۔ سروے میں جائیداد کے معاملے میں بھی مسلم خواتین کی پسماندگی اجاگر ہوئی ، اعداد و شمار کے مطابق 82 فیصد خواتین کے نام کوئی جائیداد نہیں ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا