English   /   Kannada   /   Nawayathi

پیا جسے چاہے وہی سہاگن

share with us

بینی پرساد ورماکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کرمی برادری میں انکی وہی حیثیت ہے جو کبھی جاٹوں میں چودھری چرن سنگھ کی تھی کہ انکے جاٹ ووٹ انکے ساتھ چلتے تھے۔وہ کانگریس میں رہے تو جاٹ کانگریسی تھے۔انھوں نے جن کانگریس بنائی توجاٹ جن کانگریسی ہوگئے۔انہوں نے بی کے ڈی کو گلے لگا یا تو جاٹ نے ہل دھرے کسان پر مہر لگا دی۔اور جب وہ جنتا پارٹی میں چلے گئے تو ہرجاٹ بھی جنتا پارٹی میں چلا گیا اور سب سے آخر میں انھوں نے لوک دل بنائی تو جاٹ وہاں بھی انکے ساتھ تھا۔لیکن ملک نے یہ بھی دیکھا کہ انکے بیٹے چودھری اجیت سنگھ نے جب چاہا کہ وہ باپ کی کرسی لے لیں تو جاٹوں نے دیدی لیکن اجیت بابو چرن سنگھ نہ بن سکے جاٹ بھی انکے ساتھ نہ رہ سکے۔
بینی بابو کے بارے میں بھی یہ شہرت ہے کہ وہ جب سماج وادی میں تھیتو کرمی انکے ساتھ تھے۔وہ وزیر بننے کے لئے کانگریس میں گئے تو انکے ووٹ انکے ساتھ گئے اور اب وہ دیکھ رہے ہیں کہ کانگریس انہیں وزارت تو کیا راجیہ سبھا بھی نہ دے سکے گی تو وہ پھر ملائم سنگھ کے ساتھ آگئے۔اس لئے کہ کبھی صوبائی وزیر کبھی ایم ایل اے اور کبھی مرکزی وزیر رہنے کے بعد آسان نہیں ہے کہ کہیں جانا چاہیں تو ہوائی جہاز والے بھی ٹکٹ کے پیسے مانگیں اور ریل کے بابو بھی بغیرٹکٹ سفر نہ کرنے دیں۔رہی پارٹیاں تو سب سیاسی پارٹیاں ایک ہی ہیں جسے جو پارٹی اچھی لگے پوری قیمت دے وہ وہاں چلا جائے۔یہ بات نہ خواص کو بری لگتی ہے اور نہ عوام کو۔ اس لئے کہ وہ بھی کبھی کسی کو ووٹ دیتے ہیں کبھی کسی کو۔کسی ایک کے ساتھ وہ بھی نہیں رہتے۔لیکن اس میں قصور پارٹی کا ہوتا ہے۔
بینی بابو بہت بڑے لیڈر ہیں وہ50یا 75لاکھ کی بے ایمانی کو بے ایمانی نہیں سمجھتے۔ اسکے باوجود ملائم سنگھ کی پارٹی میں کسی کے بارے میں نہیں سنا کہ کسی کو انکے ا?نے اور راجیہ سبھا کی رکنیت دینے سے تکلیف ہوئی ہو۔لیکن ٹھاکر امر سنگھ کے نام پر پارٹی میں اختلاف ہوا۔ ایسا ہی اختلاف جیسا ہر جگہ کبھی کبھی ہوجاتا ہے۔شری ملائم سنگھ کو بھی یقین ہے کہ مخالفت کے باوجود نہ بلرام سنگھ یادو انہیں چھوڑیں گے اور نہ اعظم خاں کہیں جائیں گے۔اور وہ جو کہا جارہا ہے کہ وزیر اعلی اکھلیش بابو کو بھی ٹھاکر امر سنگھ کی اس شان وشوکت سے واپسی اچھی نہیں لگی تو وہ ایسے بیٹے نہیں ہیں کہ اپنے باپ کے سامنے گریبان کھول کر کھڑے ہوجائیں۔اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ صرف امر سنگھ کی ذات ہی تھی جنہوں نے ساڑھے چار سال کے لئے ملائم سنگھ کو اتر پردیش کی حکومت دلادی تھی۔جس وقت مس مایاوتی نے چھ مہینہ حکومت کرکے عادت کے مطابق حکومت گرانے کا فیصلہ کرلیا۔اور ملائم سنگھ ہکا بکا کھڑے دیکھا کئے کہ اب کیا کریں ؟ کیوں کہ گورنر نے واضح الفاظ میں کہدیا کہ اتنے ممبر دکھا دیجئے جن سے اکثریت بنتی ہو میں ا?پ کو حکومت بنانے کی دعوت دیدوں گا۔
اس وقت ملائم سنگھ کے پاس پچاس ممبر کم تھے انہوں نے یقین دلایا کہ میں ہاؤس میں اپنی اکثریت ثابت کردوں گا۔مگر ا? رایس ایس کے منجھے ہوئے گورنر نے سمجھ لیا کہ خرید وفروخت ہوگی۔وہ اسکی اجازت نہیں دے سکتے تھے کیونکہ اٹل جی کی حکومت تھی۔اسوقت یہی امر سنگھ کا م ا?ئے انہوں نے ہی اس وقت کے وزیر راج ناتھ سنگھ کو منایا اور انکو لکھنو? لائے اور گورنر کو اس پر ا?مادہ کر لیا کہ وہ ہاؤس میں اکثریت کی اجازت دیدیں۔مس مایاوتی کے 50ممبر پریشان تھے کہ چھ مہینہ کے بعد پھر الیکشن کیسے لڑینگے ؟وہ اس پر ا?مادہ تھے کہ ملائم سنگھ کے ساتھ ا?جائیں لیکن اسکا یقین بھی چاہتے تھے کہ حکومت نہیں گریگی۔اور ٹھاکر امرسنگھ کی وجہ سے ہی پچاس ممبر بی ایس پی کے ا?گئے اور ملائم سنگھ نے ساڑھے چار سال ا?رام سے حکومت کی۔ اب تو مسٹر اکھلیش سنگھ بھی سمجھ چکے ہیں کہ ساڑھے چارسال کیا ساڑھے چار مہینے بھی اتر پردیش جیسے بڑے صوبہ کی حکومت کے لئے راجیہ سبھا کی ایک سیٹ کیا بڑی سے بڑی قیمت دی جاسکتی ہے۔اور امر سنگھ تو ہر فن مولا ہیں انہوں نے تو نیتا جی کو نہ جانے کتنے ایسے لوگوں کے قریب کردیا ،وہ جنکا صرف نام سنتے تھے۔اور اگر اب اکھلیش بابو انہیں قریب ا?نے دیں تو وہ انہیں وہ دکھا دیں گے جسکا وہ تصور بھی نہیں کرسکتے۔
خبروں میں اسے بہت اہمیت دی گئی ہے کہ اعظم خاں جو عزیز قریشی کو راجیہ سبھا بھیجنا چاہتے تھے انہیں مایوس ہونا پڑا۔اب اعظم خاں کیا سمجھیں یادوسرے لکھنے والے کیا لکھیں یہ تو وہ جانیں۔ہم اپنے طور پر اسکی وجہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ملائم سنگھ یہ سمجھتے کہ عزیز قریشی صاحب کو راجیہ سبھا کا ٹکٹ دینے سے صوبہ کے سارے قریشی انہیں ووٹ دیں گے تو وہ سب سے پہلے انہیں ٹکٹ دیتے۔لیکن وہ کئی بار تجربہ کر چکے ہیں کہ مسلمان صرف یہ دیکھتے ہیں کہ ان سے کس نے کیا وعدے کئے تھے اور ان میں سے کتنے پورے ہوئے ؟اور یہ بات بھی ہر لیڈر جانتا ہے کہ انتخابی منشور میں کئے گئے وعدے پورے کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔تو مسلمان اپنا وو ٹ بر باد کرد یں گے مگر اسے نہیں دیں گے۔اور شاید یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کی ہونے والی کمی کو کرمی اور ٹھاکر ووٹوں سے پورا کرنے کے لئے بینی بابو اور امر سنگھ کا ہاتھ پکڑرہے۔شاید ہماری اس بات کی تائید اس سے ہوجائے کہ کونسل کی ایک سیٹ بقل نواب کو دیدی ہے۔
جب ملک ا?زاد ہوا تھا تو سنا تھا کہ راجیہ سبھا ان کے لئے ہے جو بہت قابل ہونے کے باوجود لوک سبھا کا الیکشن نہیں جیت سکتے انہیں راجیہ سبھا کا ممبر بنا دیا جائے تاکہ لوک سبھا کی جہالت پر راجیہ سبھا کا پردہ پڑا رہے جیسے ڈاکٹر منموہن سنگھ یا ان جیسے اور۔لیکن ا?ج جو کچھ دیکھا جارہا ہے اس سے تو اندازہ ہوتا ہے کہ راجیہ سبھا کا ممبر فلم اسٹارریکھا کو بھی بنا یا جاسکتا ہے اور کرکٹ بھگوان تندولکر کو بھی۔جو کسی دن ا?جائیں تو اخبار کی خبر بن جاتے ہیں اور سبرانیم سوامی کو بھی کہ حکومت کے وزیر جسکی کردار کشی کرتے ہوئے ڈرتے ہوں انکی ایسی کی تیسی سوامی سے کرادیں۔اور انہیں بھی بنایا جاتا ہے جنہیں عوام نے ٹھکرا دیا اور حکومت ہر حال میں انہیں وزیر بنا نا چاہتی ہے۔جس سے ثابت ہوتا ہے کہ راجیہ سبھا کی حیثیت زر کی سی ہے۔جسکے لئے کہا گیا ہے ؟
اے زر تو خدا نہ سہی لیکن بہ خدا 
ستار العیوب وقاضی الحاجاتی

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا