English   /   Kannada   /   Nawayathi

دیکھنے ہم بھی گئے تھے پر تماشہ نہ ہوا

share with us

ہم نے پھر معلوم کیا کہ آپ علی گڑھ میں ہیں جلسہ لکھنؤ میں ہو رہا ہے۔ یہاں کوئی ذکر نہیں تو ذمہ دار کون ہے؟ تب ان کے منہ سے نکلا کہ چودھری شرف الدین صاحب۔ 
رات میں ہم نے بار بار چودھری صاحب سے بات کرنا چاہی لیکن اتفاق ہے کہ بات نہ ہوسکی۔ پھر صبح کورابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ ہاں جلسہ ہو رہا ہے۔ ہم نے دریافت کیا کہ آج کے چاراردو کے اخبار میرے سامنے ہیں کسی میں اشتہار تو کیا اس کی خبر بھی نہیں ہے۔ تو انہوں نے فرمایا کہ ایک صاحب کے سپرد سارے کام کئے تھے انہوں نے نہ جانے کیا کر دیا۔؟ اور فرمایا کہ آپ کئے بجے آسکتے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ جب مناسب ہو آپ بلوالیں۔ اور انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ مولانا کلب صادق صاحب اور مولانا سلمان حسینی بھی تشریف لا رہے ہیں۔ لیکن مولانا طاہر مدنی اور مولانا عامر رشادی کاذکر نہیں کیا۔
12بجے دو پہر میں جب سورج سوانیزے پر تھا تو ایک صاحب تشریف لائے اور فرمایا کہ چودھری صاحب یاد فرما رہے ہیں۔ میں نے جواب دیا کہ میں کسی مددگار کو بلالوں تو آجاؤں گا۔اور جب یہ ٹوٹا پھوٹا جیسے تیسے ہال میں داخل ہوا تو راشٹریہ علماء کو نسل کے مولانا طاہرمدنی تقریر فرما رہے تھے۔ جس کا موضوع ملائم سنگھ یادو سے انتخابی منشور میں کئے گئے وعدوں کی خلاف ورزی تھا۔ 18فیصدی مسلمانوں کو رزرویشن کا وعدہ ، بے گناہ مسلمانوں کو جیل سے رہا کرنے کا وعدہ وغیرہ وغیرہ۔ مولانا مسلسل بولتے رہے اور آخر میں تان اس پر توڑی کہ جب تک مسلمانوں کی قیادت اپنی نہیں ہوگی کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
مولانا طاہر صاحب کے بعد ایک صاحب کو دعوت دی گئی تو انہوں نے کلام پاک کی ایک آیت اور اس کے ترجمہ کے طور پر علامہ اقبال کے ایک شعر کے بعد جو کچھ فرمایا اس سے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ ایک چھوٹے سے جے شنکر ہال جس میں پچاس سامعین بیٹھے ہیں ، ان کو مخاطب کر نے کے بجائے شاہ فیصلؒ کی بلائی ہوئی موتمر عالم اسلامی کو خطاب کر رہے ہیں۔ کہ دنیا میں کل آبادی کتنی ہے ان میں مسلمان کتنے ہیں؟ اور مسلم ممالک کون ہیں جنہیں عالم اسلام کہاجاتا ہے اور ان کی حالت کیا ہے؟ ہمارے جاننے والے ہی نہیں ہمیں پڑھنے والے بھی جانتے ہیں کہ ہم مریض تو ہیں ہی معذور بھی اتنے ہیں کہ ایک سیڑھی بھی پار نہیں کرسکتے ۔ اور جے شنکر ہال دوسری منزل پر ہے جہاں تک پہنچنے میں تکلف بھی ہوتا ہے اور تکلیف بھی۔ یہ بات سب سے زیادہ پروگرام کرنے والے سید وقار رضوی جو عزیز ترین دوست بھی ہیں وہ خوب جانتے ہیں اور اس کا لحاظ کرتے ہیں کہ ہمیں نہ بلائیں۔ شرف الدین بھائی کو بھی معلوم ہے کہ میں اس حال میں نہیں ہوں۔ اس لئے انہوں نے نہیں بلایا تھا بلکہ میں خود صرف اس لئے جانا چاہتا تھا کہ جلسہ کا موضوع وہ تھا جو میرے دماغ پر چھایا ہوا ہے۔
ہمارے جانے سے پہلے جو حضرات تقریر فرما چکے تھے ان کے چند جملے اودھ نامہ میں چھپے ہیں۔ اور مولانا طاہر صاحب کی چند منٹ کی تقریر ہم نے بھی سنی اور جس کرسی پر ہم شرف الدین بھائی کو دیکھنا چاہتے تھے وہاں مولانا عامر رشادی کو جلوہ افروز دیکھ کر اور ان کے داہنے بائیں بھی شرف الدین بھائی کو نہ پاکر بلکہ انہیں معزز سامعین کی صف میں دیکھ کر اس میں عافیت جانی کہ شدید گرمی میں ہی واپس آجائیں ۔ اس لئے کہ وہاں کہیں سے کہیں تک مسئلہ بریلی اور دیوبند کا نہیں تھا بلکہ راشٹریہ علماء کونسل کی موجودگی اور ممتاز کرسیوں پر ان کے تشریف فرما ہونے کی وجہ سے یہ محسوس ہو رہا تھا جیسے 2017 میں مسلمانوں کوسماج وادی پارٹی کو ووٹ نہ دینے کی اپیل کے لئے یہ جلسہ بلایاگیا ہے۔ 
اودھ نامہ کے ممتاز رپورٹر ڈاکٹر ہارون رشیدنے عنوان کے طورپر اس جلسہ کو یوپی رابطہ کمیٹی کا جلسہ لکھا ہے۔ لیکن پورے جلسہ کی کارروائی سن کر یہ حقیقت بھی بیان کر دی کہ یوپی رابطہ کمیٹی کا یہ جلسہ پورے وقت اپنے مقصد سے بھٹکا نظر آیا اور مقرر ین ایک دوسرے کے خیالات کو رد کرتے رہے انہوں نے یہ بھی لکھ کر ایک فرض شناس رپورٹر کا فرض ادا کیا کہ جب آدھے مقرر اپنی اپنی بات کہہ کر جا چکے ہوں تو کیسے کوئی لائحہ عمل طے پا سکتاہے؟
ہمیں اس سے کوئی مطلب نہیں کہ کس نے کیا کہا؟ ہم تو نہ جانے کی حالت میں ہوتے ہوئے بھی صرف اس لئے گئے کہ اگر دیوبند اور بریلی کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش میں کوئی رخنہ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہو تو ہم چند جملے کہہ سکیں۔ لیکن جب دیکھا کہ اس مسئلہ کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے یعنی نہ دیوبند میں والہانہ استقبال کا ذکر ہے اور نہ مولانا توقیر رضا خاں صاحب کے جرأت مندانہ اقدام کا اور نہ اس کا ذکر ہے کہ ان کے ہی حلقہ میں ان کی مخالفت کر نے والوں کو انہوں نے جواب دیا ہے کہ ایک بار نہیں بار بار دیوبند جاؤنگا۔ اس لئے کہ مسئلہ مسلک کا تو بعد میں ہے پہلے مذہب کا ہے کہ وہ خطرہ میں ہے۔
کسی جلسہ کے درمیان میں سے اٹھ کر چلے آنا غیر شریفانہ حرکت ہے۔ لیکن ہمیں راشٹریہ علماء کونسل کے جلسہ میں نہیں بلایا گیا تھا اور نہ رابطہ کمیٹی کے جلسہ میں دعوت دی گئی تھی۔ بلکہ ہم کو تو مولانا توقیر رضا خاں صاحب کے اقدام کی حمایت کے جلسہ میں بلایا گیا تھا۔ اور بلانے والے وہ تھے جو ناواقف تھے انہوں نے صرف ہمارے مضامین پڑھے تھے۔ اور نہ انہوں نے رابطہ کمیٹی کے جلسہ کا ذکر کیا تھا اور نہ محترم بھائی شرف الدین صاحب نے بلایا تھا بلکہ ہم نے خود ہی کم از کم پانچ ٹیلی فون کئے تھے گویا ہم ہی گلے پڑ گئے تھے ۔ لیکن جلسہ کو دیکھ اور سن کر اندازہ ہوا کہ ہم کسی دوسرے جلسہ میں آگئے ہیں۔
ہم مسلمان سیاست میں تو کوئی مقام حاصل نہ کر سکے لیکن سیاست کی بیماری میں مبتلا ہو گئے ہیں۔حالت یہ ہو گئی ہے کہ ہمیں کسی بھی مقصد کے لئے بلایا جائے ہم یا تو اس الیکشن کی بات کرنے لگتے ہیں جو گزر چکا ہے۔ یا اس کی جو آنے والا ہے۔ ہر طرف کے مسلمانوں کی آواز آ رہی ہے کہ ملائم سنگھ نے مسلمانوں سے جتنے وعدے کئے تھے ان میں سے ایک بھی پورا نہیں کیا۔ اور صرف ملائم سنگھ ہی نہیں سپا کا ہر لیڈر کہہ رہا ہے کہ ہم نے ہر وعدہ پورا کر دیا۔ اور ہم وہ ہیں جن کا ساری عمر کا تجربہ ہے کہ جس نے بھی اور جب بھی مسلمانوں سے کوئی وعدہ کیا ہے وہ اس لئے پورا نہیں کیا کیونکہ اگر یہ غلطی کی تو وہ پارٹی مسلمانوں کی منہ بھرائی کی مجرم ہو جائے گی۔ اور سیاسی پارٹیوں کے لئے یہ اتنی موٹی گالی ہے جو کوئی برداشت نہیں کر سکتا۔ اور ہر پارٹی جانتی ہے کہ مسلمان زیادہ سے زیادہ یہ کریں گے کہ ووٹ دوسری پارٹی کو دیکر اس کی حکومت بنوا دیں گے۔ اور پانچ سال کے بعد پھر وعدے پورے نہ کرنے کی سزا دیں گے اور کسی اور پارٹی کی حکومت بنوا دیں گے۔ یا امت شاہ سے پیسے یا روپئے نہیں دولت لیکر اپنے ووٹ آپس میں بانٹ لیں گے اور الہ آباد کے موریہ کی حکومت بنوا دیں گے جس کے خلاف 11سنگین مقدمے چل رہے ہیں۔ اور اس سے زیادہ کچھ اس لئے نہ کر پائیں گے کیوں کہ تعداد میں بھی کم ہیں بے شعور بھی اور قابل فروخت بھی ہیں۔ لیکن جب عقل آتی ہے تو وہ کرتے ہیں جو دہلی میں کیا کہ کانگریس کا نام بھی دہلی سے مٹا دیا یا وہ کیا کہ بہار میں اویس صاحب کی ہر جگہ ضمانت ضبط کر ادی۔رہے نام اللہ کا

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا