English   /   Kannada   /   Nawayathi

ملک کے سامنے تعلیمی اداروں کے تحفظ کا چیلنج

share with us

ان تعلیمی اداروں کے علاوہ بھی دیگر کئی اداروں میں ہنگامہ آرائی ہوئی ۔ دراصل ان دنوں ملک بھر کے تعلیمی ادارے سنگھ پریوار کے نشانے پر ہیں اور جب سے مرکز میں نریندر مودی کی سرکار بنی ہے تب سے تعلیمی اداروں کے حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ یہاں تک کہ دینی مدرسوں کو بھی بھگوا رنگ میں رنگنے کی سازشیں رچی جارہی ہیں۔عام طلبہ کی حکومت کی نظر میں کیا حیثیت ہے اس کا اندازہ دلی میں آرایس ایس کے آفس کے سامنے احتجاجی طلبہ پر ہوئے حملے سے لگایا جاسکتا ہے جسے ابھی زیادہ دن نہیں بیتے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ سنگھ پریوار طلبہ سے جنگ لڑرہاہے اور اس جنگ میں جیت کر وہ تعلیم کا بھگوا کرن چاہتا ہے اور شایداسی لئے ایک تقریباً ناخواندہ لیڈی اسمرتی ایرانی کو وزیرتعلیم بنایا گیا ہے۔حالانکہ اب خود وزیراعظم نریندر مودی کی تعلیمی لیاقت بھی سوالوں کے گھیرے میں ہے۔دوسری طرف تعلیمی اداروں میں دہشت کی علامت بن کر ابھر رہاہے اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد۔ اس تنظیم کو آرایس ایس نے قائم کیا ہے اور جس طرح وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل، درگاواہنی وغیرہ کو غنڈہ گردی کرتے اور قانون ہاتھ میں لیتے دیکھا جاتا ہے اسی طرح اس تنظیم کے طلبہ بھی کرتے ہیں۔ اس تنظیم کامیدان عمل تعلیمی ادارے ہیں مگریہ نام نہاد طلبہ تنظیم یونیورسٹیوں اور کالجوں سے باہر نکل کر سڑکوں پر بھی خوف ودہشت پھیلانے میں لگی ہے۔ اس کے آتنک کا تازہ شکار حیدرآباد یونیورسٹی کا دلت طالب علم روہت ویمولا ہوا ہے جس نے مبینہ طور پر اے بی وی پی کے مظالم سے تنگ آکر خودکشی کی ہے۔ یونیورسٹی کے طلبہ کی طرف سے مطالبہ کیا جارہاہے کہ اس تنظیم کے ذمہ داروں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا جائے اور انھیں گرفتار کیا جائے مگر اب تک حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔ اے بی وی کے طلبہ کے خلاف کلکتہ میں بھی ایک معاملہ سامنے آیا ہے اور اس کے کچھ لیڈروں کے خلاف لڑکیوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کاکیس درج کیا گیا ہے۔ اے بی وی پی، بی جے پی کے مفاد میں کام کرتی ہے۔تعلیمی اداروں میں فرقہ پرستی پھیلانا اور جدید ذہنوں کو ہندتو کے زہرے سے مسموم کرنا اس کا بنیادی مقصد ہے۔ ان دنوں اے بی وی پی کی طرف سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اقلیتی کردار کے خلاف بھی آواز بلند کی جارہی ہے۔ تنظیم کا مطالبہ ہے کہ ان اداروں میں مسلمانوں کے لئے جاری پچاس فیصد ریزرویشن کو ختم کیا جائے اور ایس سی،ایس ٹی و اوبی سی کوٹہ نافذ کیا جائے۔اے بی وی پی ماضی میں سماج مخالف سرگرمیوں میں ملوث رہی ہے اور اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔
فکرمندی کی بات
سنگھ پریوار کی طرف سے تعلیمی اداروں میں مداخلت ان سبھی ہندوستانیوں کے لئے فکرمندی کا سبب ہے جو اس ملک کی تہذیب کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔تعلیمی سسٹم کا بھگواکرن اس ملک کے لئے خطرناک ہوگا کیونکہ اس سے ہمارے ملک کی تاریخ، تہذیب اور تمدن کو خطرہ لاحق ہوجائے گا۔یہی سبب ہے ملک کی متعدد سیاسی وسماجی تنظیمیں اس کے خلاف آوازبلندکر رہی ہیں۔ سی پی آئی (ایم ایل) کے جنرل سکریٹری دیپانکر بھٹاچاریہ کا کہنا ہے کہ بی جے پی، آر ایس ایس اور اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد سماج کو
تقسیم ہی نہیں کر رہے، بلکہ سیاسی جرم بھی کرنے لگے ہیں۔پورے ملک میں مسلسل ادیبوں، اساتذہ، اقلیتوں اور دلتوں پر حملے ہو رہے ہیں اور قتل کیا جارہاہے۔ مخالفت کرنے والوں کی آواز کو وطن دشمنی کہہ کر تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
اے بی وی پی کی کارستانیاں
سنگھ پریوار کی طرف سے تعلیمی اداروں میں مداخلت اور دہشت پھیلاکر تعلیمی ماحول بگاڑنے کی کوشش کی خبریں میڈیا میں آتی رہی ہیں مگر جب سے مرکز میں بی جے پی کی سرکاربنی ہے ایسی خبروں میں اضافہ ہوگیا ہے۔آئے دن ملک کے کسی نہ کسی تعلیمی ادارے سے کوئی نہ کوئی منفی خبر ضرور آتی ہے۔ پہلے تو سنگھی حضرات صرف دینی مدرسوں کو نشانہ بناتے تھے مگر اب جے این یو تک ان کی نظر میں دہشت گردی، نکسلواد اور جنسی بے رواہ روی کا اڈہ ہے۔ راجستھان کے کوٹہ گورنمنٹ کالج میں پچھلے دنوں ایک کیس سامنے آیا جس کے مطابق اے بی وی پی کے لوگوں نے طلبہ کو پریشان کیا اور اس کے خلاف کارروائی کی گئی تو پرنسپل کو ہی یرغمال بنالیا گیا۔ایسا ہی ایک واقعہ گوالیار(مدھیہ پردیش) میں پیش آیا۔ کوتوالی تھانہ علاقے میں اے بی وی پی کے کارکنوں نے ہنگامہ کیا۔ ان کا الزام تھا کہ آدھی رات کو اپنے پروگرام کے لئے پوسٹر لگا رہے اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کے کارکنوں کے ساتھ پولس نے خواہ مخواہ مارپیٹ کی ہے۔ گزشتہ سال اتر پردیش کے بارہ بنکی سے بی جے پی ایم پی پرینکا راوت کو موبائل فون پر جان سے مارنے دھمکی دینے اور قابل اعتراض تبصرہ کرنے کے الزام میں اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کے ضلع کنوینر کو گرفتار کیا گیا تھا۔ حالانکہ طلبہ لیڈر کی گرفتاری کے بعد ایم پی کے خلاف ہی اے بی وی پی کے لوگوں نے ہنگامہ شروع کردیا،دھرنے پر بیٹھ کر نعرے بازی کی اور ان کا پتلا پھونکا۔ دو سال قبل مدھیہ پردیش کے بیتول میں این ایس یو آئی کے ایک کارکن راہل جوشی کا قتل ہوگیا تھا اور قتل کا الزام اے بی وی پی اور بجرنگ دل کے کارکنوں پر لگا تھا۔واقعے کے خلاف شہر میں بند بھی منایا گیا تھا ۔ اس واقعے کے بعد شہر کے کانگریسیوں نے مطالبہ کیا تھا کہ بجرنگ دل اور اے بی وی پی پر فوری طور پر پابندی عائد جائے، لیکن بی جے پی حکومت نے اس مطالبے کو سرے سے مسترد کر دیا تھا۔ راہل جوشی نے اپنی موت سے پہلے کیمرے پر بیان دیا تھا، جس میں اس نے الزام لگایا تھا کہ اس پربجرنگ دل میں شامل ہونے کے لئے دباؤ ڈالا جا رہا تھا۔ جب وہ نہیں مانا تو اس پر کیروسین ڈال کر آگ لگا دی گئی بعد میں اس کی موت ہوگئی تھی۔
این ایس یو آئی کی درخواست پر حکومت کا کہنا تھا کہ صرف ایک واردات کے سبب کسی تنظیم پر پابندی کا مطالبہ نہیں مانا جا سکتا۔واضح ہوکہ ان دونوں تنظیموں کے ارکان پر ہنگامہ، مارپیٹ اور قتل وفساد کے الزامات ماضی میں لگتے رہے ہیں مگر بی جے پی سرکار خود اپنی ہی حامی تنظیموں پر پابندی لگانا نہیں چاہتی۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا