English   /   Kannada   /   Nawayathi

معصوم داعی نے دکھایا جنت کاراستہ

share with us

ایمسٹر ڈم ہالینڈ( Amsterdam, Holland )کا دارالحکومت ہے۔ یورپ کا یہ چھوٹا سا ملک بے حد خوبصورت ہے۔ یہاں بے حد و حساب پھولوں کی پیدا ئش ہوتی ہے۔ بارشوں کی کثرت کے باعث یہاں ہر طرف ہریالی ہی ہریالی نظر آتی ہے۔ دودھ کی پیداوار اور اس کی پروڈکٹ کے اعتبار سے یہ ملک بڑا مشہور ہے۔ کتنی ہی مشہور زمانہ کمپنیاں یہاں سے خشک دودھ دنیا بھر میں سپلائی کرتی ہیں۔
جمعہ کادن تھا اور اس روزموسم بڑا ہی خراب تھا۔ صبح سے ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔ یخ بستہ سردی کے ساتھ ساتھ وقفے وقفے سے بارش بھی ہو رہی تھی۔معمول کے مطابق نماز عصر کے بعد باپ بیٹے کودینی لٹریچر تقسیم کرنا تھا۔ والد تھوڑی ہی دیر پہلے مسجد سے گھر پہنچے تھے۔انہیں قدرے تھکاوٹ بھی تھی۔ بیٹے نے خوب گرم کپڑے پہنے اور اپنے والد صاحب سے کہنے لگا: اباجان چلئے! لٹریچر کی تقسیم کرنے کا وقت ہو چکا ہے۔
’’مگر بیٹے! آج تو موسم بڑا خراب ہے۔ سردی کے ساتھ ساتھ بارش بھی ہو رہی ہے‘‘والد نے کہا
’’میں تو تیار ہو گیا ہوں۔ بارش ہو رہی ہے تو پھر کیا ہے؟ یہاں تو بارش کا ہونا معمول کی بات ہے ‘‘بیٹے نے جواب دیا۔
’’بیٹے! موسم کا تیور آج ہم سے یہ کہہ رہا ہے کہ ہم آج گھر پر ہی رہیں‘‘ والد نے جواب دیا۔
’’اباجان! آپ تو خوب جانتے ہیں کہ کتنے ہی لوگ جہنم کی طرف جا رہے ہیں۔ ہمیں ان کو بچانا ہے۔انہیں جنت کا راستہ دکھانا ہے۔ آپ کو تو خوب معلوم ہے کہ’’ جنت کا راستہ‘‘ نامی کتاب پڑھ کر کتنے ہی لوگ راہِ راست پر آگئے ہیں‘‘
والد: بیٹے! آج میرا اس موسم میں باہر جانے کا قطعًا ارادہ نہیں ہے۔ کسی اور دن پروگرام بنا لیں گے۔
بیٹا: اباجان! کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ آج میں اکیلا ہی ان کتابوں کو تقسیم کر آوں؟۔ بیٹے نے اجازت طلب نگاہوں سے اپنے باپ کی طرف دیکھا۔والد تھوڑی دیر تردّد کا شکار ہوئے اور پھر کہنے لگے: میرے خیال میں تمہارے اکیلے جانے میں کوئی حرج نہیں۔ اللہ کا نام لے کر تم آج اکیلے ہی چلے جاؤاور لوگوں میں کتابیں تقسیم کر آؤ۔
والد نے بیٹے کوRoad to Paradise ’’جنت کا راستہ‘‘نامی کچھ کتابیں دیں اور اسے فی اما ن اللہ کہہ کر الوداع کہہ دیا۔
قارئین کرام! اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ اس ننھے معصوم داعی کی عمر صرف گیارہ سال ہے، اسے بچپن ہی سے اسلام سے شدید محبت ہے اور وہ نہایت شوق سے دین کے کاموں میں پیش پیش رہتا ہے۔
دعوت الیٰ اللہ کی تڑپ :ننھا داعی گھر سے نکلتا ہے، اس کا رخ بازار کی طرف ہے جہاں وہ کافی عرصہ سے لٹریچر تقسیم کرتا چلا آ رہا ہے۔ اب وہ بازار میں اپنی مخصوص جگہ پر کھڑا ہے۔ وہ اپنی مسکراہٹ سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ ان کو سلام کرتا ہے۔ انہیں روکتا ہے۔ ان سے بات چیت کرتا ہے۔ مسکراتے ہوئے ان سے کہتا ہے:دیکھیے سر! میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کا رب آپ سے شدید محبت کرتا ہے۔ وہ انہیں کتاب پیش کرتا ہے، ان سے کہتا ہے: جناب! یہ Free(مفت) ہے۔ یہ آپ کے لیے تحفہ ہے۔ ان میں سے کچھ لوگ اس ننھے لڑکے سے کتاب لے لیتے ہیں کچھ شانے اچکا کر آگے نکل جاتے ہیں۔کچھ کتابیں تقسیم کرنے کے بعد اب اس کا رخ قریبی محلے کی طرف ہے ۔وہ بعض گھروں کے دروازوں پر دستک دیتا ہے، اگر کوئی باہر نکلتا ہے تو مسکراتے ہوئے اسے کتاب کا تحفہ پیش کرتا ہے۔ کوئی قبول کرلیتا ہے کوئی انکار کرتا ہے مگر وہ ان چیزوں سے بے پروااور بے غرض ہوکر اپنے مشن میں لگا ہوا ہے۔
کتابیں تحفتاً تقسیم کرتے ہوئے کم و بیش دو گھنٹے گزر چکے ہیں۔ اب اس کے ہاتھوں میں آخری کتاب رہ گئی ہے۔ وہ اس سوچ میں تھا کہ یہ آخری کتاب کسے دی جائے؟ اس نے وہاں آنے جانے والے کئی لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا اور انہیں کتاب دینے کی پیش کش کی، مگر انہوں نے
Thank Youکہہ کر کتاب لینے سے انکار کیا اور آگے چل دیے۔
مگر اس معصوم داعی کو حضرت محمدؐ کا حکم بار بار یاد آرہا تھااور اس کو تڑپا رہاتھاکہ’’ پہنچادو میری جانب سے ایک آیت ہی کیوں نہ ہو‘‘
سڑ ک سے متصل واقع کالونی میں جہاں بہت سارے گھر ایک ہی ڈیزائن کے بنے ہوئے ہیں وہ ان میں سے ایک گھر کا انتخاب کرتا ہے اور دروازے پر جا کر گھنٹی بجاتا ہے،کسی نے جواب نہ دیا۔ اس نے بار بار گھنٹی بجائی،مگر اندر مکمل خاموشی تھی۔ نجانے اسے کیا ہوا۔ یہ اس کے طریق کار کے خلاف تھا کہ وہ کسی کے دروازے پر اس طرح گھنٹی بجائے مگر آج اس نے دروازے کو زور زور سے بجانا شروع کیا، زور سے کہا: کوئی اندر ہے تو دروازہ کھولو۔
اندر بدستور مکمل خاموشی تھی۔ وہ مایوس ہونے لگا، اس نے کچھ سوچا اور آخری بار اپنی انگلی گھنٹی پر رکھ دی۔ گھنٹی بجتی رہی، بجتی رہی133 اور آخر کاروہ مایوس اوراداس ہو کر واپس جانے کے لئے پلٹا ہی تھاکہ اسے اندر سے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ اس کے دل کی حرکت تیز ہونے لگی۔چند لمحوں بعد آہستگی سے دروازہ کھلتا ہے۔ایک خاتون چہرے پر شدید رنج و غم کے آثار لیے سامنے کھڑی تھی، کہنے لگی: ہاں میرے بیٹے! بتاو میں تمہاری کیا مدد کر سکتی ہوں؟
ننھے داعی نے مسکراتے ہوئے کہا : نہایت ہی معزز خاتون! اگر میں نے آپ کو بے وقت تنگ کیا ہے تو اس کے لیے میں آپ سے معافی چاہتا ہوں۔ دراصل میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کا رب آپ سے حقیقی اور سچی محبت کرتا ہے۔ آپ کا ہر طرح سے خیال رکھتا ہے۔ میں کچھ کتابیں تقسیم کر رہا تھا۔ میرے پاس یہ آخری کتاب بچی ہے۔ میری خواہش ہے کہ یہ کتاب میں آپ کی خدمت میں پیش کروں۔ اس کتاب میں کیا ہے؟ یہ آپ کو پڑھنے کے بعد معلوم ہو گا، مگر اتنی بات میں کہے دیتا ہوں یہ کتاب آپ کو آپ کے حقیقی رب کے بارے میں بہت کچھ بتائے گی۔اسے پڑھ کر آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ ہمارے پیدا کرنے والے نے ہمیں کن مقاصد کے لیے پیدا کیا ہے اور ہم اپنے رب ،اپنے خالق اور مالک کو کیسے راضی کر سکتے ہیں۔خاتون نے کتاب وصول کی اوربچے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا: جیتے رہو بیٹا، جیتے رہو۔
ننھے داعی کا آج کا مشن مکمل ہو چکا تھا، اس کو جتنی کتابیں تقسیم کرنی تھیں وہ کر چکا تھا۔ اس کا رخ اب اپنے گھر کی طرف تھا۔ یوں بھی شام کا وقت ہوا چاہتا تھا۔ وہ ہنستا مسکراتا اپنے گھر واپس آ گیا۔
ہفتہ کے ایام جلد ہی گزر گئے۔ آج ایک بار پھر جمعہ کا دن ہے۔ باپ بیٹا حسب معمول جمعہ کی نماز کے لیے مسجد میں ہیں۔ ننھے داعی کے والد نے جمعہ کا خطبہ ارشاد فرمایا۔ نماز پڑھانے کے بعد حسب معمو ل حاضرین سے کہا کہ آپ میں سے کوئی سوال کرنا چاہتا ہو یا کوئی بات کہنا چاہتا ہو تو اسے بر سر عام بیان کر سکتا ہے۔
حاضرین میں تھوڑی دیر کے لیے خاموشی چھا جاتی ہے۔ لگتا ہے کہ آج کسی کے پاس کوئی خاص سوال نہیں۔ اچانک پچھلی صفوں پر بیٹھی ہوئی خواتین میں سے ایک خاتون کھڑی ہوتی ہے۔ وہ قدرے بلند آواز میں کہنا شروع کرتی ہے:
قبول اسلام :خواتین و حضرات! آپ لوگوں میں سے مجھے کوئی بھی نہیں پہچانتا ،نہ ہی آج سے پہلے میں کبھی اس مسجد میں آئی ہوں۔ میں تو گزشتہ جمعہ تک مسلمان بھی نہ تھی۔بلکہ میں نے اسلام قبول کرنے کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہ تھا۔
چند ماہ گذرے میرے خاوند کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد میں اس دنیا میں بالکل تنہا تھی۔گزشتہ جمعہ کے روز موسم غیر معمولی ٹھنڈا تھا۔ وقفے وقفے سے ہلکی ہلکی بارش بھی ہو رہی تھی۔ میں اس دنیا اور تنہائی سے تنگ آچکی تھی۔ دنیا میں میرا کوئی بھی نہ تھا۔ میں کتنے دنوں سے سوچ رہی تھی کہ میں خود کشی کر کے اپنی زندگی کا خاتمہ کیوں نہ کر لوں۔جب میرا خاوند نہیں رہا تو میں اس دنیا میں رہ کر کیا کروں گی۔بالآخر گزشتہ جمعہ کو میں نے خود کشی کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا۔ میں بازار گئی وہاں سے ایک نہایت مضبوط رسی خریدی۔سیڑھی پر چڑھ کر چھت کے ایک شہتیر سے رسی کو باندھا۔ پھر میں نے رسی کے ایک سرے سے پھندا بنایا، اگلا مرحلہ یہ تھا کہ کرسی کواپنے قریب کر کے مجھے اس پر پاوں رکھنا تھا اورگلے میں پھندا ڈال کر کرسی کو ٹھوکر مار دینی تھی۔اس طرح پھندہ میرے گلے میں اٹک جاتا اور میری زندگی کا خاتمہ ہو جاتا۔ جوں ہی میں نے گلے میں رسی ڈالی، نیچے سے گھنٹی بجنے کی آواز آئی۔ پہلے تو میں نے اس پر کوئی توجہ نہ دی، مگر گھنٹی مسلسل بج رہی تھی۔ میں نے سوچا: میرا ملنے والا کون ہو سکتا ہے؟مدتیں گزر گئی ہیں مجھے کوئی ملنے کے لیے کبھی نہیں آیا۔
میں نے فیصلہ کیا کہ میں گھنٹی کو نظر انداز کر دوں اور خود کشی کرلوں۔ ادھر گھنٹی رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ کوئی غیر مرئی طاقت مجھ سے کہہ رہی تھی کہ دیکھو دروازے پر کون ہے؟ لیکن ایک سوال بار بار میرے ذہن میں آ رہا تھا: اس دنیا میں تو میرا کوئی بھی نہیں پھر یہ گھنٹی دینے والا کون ہو سکتا ہے؟
اسی دوران کسی نے زور زور سے دروازہ پیٹنا شروع کر دیا۔ میں نے سوچا:چلو کوئی بات نہیں، میں خود کشی کے پروگرام کو تھوڑی دیر کے لیے مؤخر کر دیتی ہوں چنانچہ میں نے رسی کو گردن سے اتارا، کرسی کا سہارا لے کر کھڑی ہوئی اور آہستہ آہستہ نچلی منزل کی طرف چل دی۔
میں نے دروازہ کھولا تو ایک بہت پیارے اور خوبصورت بچے کو دیکھا جو مجھے دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں،مجھے دیکھ کر اسے یوں لگ رہا تھا کہ اسے کوئی بڑی نعمت مل گئی ہو۔ میں نے آج تک اس عمر کے بچے کے چہرے پر اتنی حسین مسکراہٹ نہیں دیکھی۔میں بتا نہیں سکتی کہ وہ بچہ مجھے کتنا پیارا لگا۔
اس کے منہ سے نکلنے والے کلمات نہایت پیارے اور دل کش تھے۔جس انداز سے اس نے میرے ساتھ گفتگو کی وہ ناقابل فراموش تھی۔ اس نے مجھ سے کہا:اے معزز اور محترم خاتون!میں آپ کے پاس اس لیے حاضر ہوا ہوں کہ آپ کو بتا دوں کہ اللہ تعالیٰ آپ سے حقیقی محبت کرتے ہیں اور آپ کا ہر لحاظ سے خیال رکھتے ہیں۔ اس نے ’’جنت میں جانے کا راستہ‘‘ نامی کتاب میرے ہاتھوں میں دیتے ہوئے کہا: اسے اطمینان سے ضرور پڑھیے۔
وہ خوبصورت اور روشن چہرے والا بچہ جدھر سے آیاتھا ادھر ہی واپس چلا گیا، مگر میرے دل میں شدید ہلچل پیدا کر گیا۔ میں نے دروازہ بند کیا اور نچلی منزل پر ہی بیٹھ کر اس کتاب کا ایک ایک لفظ پڑھنے لگی۔ میں کتاب پڑھتی چلی گئی۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے یہ کتاب میرے لیے اور صرف میرے لیے لکھی گئی ہے۔ میں نے جیسے ہی کتاب ختم کی میرے ذہن میں انقلاب آچکا تھا۔ مجھے روشنی مل گئی تھی۔ میں اوپر والی منزل میں گئی۔ چھت سے رسی کھولی اور کرسی کو پیچھے ہٹا دیا۔ اب مجھے ان میں سے کسی چیز کی ضرورت نہ رہی تھی۔
معزز حاضرین! اس نے لوگوں سے مخاطب ہو کرکہا: میں نہایت سعادت مند‘ اور خوش بخت ہوں کہ میں نے اپنے حقیقی رب کو پہچان لیا ہے۔ میں نے فطرت کو پا لیا ہے۔ میں اب الحمدللہ! مسلمان ہو چکی ہوں۔ اس اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے ہدایت سے نوازا۔ کتاب کے آخری صفحہ پر اس اسلامک سنٹر (مسجد) کا ایڈریس دیا ہوا تھا، میں یہاں اس لیے آئی ہوں کہ میں آپ لوگوں کا شکریہ ادا کرسکوں، خصوصاً اس ننھے معصوم داعی کا جو میرے پاس نہایت ہی مناسب وقت پر آیا۔ بس یہ چندلمحوں کی با ت تھی، اگر وہ نہ آتا تو میں جہنم کا ایندھن بننے ہی والی تھی۔!!
لوگ حیران و ششدر ہو کر خاتون کی بات سن رہے تھے، جب اس کی بات ختم ہوئی تو مسجد میں بیٹھے ہوئے لوگوں میں شاید ہی کوئی آنکھ ہو جس میں آنسو نہ چھلک رہے ہوں۔مسجد میں اللہ اکبر، اللہ اکبر کی صدائیں گونج رہی تھیں۔ مسجد کے امام صاحب منبر سے نیچے اترے، سامنے والی صف میں ان کا معصوم داعی بیٹا بیٹھا ہوا تھا۔
انہوں نے روتے ہوئے اسے اپنے بازووں میں لے لیا اور سینے سے لگا لیا۔اور کہاکہ: بیٹے! مجھے تم پر فخر ہے۔ تم صحیح معنوں میں ننھے داعی اور مجاہد ہو۔ مسجد میں شاید ہی کوئی شخص ہو جس کی یہ تمنا نہ ہو کہ کاش اس کا بیٹا بھی اس قسم کا داعی ہوتا!!!
مسلمانان ہند کے کرنے کااہم کام :اس حقیقی واقعہ کوپڑھنے کے بعد خوشی کے چند آنسو بہانے سے اِس واقعہ کاحق ادانہیں ہوگا۔ یہ واقعہ قیامت کے دِن شہادت پیش کرے گا ۔ گواہ بن کریہ صفحہ گواہی دے گا۔کس بات کی گواہی ؟اِ س بات کی گواہی کہ فلاں فلاں قارئین نے مجھے پڑھالیکن مجھ سے سبق حاصل نہیں کیا۔
یہ واقعہ ہم مسلمانوں کوجھنجھوڑ تاہے اور ہم سے سوال کرتاہے۔چونکہ اس واقعہ میں ایک معصوم لڑکا اپنے اندر موجوددعوتی جذبہ کوبروئے کار لاتے ہوئے اس کا کامیاب اظہا رکررہاہے۔توکیا ہم بھی اپنے اندردعوتی جذبہ رکھتے ہیں ؟ جس یورپی ملک میں اس لڑکے نے دعوتی کام کیا ہے اسی طرح کی کم وبیش صورتحال ہمارے اِس ملک عزیز میں ہے۔سوال یہ بھی ہے کہ کتنے والدین اپنے بچوں کے ساتھ دعوتی کام انجام دیتے ہیں؟جب کہ المیہ یہ ہے کہ چند بچے دعوتی کام کرنا چاہتے ہیں توان کے والدین انہیں دعوتی کام سے روکتے ہیں یاپھر ان کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے ۔ 
خطیب کا کردار:اِس واقعہ کاایک اہم پہلو یہ ہے کہ جو صاحب جمعہ کی نماز کے بعد دعوتی کام کرتے ہیں وہ مسجد کے خطیب ہیں ۔آج ہم اپنے معاشرے پر نظر ڈالتے ہیں تو ایسی کیفیت نظر نہیں آتی ۔ ہمارے خطیب حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ صرف تقریر کرنا اور امامت کرنا ان کاکام ہے۔ خطیب حضرات بہت بڑی پوزیشن پر فائز ہیں۔انہیں عملی میدان میں آکر دعوتی کام کرنا ہے۔ جس طرح تبلیغی جماعت کے ’’ساتھی‘‘ گشت کرتے ہیں اور مسلمانوں کو نماز اور اجتماع کی دعوت دیتے ہیں الحمد للہ اسی طرح ہمیں بھی گشت کرکے غیرمسلموں کو جنت کی راہ کی طرف بلاناہے۔ ایسی پہل علماء کرام کو کرناہوگا۔ 
اس واقعہ میں خاتون نے خودکشی کاارادہ کیاتھااور معصوم داعی نے اسے بچالیا۔میری نظر میں خودکشی کی موت اور کفر پر موت برابر ہے۔ آج ہمارے ملک میں کتنی عورتیں اور مرد کفر کی موت مررہے ہیں۔ کیااِن کی موت پر ہم سے سوال نہیں کیاجائے گا؟ کیاہمار اغیرمسلم پڑوسی جنت کی راہ سے واقف ہے ؟نہیں ! توپھر ہم اس کے لئے جوابدہ ہیں۔ 
ایک اہم سبق اِ س واقعہ کایہ بھی ہے کہ بعض افراد کہتے ہیں کہ اسلام اخلاق سے پھیلتا ہے ۔ بے شک اِس سے ذرہ برابر بھی اختلاف نہیں ہے لیکن اسلام کی دعوت لٹریچر سے بھی دی جاسکتی ہے۔ اِس واقعہ میں معصوم داعی نے اس نومسلم خاتون کو اپنے اخلاق ہی پیش نہیں کئے بلکہ ایک کتابچہ بھی پیش کیااور الحمد للہ اس کتابچہ کے ذریعہ اس خاتون کو اسلام جیسی دنیا کی سب سے بڑی دولت اور نعمت حاصل ہوئی۔ لہٰذا وقت کو غنیمت جانیں ۔ اپنے غیرمسلم دوستوں اور پڑوسیوں تک اسلامی لٹریچر کو پہنچائیں۔ سلام سنٹر کی دعوت الی اللہ کے دوران بھی مذکورہ واقعہ کی طرح کے کئی ایمان افروز واقعات پیش آئے ہیں الحمد للہ ، جوآئندہ بیان کئے جائیں گے ،اِن شاء اللہ

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا