English   /   Kannada   /   Nawayathi

اپریل فول! اخلاقی پستی کی منہ بولتی تصویر

share with us

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرب قیامت کی جو جو علامات ارشاد فرمائی ہیں ، کسی قدر معمولی غور و فکر سے دیکھا جائے تو وہ منظر قریب قریب اب ہمارے سامنے ہے ، اور ایسا لگتا ہے کہ یہ ہمارا دور کہیں وہی نہ ہوجس کے متعلق ‘آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اس وقت تمہارا کیا حال ہو گا جب تمہارے نوجوان بد کار ہو جائیں گے ، اور تمہاری لڑکیاں اور عورتیں تمام حدود پھلانگ جائیں گی ، صحابہ کرامؓ نے عرض کیا ، یا رسول اللہ ! کیا ایسا بھی ہو گا ؟ فرمایا : ہاں ، اور اس سے بڑھ کر ، اس وقت تمہارا کیا حال ہو گا : جب نہ تم بھلائی کا حکم کرو گے ، نہ برائی سے منع کرو گے ، صحابہ کرامؓنے عرض کیا ، یا رسول اللہ ! کیا ایسا بھی ہو گا ؟ فرمایا : ہاں ، اور اس سے بھی بدتر ، اس وقت تم پر کیا گزرے گی ؟ جب تم برائی کو بھلائی اور بھلائی کو برائی سمجھنے لگو گے۔‘‘ ( کتاب الرقائق ، ابن مبارک ص :۴۸۴)
ہمارے معاشرے کی بدلتی قدروں اور شروفتنہ کی نت نئی شکلوں کا جائزہ لیجئے تو حضورﷺ کی یہ پیش گوئی حرف بہ حرف صادق آتی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اب ہم جس طرح بڑی بڑی برائیوں اور فحاشی و غلاظت کی ایمان شکن کا رروائیوں کو صبر و تحمل سے برداشت کر رہے ہیں اور اس کو جس جوش و خروش سے منا رہے ہیں، ، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ایمان و ایقان کی قوت مدافعت جواب دے چکی ہے ‘ ہمارے دلوں سے ایمانی غیرت اور دینی حمیت رخصت ہو چکی ہے ، اور ہماری ایمانی روح مر چکی ہے۔ اب ہمیں اچھے اور برے کی تمیز نہیں رہی ، اور ہمارے دل و دماغ اب فحاشی و عریانی کی غلاظت سے اٹھنے والی تعفن کی عادی ہو چکی ہیں ، اب ہمیں کوئی برائی ، برائی نہیں لگتی اور کسی اچھائی کی مشام جاں کو معطر کرنے والی خوشبو سے ہم نامانوس ہو چکے ہیں۔
جب کوئی انسانی گروہ گناہ کا عادی ہو جاتا ہے اور جان بوجھ کر گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کا طریقہ کا ر یہی ہوتا ہے کہ وہ بدی کو نیکی اور برائی کو اچھائی ثابت کرنے کی کوشش کرنے لگتا ہے ، مغربی تہذیب نے آج یہی صورت اختیار کر رکھی ہے ، آج بہت سی مسلّمہ اخلاقی برائیاں ، تہذیب و ثقافت کے نام سے رائج ہو گئی ہیں ، جو لوگ اس سے اختلاف رکھتے ہوں ، اسے برا جانتے ہوں ، ان کو تہذیب جدید سے نا آشنا ، بنیاد پرست اور انتہاء پسند جیسے القاب سے نوازا جاتا ہے۔ پوری قوت کے ساتھ اس بات کی کوشش کی جا رہی ہے کہ خوشی خوشی یا مجبور کر کے مغربی ثقافت و تہذیب کو اہل مشرق پر مسلط کر دیا جائے۔
اسی سلسلے کی ایک کڑی ’’ اپریل فل ‘ کا فتنہ ہے جو مغربی معاشرہ سے ہواؤں کے دوش پر چڑھ کر مشرقی دنیا پر آئی ہے، اور یہ عجیب بات ہے کہ لوگوں کی طبیعت ہر روز ہزاروں جھوٹ اور دھوکہ دے کر بھی سیر نہیں ہوتی کہ اس کے لے ایک دن منایا جاتا ہے، کسی کو آپ جھوٹااورفریبی کہہ دیں تو وہ چراغ پا ہوجائے اور لیکن یہ عیب اپریل فول کی شکل میں آئے تو عین ہنر ہوجائے اور روکنے ٹوکنے والے کو خود فول بے وقوف قرار دیا جائے،اخلاقی پستی کس کس خوشنما لفظ کے ذریعہ راہ پارہی ہے، اور اپریل فول کو کذب بیانی تمسخر اور استہزا کا دن قرار دے کر ایک دوسرے کا مزاق اڑا تے ہیں، اور اپنے اس فعل پر خوش ہوتے ہیں، جب کہ تمسخر و استہزاء اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ شریعت اسلامیہ میں نہ کسی فرد کو دوسرے فرد سے تمسخر کرنے کی اجازت ہے اور نہ کسی جماعت کو دوسری جماعت کیساتھ استہزاء کی اجازت دی گئی ہے۔ مسلمانوں کو مزید احتیاط سے کام لینا چاہئے تھا اور اس اپریل فول کا بائیکاٹ کر نا تھا ، لیکن افسوس صد افسوس مسلمانوں پر کہ جنہیں خیر امت کا اعزاز ملا ہے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہود و نصاریٰ کی صریح مخالفت کی تاکید کے باوجود آج وہ اپنے ازلی دشمن یہودو نصاریٰ کے جملہ رسم و رواج ، طرزعمل اور فیشن کو بڑی ہی فراخ دلی سے قبول کر رہے ہیں جب کہ انہیں اس سے بچنیاور احتیاط کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ یہ بات نہایت قابل غور ہے کہ آج کا مسلمان مغربی افکار اور نظریات سے اتنا مرعوب ہوچکا ہے کہ اسے ترقی کی ہر منزل مغرب کی پیروی میں ہی نطر آتی ہے۔ ہر وہ قول وعمل جو مغرب کے ہاں رائج ہوچکا ہے اس کی تقلید لازم سمجھتا ہے ،قطع نظر اس سے کہ وہ اسلامی افکار کے موافق ہے یا مخالف۔حتی کہ یہ مرعوب مسلمان ان کے مذہبی شعار تک اپنانے کی کوشش کرتاہے۔’’اپریل فول‘‘بھی ان چند رسوم ورواج میں سے ایک ہیجس میں جھوٹی خبروں کو بنیادبناکر لوگوں کا جانی ومالی نقصان کیا جاتا ہے۔ انسانیت کی عزت وآبرو کی پرواہ کیے بغیر قبیح سے قبیح حرکت سے بھی اجتناب نہیں کیا جاتا۔اس میں شرعاً واخلاقاً بیشمار مفاسد پائے جاتے ہیں جو مذہبی نقطہ نظر کے علاوہ عقلی واخلاقی طور پر بھی قابل مذمت ہیں۔ 
اپریل فول میں جہاں کئی مفاسد ہیں اس میں ایک دوسرے سے جھوٹ بول کر انہیں دھوکا دینا ہے اور اسلام نے اس طریقہ کو قطعا پسند نہیں کیا ہے، اس کی نظر میں یہ فعل جھوٹ ہے اور جھوٹ بولنا حرام ہے، اسلام نے تو صریح طور سے ایسے مذاق سے سختی کے ساتھ منع کیا ہے، جو دوسرے کے لیے تکلیف دہ اور پریشان کن ہو،(مسند احمد) اور آحادیث بنوی میں تو جھوٹ کی مزمت ہی نہیں بلکہ کبائر گناہ میں شمار کیا گیا ہے، 
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گناہ کبیرہ کا شمار کرا تے ہوئے جھوٹ کو بھی شامل کیا‘‘ (بخاری ومسلم) 
حتی کہ ایک انسان اور خصوصاً مومن ومسلمان کو مذاق میں بھی جھوٹ نہیں بولنا چاہئے۔ ارشاد نبوی ہے : ‘‘ اس شخص کے لیے ہلاکت ہے جو لوگوں سے کوئی بات بیان کرتا ہے پس جھوٹ بولتا ہے تا کہ وہ انہیں ہنسائے۔ اس کے لیے ہلاکت ہے اس کے لیے ہلاکت ہے۔’’ (ابوداود: 4990، وحسنہ الالبانی) ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا۔ ‘‘ا’’میں اس شخص کو جنت کے ادنیٰ درجہ میں ایک گھر کی ضمانت دیتا ہوں جو حق پر ہونے کے باوجود جھگڑنے سے اجتناب کرے اور اس شخص کو جنت کے درمیانے درجہ میں ایک گھر کی ضمانت دیتا ہوں جو جھوٹ چھوڑ دیتا ہے اگرچہ وہ مذاق کیوں نہ کر رہا ہو۔’’ (ابوداؤد: 4800، وحسنہ الالبانی) اپریل فل کے مفاسد میں ایک نبی کے ساتھ استہزہ کرنا ہے،یہ بات پوری قطعیت سے ثابت ہے کہ یہ ان اعمال میں سے ہے جو انسان کو ملت اسلام سے خارج کردیتے ہیں۔ پیغمبروں کے بارے میں اس نوع کا رویہ اختیار کرنا کھلا کفر ہے‘ خواہ اس فعل کا مرتکب قولاً یہ اقرار بھی کرتا ہو کہ وہ انبیاء پر ایمان رکھنے والا ہے۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے۔
’’اگر ان سے پوچھو کہ تم کیا با ت کررہے تھے تو جھٹ کہہ دیں گے کہ ہم و ہنسی مذاق اور دل لگی کررہے تھے۔ ان سے کہو! کیا تمہاری ہنسی دل لگی ا? اور اس کی آیات اور اس کے رسول ہی کے ساتھ تھی؟ اب عذرات نہ تراشو۔ تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا ہے‘‘ [: التوبہ: 66۔65)
یہی وجہ ہے کہ اسماعیل حقی بروسوی نے اپنی تفسیر روح البیان میں اس پر امت کا اجماع لکھا ہے: "آپ کو معلوم ہونا چاھیے کہ اس بات پر اجماع ہے کہ سرکار دو عالم یا انبیاء کرام میں سے کسی کی ادانی توہین کفر ہے، برابر ہے توہین کرنے والا حلال سمجھ کر کررہا ہو یا حرام جان کر، اس مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں،"(روح البیان ۳: ۳۹۳.) کیوں کہ اپریل فل کے تاریخی حیثیت سے متعلق انسائیکلو پیڈیا لا روس میں اس کی ایک وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ جب یہودیوں نے یسوح مسیح کو گرفتار کر لیا اور رومیوں کی عدالت میں پیش کیا تو رومیوں اور یہودیوں کی طرف سے یسوح مسیح کے ساتھ مذاق ، تمسخر ، استہزاء اور ٹھٹھا کیا گیا ، ان کو پہلے یہودی سرداروں کی عدالت میں پیش کیا گیا پھر پیلاطس کی عدالت میں فیصلہ کے لئے بھیجا ایسا محض تفریحاً کیا گیا (معاذاللہ) بائبل میں اس واقعہ کو یوں نقل کیا گیا ہے کہ جب لوگ یسوح مسیح کو گرفتار کئے ہوئے تھے تو وہ ان کا ٹھٹھا اڑاتے اور ان کی آنکھیں بند کر کے منھ پر طمنچے مارتے تھے اور ان سے یہ کہہ کر پوچھتے تھے کہ بتاؤ کہ کس نے تم کو مارا اور طعنے دے دے کر بہت سی باتیں ان کے خلاف کہتے تھے۔ (معاذاللہ) فریدی وجدی کی عربی انسائیکلوپیڈیا سے بھی ان تفصیلات پر روشنی پڑتی ہے اور ان کے نزدیک بھی اپریل فول کی اصل وجہ یہی معلوم ہے کہ یہ یسوح مسیح کا مذاق اڑانے اور انہیں تکلیف پہنچانے کی یادگار ہے۔ تو ایک مسلمان کے لیے کیسے جائز ہوگا کہ وہ اپریل فول منائے؟

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا