English   /   Kannada   /   Nawayathi

آؤ کہ ہم اپنے ایمان کی حفاظت کر لیں"

share with us

اجلاس کے دوران خطبہ گورنر پر منعقدہ بحث کے دوران "بھارت ماتا کی جے" کہنے سے انکار کرنے پر ایم آئی ایم کے رکن اسمبلی وارث پٹھان کو معطل کردیا گیا اس سے قبل اسدالدین اویسی کے ساتھ بھی اسی طرح کے واقعات ہوئے قابل غور بات یہ ہے کہ وارث پٹھان کی معطلی کی حمایت شیوسینا بی جے پی کے علاوہ مسلمانوں کی قیادت کا دم بھرنے والی راشٹر وادی پارٹی اور کانگریس کے اراکین نے کی_چنانچہ مسلمانوں کو متنازعہ نعرہ لگانا شریعت اور ملک کے قانون کے مطابق درست ہے یا نہیں اس موضوع پر گفتگو کرنے سے قبل کانگریس اور دیش بھکت پارٹی بھاجپا و شیوسینا میں کیا فرق ہے اس کی وضاحت کرتے چلیں کیونکہ مذکورہ سیکولر جماعت میں مسلم نمائندے موجود ہیں اور متنازعہ نعرے پر ان کا اتفاق مسلمانوں کے درمیان اہمیت کا حامل ہے_ اول ذکر یہ ہے کہ آزاد ہند کی سیاست، قیادت، سیکولر ازم اور فاشزم کا مطالعہ کریں تو معلوم یہ ہوگا کہ سیکولر جماعتوں نے مسلمانوں کو ہمیشہ ہتھیلی پر چاند دکھا کر سیاست اور حکو مت کی ہے جس کی تصدیق اس بات سے کی جاسکتی ہے کہ جب فرقہ پرست جماعتوں نے 1934 میں بابری مسجد کے تقد س کو پامال کرنے سے لیکر 1949 میں مسجد میں بت رکھے جانے تک مسلمانوں کی تباہی و بربادی اور قتل عام کا ذریعہ بنی ملک کے عوام ایک طرف ملک کی آزادی کے لئے جدوجہد کر رہے تھے تو دوسری طرف انگریزوں کی دلالی کرنے والے ملک کو ہندو راشٹر بنانے کے لئے کوشاں تھے لیکن یہاں پر ایک مجبوری تھی کہ کانگریس کی قیادت میں مولانا ابوالکلام آزاد ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر جیسی درجنوں شخصیت شامل تھے ورنہ 1947 کو ہی ہندو راشٹر کا اعلان کردیا جاتا دراصل 1885 میں کانگریس کے بانی اے او ہیوم کا نظریہ اور مقصد کچھ اور ہی تھا 1857 کی جنگ آزادی میں مسلمانوں نے جس طرح سے شہادت کا جام نوش کیااور انگریزوں کو ہر محاذ پر ناکام کیا تھا اس کے مدنظر ہیوم نے کانگریس کی سیاسی تنظیم بنائی تاکہ مرد مجاہد انقلابی مسلمانوں کی انگریز مخالف تحریک کو دوسری جانب موڑ سکے چنانچہ 15 اگست 1947 کو ملک آزاد ہوا اور 26 جنوری 1950 کو دستور کا نفاذ عمل میں آیا سیکولر ہندو ستان کے جمہوری نظام و آئین و قوانین میں تمام مکتب فکر کے فرد کو اپنی رائے و مذہبی آزادی اور حقوق کو اہمیت دی گئی لیکن گزشتہ 67 برسوں میں ملک کی سیاست نے مسلمانوں کو ہر محاذ پر نشانہ بنانا شروع کیا ایک طرف فرقہ پرست جماعتیں قہر برپا کرتی ہیں تو دوسری طرف سیکولر جماعتیں مسلمانوں کو فرقہ پرستوں کا خوف دکھا کر اقتدار کے مزے لوٹتے رہے کیونکہ کانگریس کے ہی کوکھ سے جنم لینے والی فرقہ پرست جماعتیں ہیں اور ان دونوں کی موجودگی میں بابری مسجد متنازعہ بنی اور کانگریس نے ہی سنگھ پریوار کو جلا بخشی جس کی وجہ سے مسجد میں بت رکھ دیا گیا تاکہ معاملہ سنگین ہوجائے بہر حال مسجد میں عدالت کی ایماء4 پر قفل لگا دیا گیا 1949 سے لیکر 1984 تک ملک میں سنگین فسادات ہوتے رہے اور ایک دن ایسا بھی آیا کہ جس کو دیکھ کر ذی شعور انسان سیاست پر یقین نہیں کرسکتا، مسلمانوں کو اس بات کا دکھ ہوا جب راجیو گاندھی نے متنازعہ مقام پر شیلا نیاش کرواکر انتخابی مہم کا آغاز کیا۔ دوئم ذکر یہ ہے کہ سیکولر ملک میں فرقہ پرست جماعتوں نے مسلمانوں اور اسلام کے خلاف بدترین الزامات لگائے اور جے شری رام نعرے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو بابر کی اولاد سے مخاطب کیا جانے لگا حالانکہ وندے ماترم، سرسوتی وندنا جیسے نکات کو درس گاہوں میں پڑھا نیکی کوشش کی گئی تھی لیکن اب مسلمانوں سے جبری طور پر بھارت ماتا کی جے کہلوانے کی سیاست شروع ہو گئی ہے یہ کہاں کا قانون ہے اور یہ کیسی دیش بھکتی ہے ؟ سنگھ پریوار کا نعرہ "بھارت ماتا کی جے" کی مخالفت کرتے ہوئے اسدالدین اویسی نے کہا کہ چاہے گردن پر چھری رکھ دو مگر میں کفریہ کلمات کی تائید نہیں کرونگا لیکن افسوس کا مقام ہے کہ کانگریس و راشٹر وادی پارٹی میں مسلم ممبران کی موجودگی میں دونوں سیاسی جماعتوں نے نعرہ کی حمایت کی قابل غور بات یہ ہے کہ شیطانی آیات سلمان رشدی کے خلاف مہاراشٹر میں واقع بھنڈی بازار میں مسلمانوں نے مظاہرہ کیا تھا لیکن مظاہرین کی مخالفت حکومت کو راس نہیں آئی حکومت کی ایماء4 پر لاء4 اینڈ آرڈر کا مدعا بنا کر مظاہرین پر پولیس نے 167 راؤنڈ گولیاں فائر کردی جس میں تیرہ مسلمان شہید ہوگئے تھے اتفاق کی بات یہ ہے کہ اس وقت کی حکومت میں ایک درجن مسلم ممبران تھے لیکن صرف ایک مرد مجاہد جنتادل کے لیڈر مرحوم نہال احمد (مالیگاوں) نے اس اقدام کے خلاف آواز اٹھائی تھی بقیہ سارے مسلم ممبران صم بکم عمی فھم لا یر جعون کی حالت میں ہوگئے تھے_ٹھیک اسی طرح کا حال مہاراشٹر اور بالخصوص ملک کے مسلمانوں کی قیادت کا ہے وطن عزیز میں مسلمانوں کا ایک قبیلہ ایسا ہے جو اسلام مخالف باتوں کو ترجیح دیتا ہے جس میں دانشوروں، علماء4 وں، صوفیوں اور عصری تعلیم کے ماہرین شامل ہیں باوجود اس کے یہ کسی جاہل سے کم نہیں ہیں کیونکہ ان کے پاس علم دین نہیں ہے اگر ذرہ برابر بھی علم دین ہوتا تو مشرکانہ و کفریہ جملے کا استعمال اور اس کی حمایت نہیں کرتے جیسا کہ جاوید اختر نے راجیہ سبھا کے اجلاس میں چودہ منٹ کی تقریر میں ایک جملے کا استعمال کرتے ہوئے اسدالدین اویسی کے اسلامی لباس پر کہا کہ بھارت کے آئین میں کہاں لکھا ہے ٹوپی اور شیروانی پہننا چاہیے کیونکہ اویسی صاحب نے کہا تھا کہ آیءں ن میں کہاں لکھا ہے کہ بھارت ماتا کی جے کہنا چاہیے جاوید اختروں جیسے جاہل کو اتنا بھی علم نہیں ہے کہ ملک کے دستور آئین و قوانین میں عوام کے بنیادی ضروریات کی نشاندہی نہیں کی گئی ہے اور جاوید اختر یہ بتا سکتا ہے کہ آئین میں کہاں لکھا ہے کہ تم فلموں میں مکالمہ لکھو، جبکہ اسلام کے قانون میں ہے فلم کی آمدنی کو حرام قرار دیا گیا ہے جیسا کہ ایک بچہ جب مسلمان کے یہاں پیدا ہوتا ہے تب اس کے کان میں اذان اور تکبیر کہی جاتی ہے اور یہی بچہ جب چار سال کا ہوجاتا ہے اسے مدرسہ بھیجا جاتا ہے اسے یہ معلوم ہو جائے کہ الف سے اللہ کے معنی کیا ہیں گویا کہ بچہ مدرسے سے اتنی تعلیم حاصل کر لیتا ہے کہ رسول کا کلمہ پڑھنے کا کیا مطلب ہوتا ہے اس مختصر سے الفاظ میں جاوید اختروں جیسے لوگوں کے ذریعہ ماتا کی جے ہم پر تھوپنے کی کوشش نہ کی جائے ورنہ نتائج خراب ہو نگے شرومنی اکالی دل کے امرتسر کے صدر سمرن جیت سنگھ مان نے واضح کیا کہ سکھ کبھی کسی خاتون کی پرستش نہیں کر سکتا بلکہ ہم وندے ماترم بھی نہیں پڑھتے وفاداری کے تعلق سے کہا کہ ملک سے وفاداری کے تئیں ہم پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا اور نہ ہی ایک نعرہ ملک سے وفا داری کا پیمانہ ہوسکتا ہے،، سنگھ پریوار بشمول بی جے پی اور جاوید اختروں جیسے لوگوں کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے اب ایسی صورت میں سوال پیدا ہوتا ہے دیش بھکتی کی سند باٹنے والے شرومنی اکالی دل سے ملک سے وفاداری کا ثبوت مانگ سکتے ہیں ؟ دراصل بات یہ ہے کہ ملک کے پانچ ریاستوں میں انتخابات ہونا ہے اور بی جے پی نے دلی اور بہار میں شکست کا پیمانہ دیکھ لیا ہے سنگھ پریوار چاہتا ہے کہ ہندوتو اور دیش بھکتی کے نام پر ووٹ حاصل کرکے اقتدار کی دہلیز پر قدم رکھ سکے لیکن عوام اچھے دنوں کے خواب دکھانے والوں کو ان کے انجام تک پہنچانے کے لئے غالبا ذہنی طور پرتیار ہیں اب اس میں انہیں کتنی کامیابی ملتی ہے یہ وقت بتانے گا آخری بات یہ ہے کہ سیکولر ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب میں تمام مذاہب و مکتب فکر کے لوگوں کو آزادی دی گئی ہے تاکہ تمام لوگ مذہبی قوانین کے مطابق زندگی گزارسکیں اسی طرح مسلمانوں بھی اپنے دین شریعت قانون کا پابند ہے اسلام میں شرک گناہ عظیم ہے مسلمان تو یہی جانتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کی عبادت نہیں کرسکتے اللہ تعالٰی نے دنیا کو ایک نعمت کے طور پر بندوں کو عنایت 
فرمایا ہے بندے کا کام ہے کہ اللہ کا شکر ادا کریں نہ کہ نعمتوں میں سے کسی ایک کو معبود بنا کر اس کی پوجا کریں اسلام حق کی دعوت دیتا ہے اور باطل کو خارج کر تا ہے کیونکہ جہاں حق کی بات آتی ہے وہاں دین کو ترجیح دی گئی ہے بجائے اس کے کہ والدین، دوست احباب و رشتہ دار، پڑوسی اور بالخصوص وطن سے محبت یا اس کی پوجا کی جائے۔ وطن سے محبت ایک فطری جذبہ ہے۔ جامعہ اشرفیہ مبارکپور کے صابق صدر مفتی محمد شریف الحق امجدی صاحب کا فتوٰی ہے کہ بھارت ماتا کی جے بولنے والے پر تجدید ایمان اور تجدید نکاح واجب ہوجاتا ہے کیونکہ برادران وطن کے نزدیک زمین، چاند سورج، درخت، آب ہوَا، پانی وغیرہ وغیرہ سب دیوی دیوتا ہیں جس کی وہ پوجا عبادت کرتے ہیں مذہب اسلام کے نزدیک یہ شرک ہے اور شرک کرنے والا مشرک کہلاتا ہے جیسا کہ مشرکین کے بارے میں اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ یہ جہنم کا ایندھن بنیں گے قابل غور بات یہ بھی ہے کہ دہلی میں ورلڈ صوفی کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں ملک کے وزیراعظم نریندر مودی کی آمد پر ان کا استقبال بھارت ماتا کے جے کے ساتھ ہوا تھا جسے اس اجلاس میں موجود تمام شرکا کی حمایت حاصل تھی اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مہاراشٹر اسمبلی اجلاس میں بھارت ماتا کی جے کی حمایت میں کانگریس و این سی پی کے مسلم ممبران سے لیکر صوفی کانفرنس کے علمائے مشایخ تک اور جاوید اختر سے لیکر دیگر مسلمان جو اس مکالمے کی حمایت کرتے ہیں ان کو اگر اس فتوے کے تناظر میں دیکھا جائے توکیا "ایمان سے خارج ہو گئے ہیں؟ آج کے اس جدید دور میں مسلمان جب اپنے مفادات کے لئے ایمان کو فروخت کرنے لگے جس کا اثر بقیہ مسلمانوں پر ہوتا ہے تب یہ کہنا ہوگا آو کہ ہم اپنے ایمان کی حفاظت کرلیں!

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا