English   /   Kannada   /   Nawayathi

کیا اجودھیا میں صنم کدہ بن ہی جائےگا؟؟

share with us

رام مندر تحریک کے الگ الگ سروں کو یاد کریں تو جمہوریت شرمسار سی ہونے لگتی ہے،لیکن اس کا بھی احساس ہوتا ھیکہ ملک کے سامنے اس تحریک کے نتیجہ میں بےشمار مسائل اور چیلینج بھی کھڑے ہوگئے تھے،اسی تحریک کی وجہ سے ۱۹۹۲ میں بابری مسجد کی شہادت ہوئی،۱۹۹۳ میں عروس البلادممبئی نے خوں آشام و ہولناک مناظر دیکھے،اسی کارسیواکے "رمیکس" کے طورمیں اجودھیا سے چلی کارسیوکوں کی بوگی ۲۰۰۲ میں گودھرامیں جلی،انسانیت سوز جمہوریت کو دہلادینے والے گجرات فسادات ہوئے،ملک عزیز کےماحول میں زھر گھل گیا، اس فساد کے نتیجہ میں سماجی و اقتصادی نقصان کو آج تک کسی نے بھی آڈٹ نہیں کیا،اس کی وجہ سے کتنے چھوٹے بڑے کاروبارٹھپ ہوگئے،بھارت میں اپنی پونجی Inwest کرنے کی خواہش رکھنے والے سینکڑوں غیر ملکی کارپوریٹ گھرانوں کے بھارت ناآنے سےملک کی معیشت پر کتنا
گہرااثر پڑا،کتنی ذکیہ آج تک دربدر بھٹک رہی ہیں، کتنے ونجارے اور تڑی پاربے گناہوں کی خونی ہولی کھیل رہے ہیں، اسے لفظوں میں بیان کرپاناممکن نہیں،لیکن اب وہ سب پیچھے چھوڑ کر بی.جے.پی آگے بڑھ رہی ہے،اسے لگ رہاھیکہ رام مندر مدعا اب نہیں چلےگا،اب ایک نیامندر بنانے کی تیاری ہے،
وہ ہے"راشٹرمندر" بنانے کی تیاری،
کونسا ہندو یہ نہیں چاہے گاکہ ایک ایسا مندر بنے جس میں بھارت ماتاکی مورتی رکھ کر پوجا و وندنا ہو،ہزاروں خامیوں و ناانصافیوں کے باوجود ملک عزیز سے ہمیں جذباتی عقیدت ہے،اور ہمیں ملک سے اس والہانہ محبت پرفخر ہے،ملک کے لئے ہر ہندوستانی مرمٹنا اپناملکی و مذھبی فریضہ یعنی کرم اور دھرمسمجھتا ہے، لیکن وہ کونسی بھارت ماتاہوگی جسے اس راشٹر مندر میں رکھ کر پوجا جائے؟؟،یہی سوال پنڈت جواہر لعل نہرو نے تحریک آزادی کے دور میں "بھارت ماتا کی جئے"کانعرہ لاگو کرنے کامطالبہ کرنے والوں سے پوچھاتھا،اسی پر "سمترانندن پنت"نے ایک مشہور نظم ہندی میں، لکھی تھی،لیکن وہ دور ملک کو کھنگالنے،زبان و قلم،فکر و خیالات سے جانچنے،شعر و کویتا کے ذریعہ ملک کی سیاسی،سماجی،اقتصادی اور جمہوری اتار چڑھاؤ کو پرکھنے کاتھا،پرساد نے بھی اسی روش پر چلتے ہوئےظلم و اتیاچار کوملک کے لئے ناسور قراردیاتھا،اقبال نے بھی حب الوطنی سے شرسار ہوکر" سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا" کی تخلیق کرڈالی تھی،لیکن کویتاؤوں اوررچناؤوں،اشعار و نظموں کی تہذیب ختم ہوکر ساری حب الوطنی اور ملک وفاداری نعروں میں سمٹ گئی،حب الوطنی کے اسی معیار نے ملک کو پہلے بھی روس و اسپین بنایا،جمہوریت تار تار ہوئی،کیونکہ اس دیش بھکتی میں ناکوئی قربانی دینی پڑتی ہے اور ناہی حدود کی پاسداری کرنی پڑتی ہے،بس ان لوگوں کو ڈرانا دھمکانا اور کبھی کبھی پیٹنا اور پھر جان سے ماردیناہوتاہے،جو ملک کے اس رخ کو قبول نہیں کرتے،اوریہ مانتے ہیں کہ ملک کی تعمیر کے لئے ملک پربھی بحث ضروری ہے،اس دیش بھکتی میں صرف بھارت ماتا کی جئےکا نعرہ لگانا ہی کافی ہے،اس نعرہ سے قانون توڑنے،فساد مچانے،بےگناہوں کو جان سے مارنے اور کرپشن کرنے نیزعورتوں کے ساتھ زبردستی کرنے کالائنسس مل جاتاہے،اسی سنگھی دیش بھکتی کے بھینٹ کلبرگی وپنسارے،ویمولااورکنہیا، خالد و انربھان کو چڑھایاگیا، بھارتی جنتا پارٹی اور اس کے سیاسی و نظریاتی حلیف طاقتیں اب اسی حب الوطنی کےسہارے"راشٹر مندر" اور پھر"رام مندر" بناناچاہتی ہیں، کچھ دنوں پہلے کارسیوا کہ بانی و محرک ایل.کے.اڈوانی نے ملک میں ایمرجینسی جیسے حالات کے خدشہ کا اظہار کیا تھا،اڈوانی بی جے پی کے وہ لیڈر ہیں جنہوں نے بی جے پی کو اقتدار تک پہنچانے کے لئے ہر جمہوری و غیر جمہوری طریقہ اپنایا انکی رتھ یاترا نے ملک کے طول و عریض میں کتنا خون بہایا وہ سب جانتے ہیں۔بابری مسجد کے خلاف کس قدر سنگین اور خون آشام تحریک انہوں نے چھیڑی کہ اس کا نتیجہ بی جے پی کی سرکار اور بابری مسجد کی شہادت کی صورت میں برآمد ہوا اور آج تک ملک کی فضا فرقہ وارانہ اعتبار سے مسموم ہے ۔گویا جس خدشے کا اظہار اب انہوں نے کیا اس کی بنیاد تو خود انہوں نے رکھی ہے۔ آج وہ کہہ رہے ہیں کہ جمہوریت پسند طاقتیں ملک میں کمزور ہوئی ہیں۔بات تو صحیح ہے مگر ان طاقتوں کو کمزور کرکے جس طاقت کو جلا بخشی گئی ہے وہ طاقت تو خود انہوں نے ہی بہم پہنچائی ہے۔
فرق صرف اتنا ہے کہ وہ طاقت عطا کرنے کے بعد حاشئے پر ڈال دئے گئے،اڈوانی جی کا یہ خدشہ ایک یوٹرن اور رام مندر کی تعمیر کے دیرینہ خواہش کو پایہ تکمیل تک پہونچانے کے لئے موجودہ بی.جے.پی قائدین کو ایک مارگ درشن تھا،سلسلہ چلتارہا،سبرامنیم سوامی اور ساکشی مہاراج کے اعلامیہ کے مطابق ۲۰۱۹ میں بی.جے.پی کو تخت اقتدار رام مندر بن جانے کی وجہ سے ہی ملےگا،کابینہ سے بل پاس کراکر موجودہ صدر مملکت سے پاس کرایا جائےگا، ۳۷۰ کاخاتمہ ہوگا،مکھرجی اگرپاس کردیں تو وہ بھی ہندو کہلائینگے، ورنہ تو 24جولائی ۲۰۱۷ کو اپناصدر جمہوریہ ہوہی جائےگا،لوک سبھا میں اکثریت ہے،راجیہ سبھامیں اکثریت حاصل کرنے کے لئے صوبائی الیکشنوں میں رام مندر تعمیر کو ہی Think Tankاور Master plan کی صورت میں پیش کیاجائےگا،اور اگر تب بھی یہ ممکن ناہوا تواگلاصدر جمہوریہ دفعہ ۱۲۳ کے تحت براہ راست آرڈینینس لاکر رام مندر کو ہری جھنڈی دینگے،نتیجتاً ملک فساد میں پڑجائے گا،اور آڈوانی کا خدشہ درست ثابت ہوگا،کیونکہ ممکن ہے ایمرجینسی لگانے والے وہ خود ہوں،ایمرجینسی میں ہی دستور میں ترمیم ہوجائے،ہندو راشٹر کاخواب پورا ہوجائے،اور سنگھ کو سیدھے سے نہیں ٹیڑھے سے ہی رام مندر مل جائے،
افسوس تو اس بات پر ھیکہ ملک میں جس زہر کی تخم ریزی کی جا چکی ہے اس کی فصل تو کاٹنی ہی پڑے گی۔کاٹنے والے کا نام اڈوانی ہو یا مودی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ملک مطلق العنانیت کی طرف بڑھ رہا ہے۔مرکزی سرکار کے وزراء اپنی کارکردگی میں آزاد نہیں ہیں ، میڈیا پر حکمراں طبقے کا مکمل کنٹرول ہوتا جا رہا ہے۔امبانی گروپ ملک کے تمام میڈیا گروپ کو ایک کے بعد ایک خریدتا جا رہاہے۔بیوروکریسی پر اجیت ڈووال جیسوں کا اتنا کنٹرول ہے کہ کوئی فائیل ان کی منشاء کے بغیر سیکریٹیریٹ میں حرکت نہیں کرتی ۔یعنی مقننہ ، منتظمہ اور میڈیا ایک بار پھر ایک ہی ہاتھ میں مرتکز ہیں۔مالیہ فرار،
جے.این.یو.اے.ایم.یو سب کی بھگوا کرن کی شروعات،ایسے میں عدلیہ جو پہلے آزاد تھی اور اب بھی آزاد رہے تو کیا فرق پڑتا ہے ۔ویسے بھی عدلیہ میں بہت سے عناصر ہیں جو موجودہ حکمرانوں کے نظریہ سے متفق ہیں ایسے میں لوک سبھا میں تعداد بھی موجود ہے۔ان تمام لوازمات کے ساتھ ساتھ سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ اب ملک میں کوئی جے پی بھی موجود نہیں ہے جو کوئی عوامی انقلاب بپا کر سکے ۔سیاسی جماعتیں برادریوں اور علاقوں میں محدود ہیں اور تقریبًا حکمرانوں کی ہم خیال ہی ہیں۔اگرموجود ہوں بھی تو انھیں پھر پہلے کی طرح دبا دیا جائے گا۔ایسے میں اگر وشو ہندو پریشد ،آر ایس ایس اور ان کی ذیلی جماعتیں ملک بھر میں رام مندر کی تعمیر کی تحریک کھڑی کررہی ہیں یا وہ سب کچھ جو مودی جی کے حاکم بنتے ہی آج تک دیکھااور سنا جا رہا ہے، ہندو تفاخر کے مختلف مظاہر ،لو جہاد ،گھر واپسی،یوگا،گیتا،گئوماتا،بھارت ماتا اور ہندو احیاء پرستوں کی بے لگام بیان بازی ۔مسلم پرسنل لاء کی آئینی حیثیت میں در اندازی اور ناجانے کیاکیا؟؟؟یہ سب اگر مخصوص رفتار سے اگلے دو تین سال اور چلتارہےگا،ملک کانگریس مکت ہوہی چکاہے،اب آگےآگے دیکھئے ہوتا ہےکیا،بس سوال یہ ھیکہ امبیڈکر کے سماجوادی،
سیکولر،اور"دھرم نرپیچھ" آئین پر لبیک کہہ کر ستر سال سے چلنے والے ملک کو ساولکر و ہیڈگیوار کے بنائے ہوئے منووادی وفسطائی دستور سے۱۰۰ کروڑ سیکولر ہندو،مسلم سکھ عیسائی کیسےبچائینگے؟یہی ہر جوان و بچہ کی تشویش ہے.من کی بات تو ہر مہینہ اسٹوڈیو سے ہوتی ہے،
دیش کی بات تو پوچھئے مت،انتظار کرئیے اس دن کاجب من کی بات کرنے والے سے ہی اعلان نا کرادیا جائے،اور مودی جی اڈوانی سے بھی ایک قدم آگے سبقت کرکے ایک دوسرے ساولکربن جائیں،بس دیکھئے دیکھتے رہئے،ہمت ہے توکاٹجو،رویش،تیستا،اور ان جیسوں کی آواز کوسنئے،ان کے اندر کے سیکولر درد مند بھارتی سمجھنے کی کوشش کرئیے،ایکتا واکھنڈتا کے لئے کبھی انہیں ساتھ تو کبھی ان کے ساتھ چلئے،
ہرمحلہ گلی کوچہ اور گاؤں و شہر میں شیخ الہند وحسین احمدمدنی،فضل حق خیرآبادی ،آزاد کی قربانیاں، گاندھی کے عدم تشدد، امبیڈکر کے نظریات،کاٹجو کے خیالات،رویش کے جذبات،اور تیستا کے تخیلات کو ترویج دیجئے،گھر گھر سے سماجوادی و بھیم وادی نکلے گا،ملک کو بھگوا کرن سے بچانے کے لئے آئین و دستور کا پیراھن اوڑھ کر سربکف ہوکر میدان میں اترےگا،جمہوریت کے دفاع کاشاید یہ ایک مؤثر طریقہ ہوسکتاہے،آئین کے روح کوبچانے کے لئے تکثیریت اور کثرت میں وحدت کے مزاج کو شعار بنانا ہی پڑےگا،ملک نے ہمیں کیا دیا یہ بھلاکر ملک کے لئے آزدی کے بعد ہم نے کیاکیا؟؟یہ سوچنا برتنا اور پھر نتیجہ برآمد کرکےمظلومیت کاڈھنڈورا پیٹنا چھوڑکر دفاعی لائحہ عمل پر اکتفاء نہیں ،مثبت عملی اقدام شاید ہم سب کے لئےاب ضروری ہوگیا ہے.ورنہ شاید اقلیت میں اکثریت کو ضم کردیاجائے اور ہم یونہیں پھڑپھڑاتے رہ جائیں،

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا