English   /   Kannada   /   Nawayathi

جموں کشمیر پھر ہمدم و دَم ساز

share with us

اور پھر وہی ہوا کہ دو مہینے تک جوڑنے اور گھٹانے کا سلسلہ چلتا رہا اور آخرکار مفتی سعید نے وزیر اعظم کی موجودگی میں بی جے پی کے تعاون سے حلف لے لیا۔ اسے کشمیر کی بدقسمتی ہی کہا جائے گا کہ مفتی صاحب جو کشمیر کے سب سے بڑے، سب سے محترم اور سب سے زیادہ مقبول لیڈر تھے انہیں پروردگار نے بلا لیا اور کشمیر پھر وہیں آگیا جہاں 25 دسمبر 2014 ء کو تھا کہ یہ بھی زبان پر آنے لگا کہ مسز سونیا گاندھی کا محبوبہ مفتی کے پاس تعزیت کے بہانے آنے کا مقصد کچھ اور بھی ہوسکتا ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ محبوبہ مفتی اتنے بڑے حادثہ کے بعد اس حال میں نہیں رہی تھیں کہ اتنا بڑا فیصلہ کرسکیں۔ لیکن ہمارا خیال وہی تھا جو 2014 ء میں تھا کہ چاہے جتنی دیر کریں اور چاہے جس جس سے بات کریں۔ اگر حکومت بنے گی تو بی جے پی کے ساتھ ورنہ الیکشن۔ اور آخرکار محبوبہ اپنی پارٹی کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہوگئیں کہ ابھی پارٹی نئے الیکشن سے وہ حاصل نہ کرسکے گی جس کے بعد وہ بی جے پی سے بے نیاز ہوجائیں۔ اس فیصلہ کے بارے میں ہم جیسے باہر کے لوگ کیا رائے دیں۔ یہ تو ان ہی کے کرنے کا کام ہے جنہوں نے کیا اور ہماری رائے میں اتنی تاخیر کرکے محبوبہ مفتی نے یہ تاثر بی جے پی کو دے دیا کہ وہ وزیر اعلیٰ کی کرسی کی بھوکی نہیں ہیں۔
دو دن سے شہرت تھی کہ محبوبہ مفتی امت شاہ سے ملنے دہلی جارہی ہیں اور ہم حیران تھے کہ امت شاہ اتنے بڑے کب سے ہوگئے کہ محبوبہ مفتی کو ان سے ملنے کے لئے دہلی جانا پڑرہا ہے۔ اور اس کے لئے ڈھول بج رہے ہیں۔ کل دیکھا تو وہ وزیر اعظم کی برابر کی کرسی پر جلوہ افروز ہیں۔ اور وہ بات کررہی ہیں جسے وہ مسلسل کہہ رہی تھیں کہ جب تک کشمیر کے لئے کچھ اہم وعدے وہ نہیں کرالیں گی اس وقت تک اپنے والد مرحوم کی چھوڑی ہوئی کرسی پر نہیں بیٹھیں گی۔ اب یہ بات وہ جانیں جن کے درمیان بات ہوئی ہے؟ اگر کوئی کہے کہ محبوبہ صاحبہ نے مودی سے کچھ مانگا ہی نہیں یا انہوں نے کوئی وعدہ کیا ہی نہیں تو یہ ان کے کہنے کی بات ہے۔ اور جب محبوبہ مفتی اپنے ساتھیوں سے کہیں کہ وزیر اعظم سے میری بات ہوگئی ہے اور انہوں نے مان لیا ہے کہ مطالبے صحیح ہیں تو اب بحث بند ہوجانا چاہئے۔ اس لئے جو کہہ رہے ہیں وہ اپنے لوگوں سے کہہ رہے ہیں۔
سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کی بے قراری تو اب حد سے بڑھتی جارہی ہے۔ محبوبہ جب خاموش تھیں تو وہ اصرار کررہے تھے کہ بولیں اور اب جو وہ بولیں تو ان کا مطالبہ ہے کہ انہیں بتایا جائے کہ وزیر اعظم سے ایک ہی ملاقات میں وہ کیا ہوگیا کہ وہ حکومت بنانے پر تیار ہوگئیں؟ ہم نہیں جانتے کہ انہیں کس نے یہ حق دیا ہے کہ وہ محبوبہ مفتی سے ہر قدم کا جواب طلب کریں کہ یہ کیوں اٹھایا؟ یا انہیں ہر قدم اٹھانے سے پہلے اعلان کرنا چاہئے کہ یہ میں کیوں کرنے جارہی ہوں؟ وہ راہل گاندھی کی مہربانی سے چھ برس تک وزیر اعلیٰ رہے اور یہ ان کی احسان فراموشی ہے کہ چھ سال کے بعد جب وہ الیکشن میں اترے تو اپنے محسن راہل گاندھی سے الگ ہوکر لڑے۔ اور انہیں پندرہ سیٹیں ملیں اور کانگریس کودس۔ اس کے بعد بھی انہوں نے پوری ایک رات رام مادھو کے ساتھ اس پر غور کرتے گذاردی کہ وہ بی جے پی کو وزیر اعلیٰ کا عہدہ دے دیں اور حکومت میں شریک ہوجائیں۔ ہم جانتے ہیں کہ سابق ہوکر زندگی گذارنا آسان نہیں ہے۔ لیکن بے شرمی اور بے غیرتی شیرکشمیر کے پوتے کے لئے سزائے موت سے زیادہ بڑا عذاب ہے۔
عمرعبداللہ کو اب چار برس حزب مخالف کے لیڈر کی حیثیت سے گذارنا ہیں۔ وہ اگر صرف اسے موضوع بنائیں کہ بی جے پی کے تعاون سے کشمیر کا کیا نقصان ہوا تو زیادہ اچھا ہے؟ لیکن یاد نہیں آتا کہ کبھی انہوں نے وزیر اعظم یا بی جے پی کی صوبائی قیادت پر انگلی اٹھائی ہو؟ وہ صرف محبوبہ مفتی کو نشانہ بناتے ہیں جس سے سیاست کا اختلاف نہیں رقابت ظاہر ہوتی ہے۔ لیکن انہیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ ان کا نمبر تو چار برس تک آنا نہیں تو وہ تعمیری کاموں کی طرف ذہن کیوں نہیں لگاتے؟
ہم کشمیر کے ان لوگوں سے واقف ہیں جو کہتے ہیں کہ ہمیں نہ ہندوستان چاہئے نہ پاکستان۔ ہم اپنے بل پر زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ وہ مانتے ہیں کہ ہندوستان اگر مدد بند کردے تو ہم بھوک سے مرجائیں گے یا سردی سے۔ لیکن ہمیں یہ منظور ہے۔ جب خوداعتمادی کا یہ حال ہے تو عمرعبداللہ صاحب یا دوسرے لیڈر ہر دن اس کا ذکر کیوں کرتے ہیں کہ وزیر اعظم نے 80 ہزار کروڑ کے پیکیج کا اعلان کیا تھا۔ لیکن رقم نہیں دی؟ یا کیوں محبوبہ سے معلوم کررہے ہیں کہ وزیر اعظم نے کیا دیا؟
قدرت نے کشمیر کی حکومت کشمیری مسلمانوں کو دی ہے اور وہ مخالف ہندو کشمیری جو ہر قدم پر مخالفت میں آگے آگے رہتے تھے۔ وہ حکومت میں شریک نمبر دو ہیں۔ اب کہاں ہیں وہ کشمیری جو اپنے بل پر زندگی گذارنے کی بات کرتے تھے؟ وہ محبوبہ نام کی بہن کے ساتھ آئیں اور ان کے ہر قدم پر ان کا ساتھ دیں اور جو بزرگ ہیں وہ مسجدوں میں بیٹھ کر قادر مطلق سے فریاد کریں کہ اپنی کشتی پار لگانے کا حوصلہ کرنے والوں کی مدد فرمائے۔ اور وہ جو ہر بات پر اعتراض کرنے کا مرض ہے۔ ہر کشمیری اس سے توبہ کرے۔ اس لئے کہ یہ چھوت کی بیماری ہے۔ اور اس سے صرف نقصان ہوتا ہے۔ اپنا بھی اور اپنے ساتھیوں کا بھی پھر اس کے چار سال کے بعد دیکھیں کہ حوصلے کے درخت پر کتنے پھول اور پھل آئے؟

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا