English   /   Kannada   /   Nawayathi

صوفی یا کوفی؟

share with us

الیکشن کا موقع آتے ہی برساتی میڈکوں کی طرح نئی نئی جماعتیں اور نئے نئے قائدین نظر آنے لگے ہیں، ابھی حال ہی میں دلّی میں تین کانفرنسیں ہوئی ہیں،ایک کانفرنس جماعت دیوبند کے مولانا ارشد مدنی نے کیا جس میں کانگریس کے نمائندے نظر آئے، اب یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس کانفرنس کا مطلب کیا رہا ہوگا، اس کے بعد دوسری کانفرنس جماعت اہل حدیث والوں نے منعقد کی، تیسری کانفرنس بریلوی جماعت کے لوگوں نے کی، جس کا نام صوفی کانفرنس رکھا، صوفی کا مطلب پاک دل اور تنہائی پسند ہوتا ہے، لیکن اس صوفی کانفرنس کا حال ہی کچھ اور تھا، اس کانفرنس کے نام سے لگتا تھا کہ یہ گدڑی پوش اللہ والوں کی کانفرنس ہوگی مگر ایسا نہیں ہے اس کانفرنس کے مہمان صوفی ایسے تھے جن کی سیکورٹی پر روزانہ لاکھوں کا خرچ ہے۔
عجیب اتفاق ہے کہ اس کی سربراہی ایک ایسا شخص کر رہا تھا جو انگریزی تہذیب وتمدن کا پروردہ ہے، صوفیت کے نام پر اس کے پاس صرف لباس صوفیا ہی ہے، دوسری سب سے حیرت کی بات یہ ہے کہ ہندوستان جہاں ہزاروں کی تعداد میں صوفیا گذرے ہیں اور آج بھی کم از کم سیکڑوں خانقاہیں آباد ہیں لیکن اس عالمی صوفی کانفرنس میں کسی بھی ذمہ دار خانقاہ کا کوئی ذمہ دار شخص نہیں شریک ہوا، خود بانی کانفرنس جس خانوادہ سے تعلق رکھتے ہیں اس خانوادہ کے تمام علما اور مشائخ نے اس کانفرنس کا مکمل بائیکاٹ کیاخانوادۂ مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کے مشہور ومعروف لوگوں میں خود بانی کانفرنس کے بڑے بھائی اور سجادہ نشین مولانا محمود اشرف صاحب، شیخ الاسلام علامہ سید محمد مدنی میاں صاحب، علامہ سید کمیل میاں صاحب، مولانا سید معین اشرف صاحب میں سے کوئی بھی شریک نہیں ہوا، مارہرہ، بلگرام، کالپی، کاکوری، بریلی، مبارکپور، گھوسی وغیرہ سے کوئی بھی ذمہ دار شخص یا تو بلایا نہیں گیا یا لوگوں نے شرکت سے گریز کیا۔
بلکہ شوشل میڈیا کے حوالے سے جو خبریں عام ہوئیں ان سے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ بریلی، مارہرہ، گھوسی، مبارکپور اور کچھوچھہ کے لوگوں نے اس کانفرنس کی مخالفت کی۔
حد تو یہ ہے کہ جولوگ شریک ہوئے وہ بھی اسٹیج ہی پر آپس میں لڑ پڑے، انگلینڈ سے آئے علامہ پیر ثاقب شامی نے اپنی تقریر میں نام لیکر ڈاکٹر طاہر القادری کے نظریہ کی تردید کی اور تصوف کی نمائندگی کرنے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے خالص بریلوی نقطۂ نظر کی حمایت کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت مولانا شاہ امام احمد رضا خاں بریلوی کو اہل تصوف کی علامت بتایا، علامہ شامی کی تقریر کے فوراً بعد تنویر ہاشمی نام کے ایک مقرر نے علامہ شامی کے بیان کی مخالفت کی اور انہوں نے کہا کہ ہمیں کسی عالم یا مولانا سے سرٹیفکیٹ نہیں لینی ہے، ان کی تقریر کا لب لباب یہ تھا کہ جتنے بھی مزار اور خانقاہ والے ہیں ان کے عقائد و نظریات خواہ جیسے ہوں اس سے ہمیں کوئی مطلب نہیں، مزار و نیاز کے نام پر ہمیں متحد ہونا چاہئے، غرضیکہ صوفی کانفرنس میں صوفیت کم کوفیت زیادہ نظر آئی، بزرگوں کے نام پر شدت پسند جماعت کے نمائندہ مسٹر مودی کو اپنا نے کی تدبیر کے سوا صوفی کانفرنس میں کچھ نہیں ہوا، جس کانفرنس کا افتتاح مسٹر مودی نے کیا ہو بآسانی یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ اس کانفرنس کا مقصد کیا ہے؟ در حقیقت ہرزمانے میں میر جعفر ومیر صادق رہے ہیں پھر یہ زمانہ کیونکر ایسوں سے خالی ہو سکتا ہے، سیاسی گلیاروں کے دلّال موقع بموقع رنگ بدل کر اپنی اداکاری کے دام وصولتے ہیں، اس بار اس مارکیٹ میں مزاروں اور قبروں کو بااختیار سمجھنے والوں نے اللہ والوں کی قبروں اور ان کے جبہ ودستار کو مسٹر مودی کے قدموں میں نچھاور کرکے مسٹر مودی کی بارگاہ سے تبرک حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔

مضمون نگار کے آراء و خیالات سے ادارے کا متفق ہونا لازمی نہیں۔۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا