English   /   Kannada   /   Nawayathi

پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں مودی سرکار کا وقار داؤپر

share with us

کون جیتے گا اور کس کی ہار ہوگی؟کیا کیرل میں کانگریس کے ہاتھ سے اقتدار نکل جائے گا؟ کیا آسام میں بی جے پی پہلی بار سرکار بنانے کی پوزیشن میں ہوگی؟کیا تمل ناڈو میں اب ایم کے کرونانیدھی کی پارٹی اقتدار میں واپس آئے گی؟ کیا مغربی بنگال میں بی جے پی اپنا کھاتا کھولنے میں کامیاب ہوگی؟ کیا وزیر اعظم نریندر مودی پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں اپنی عزت بچانے میں کامیاب ہوجائینگے؟ان سوالوں پر بحث شروع ہوچکی ہے کیونکہ الیکشن کمیشن نے اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کردیا ہے۔ یہ سال 2014 کے لوک سبھا انتخابات کے بعد سیاسی جماعتوں کی مقبولیت کا سب سے بڑا امتحان ہوگا۔چیف الیکشن کمشنر نسیم زیدی نے پچھلے دنوں آسام، کیرل، مغربی بنگال، تمل ناڈو اور مرکز کے زیر انتظام ریاست پانڈیچیری میں اسمبلی انتخابات کا اعلان کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ ووٹنگ اپریل اور مئی میں ہو گی۔ اس کے ساتھ ہی ان ریاستوں میں مثالی ضابطہ اخلاق فوری طور پر نافذ ہوگیا۔ اس انتخاب میں تقریبا 17 کروڑ ووٹر اپنے ووٹ کے حق کاستعمال کر سکیں گے۔ آسام کی126 اسمبلی سیٹوں پر 4 اور 11 اپریل کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔ جب کہ مغربی بنگال کی 294 نشستوں پر سات مراحل میں پولنگ ہوگی۔ کیرالہ کی140 نشستوں ، تامل ناڈو کی234 نشستوں اور پانڈیچری کی30 سیٹوں پر ایک ہی مرحلے میں پولنگ ہوگی۔ ان تمام پانچ ریاستوں میں ووٹوں کی گنتی 19 مئی کو ہوگی۔ 
کیوں داؤ پر ہے بی جے پی کا وقار؟
اپریل، مئی میں ہونے والے انتخابات میں پانچ ریاستوں میں جو اہم سیاسی جماعتیں میدان میں اتریں گی ان میں کانگریس، بی جے پی، لیفٹ پارٹیاں، ترنمول کانگریس، انا ڈی ایم کے ،ڈی ایم، آسام گن پریشد اور آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک
فرنٹ کے ساتھ ساتھ این آر کانگریس شامل ہے جو پانڈیچری میں اقتدار میں ہے۔ تاہم، بی جے پی صرف آسام اور کیرل میں ہی اقتدار کی جنگ میں ہے، لیکن اس تمام پانچ ریاستوں کے انتخابات کے نتائج اس کے لئے اہم ہوں گے، کیونکہ گزشتہ سال فروری میں دہلی اور نومبر میں بہار انتخابات میں اسے بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ کانگریس، آسام اور کیرالہ میں اقتدار میں ہے لیکن دونوں ریاستوں میں اسے سخت چیلنج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ آسام میں کانگریس کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے بی جے پی نے علاقائی پارٹیوں سے اتحاد کیا ہے۔ لیفٹ والے کیرالہ میں اقتدار میں واپسی کے لئے اعتماد سے بھرے ہوئے ہیں۔ بی جے پی بھی اس ریاست میں اپنا کھاتا کھولنے کے لئے مصروف عمل ہے۔ پانڈیچیری میں کانگریس اہم اپوزیشن پارٹی ہے۔ ظاہر ہے کہ آسام کے علاوہ کسی ریاست میں بی جے پی اچھی پوزیشن میں نہیں ہے مگر باوجود اس کے رزلٹ اس لئے اہم ہے کہ اس سے جہاں ایک طرف مودی سرکار کی امیج متاثر ہوگی وہیں ۲۰۱۷ء کی ابتدا میں ہونے والے اسمبلی انتخابات پر بھی اس کا اثر پڑسکتا ہے۔
مغربی بنگال کی بی جے پی کی کمرٹوٹ سکتی ہے
مغربی بنگال میں بی جے پی کے پاس اسمبلی کی صرف ایک سیٹ تھی مگر اب امید نہیں کہ وہ بھی بچ پائے گی کیونکہ ریاست میں ترنمول کانگریس کی ہوا چل رہی ہے اور اس کا پورا امکان ہے کہ اسمبلی کی ۹۰ فیصد سیٹیں ترنمول کانگریس جیت لے گی۔ یہاں ترنمول کانگریس کی سرکار ہے اور اپوزیشن کی جگہ پر لیفٹ پارٹیاں ہیں جن کے سامنے اقتدار میں واپسی کا چیلنج ہے،حالانکہ فی الحال ایسا نہیں لگتا کہ ان کی واپسی ہوسکتی ہے۔ یہاں ترنمول کانگریس مضبوط حالت میں ہے۔لگاتار جیت کے سبب اس کے حوصلے بلند ہیں اور جس دن الیکشن کا اعلان ہوا،اس نے اپنے امیدواروں کے نام بھی اعلان کردیئے۔گزشتہ اسمبلی الیکشن میں ترنمول کانگریس کو ۱۸۴سیٹیں ملی تھیں جب کہ لیفٹ پارٹیوں نے ۶۲ سیٹیں پائی تھیں۔ کانگریس کو ۴۲ سیٹیں ملی تھیں مگراس کے بیشتر ممبران اسمبلی اب ترنمول کانگریس میں شامل ہوچکے ہیں۔ بنگال میں بی جے پی کا انتخابی وجود بالکل نہیں ہے۔ اس کے پاس صرف ایک اسمبلی سیٹ ہے ۔ اس کے سامنے یہاں جیت کا چیلنج نہیں ہے بلکہ کھاتا کھولنے کا چیلنج ہے۔گزشتہ لوک سبھا انتخابات کے مودی لہرمیں اسے ۱۸فیصد کے قریب ووٹ ملے تھے مگر اب اس بات کا امکان بالکل نہیں کہ وہ اس قدر ووٹ بھی حاصل کرپائیگی۔اس لئے پورا امکان ہے کہ بی جے پی کی کمرمغربی بنگال میں ٹوٹ سکتی ہے۔ 
کمیونسٹوں کے لئے مشکل گھڑی
مارکسی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت والے بائیں محاذ کے لئے ان دنوں حالات دشوار ہیں اور یہ لڑائی زندگی موت کی ہے۔ اس کے سامنے (تریپورہ کے علاوہ باقی) دونوں گڑھوں مغربی بنگال اور کیرل میں اقتدار میں واپسی کا مشکل چیلنج ہے۔ فی الحال کیرالہ میں تو اس کا بہت امکان ہے، مگر مغربی بنگال میں اس کی امیدیں نہیں ہیں۔ کیرل میں کانگریس کی حکومت ہے اور عام طور پر یہاں پانچ سال کے اندر اقتدار بدلنے کی روایت رہی ہے جس کی وجہ سے کمیونسٹوں کو امید ہوسکتی ہے۔یہاں گزشتہ اسمبلی میں کانگریس کو
اتحاد کو ۷۲ سیٹیں ملی تھیں جب کہ کمیونسٹوں کے اتحاد کو ۶۸ سیٹیں ہاتھ آئی تھیں۔کیرل میں بی جے پی کو گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں دس فیصد کے آس پاس ووٹ ملے تھے مگر اب آرایس ایس ماحول کو فرقہ وارانہ کر رہا ہے باوجود اس کے یہاں بی جے پی کی دال گلتی نظر نہیں آتی۔ یہاں سنگھ پریوار کو منہ کی کھانی پر سکتی ہے اور اس کے ووٹوں میں بھی کمی آسکتی ہے۔
آسام میں کانگریس اور بی جے پی کا مقابلہ
آسام میں بی جے پی خوش ہوسکتی ہے کیونکہ یہاں اس کی سیٹوں میں اضافہ کا امکان ہے۔مقابلہ کانگریس، بی جے پی کی قیادت والے محاذ اور آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ (اے آئی یو ڈی ایف )کے درمیان ہو گا۔ یہی اکیلی ریاست ہے، جہاں اقتدار کے مقابلہ میں بی جے پی ہے۔یہاں کانگریس دس سال سے اقتدار میں ہے،جس کے سبب سرکار کے خلاف عوامی ناراضگی بھی ہے۔ اسی کے ساتھ اس کا مسلم ووٹ بینک کھسک چکا ہے اور اے آئی یو ڈی ایف کے ساتھ جاچکا ہے۔ اس لئے آسام کے نتائج کا انتظار بیتابی سے بی جے پی کو ہوگا۔ حالانکہ جس طرح ریاست کی کانگریسی سرکار سے عوام میں ناراضگی ہے اسی طرح مرکزی کی مودی سرکار سے ناراضی کا اثر بھی رزلٹ پر پڑسکتا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ آسام میں ان جماعتوں کا بہت کچھ داؤ پر لگا ہے۔ یہاں آسام گن پریشد نے بی جے پی کے ساتھ جانے کا اعلان کیا ہے۔۲۰۱۱ء کے انتخابات میں کانگریس کو ۷۸ اور بی جے پی کو محض ۵ سیٹیں ملی تھیں مگر لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی نے بازی مارلی تھی لہٰذا بی جے پی اس بار بھی پر امید ہے۔ 
تمل ناڈو کی صورت حال
تمل ناڈو میں حکمران اے آئی اے ڈی ایم کے کے خلاف کانگریس اور ڈی ایم کے کے درمیان اتحاد ہے۔ جب کہ بی جے پی بھی اے آئی اے ڈی ایم کے ساتھ اتحاد کی کوشش میں ہے۔ یہاں کی روایت رہی ہے کہ کسی بھی پارٹی کو دوبار اقتدار نہیں ملتا۔ اب سوال یہ ہے کہ روایت برقرار رہے گی یا ٹوٹے گی؟کیا جے للیتا ایک بار پھر اقتدار میں واپسی کرینگی یا ڈی ایم کے حکومت بنائے گی؟ ان سوالوں کا جواب انتخابی نتائج ہی دے سکیں گے۔ گزشتہ اسمبلی میں کرونانیدھی کے ڈی ایم کے کو محض ۳۱سیٹیں ملی تھیں جب کہ جے للیتا کی پارٹی اے ڈی ایم کے کو ۲۰۳ سیٹیں ملی تھیں۔
یوں تو ان اسمبلی انتخابات میں اصل مقابلہ علاقائی پارٹیوں کے بیچ ہے مگر دونوں اہم قومی پارٹیوں بی جے پی اور کانگریس کا وقار داؤ پر لگا ہے۔ نتائج کا ملک گہری دلچسپی کے ساتھ انتظار کرے گا۔ 19 مئی کو آنے والے نتائج سے رائے عامہ کے تازہ رجحانات کی جھلک ملے گی۔ ساتھ ہی بایاں محاذ، ترنمول کانگریس اور تمل ناڈو کی دونوں اہم علاقائی پارٹیوں ڈی ایم کے اور انا ڈی ایم کے کا مستقبل اس سے طے ہوگا۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا