English   /   Kannada   /   Nawayathi

فائدہ کچھ سوچ لے تو بھی تو دانا ہے اسد

share with us

قسمت نے ساتھ نہیں دیا اور وہ کامیاب نہیں ہوسکے۔ تو 2009 ء میں اعلان کرکے الیکشن لڑا گیا کہ شری ایل کے اڈوانی وزیر اعظم ہوں گے اور 2014 ء میں اعلان کیا گیا کہ شری نریندر مودی وزیر اعظم ہوں گے اور اس سے کسی کو اختلاف نہیں تھا۔
اس کے بعد ہریانہ اور مہاراشٹر کے صوبائی الیکشن آئے تو مودی صاحب نے ہی فیصلہ کیا کہ پہلے وزیر اعلیٰ کا نام نہیں بتایا جائے گا۔ اس لئے کہ ہریانہ میں جاٹ اور غیرجاٹ اور مہاراشٹر میں مرہٹہ اور غیرمرہٹہ ایک دوسرے سے اتنا ہی دور ہیں جتنا سنگھی ہندو سے مسلمان یا اونچی ذات اور دلت۔ اگر نام طے کردیا تو دوسرا اسے ہرانے کی کوشش کرے گا۔ اور دونوں جگہ جیسے تیسے حکومت بنالی۔ لیکن اندازہ ہوا کہ اگر نام پہلے ظاہر کردیتے تو شاید اچھا ہوتا؟ پھر دہلی میں الیکشن ہوا تو وہاں مقابلہ شری انا ہزارے کے ایک تیز طرار اروند کجریوال سے تھا۔ مودی صاحب نے لوہے کو لوہے سے کاٹنے کا فیصلہ کیا اور کرن بیدی (جو انا ہزارے کے قریب تھیں اور کجریوال سے دور ہوگئی تھیں اور اس دوری میں ان کی ذہنیت کا بھی دخل تھا۔) کو اتارا۔ کرن بیدی کا دہلی کی وزیر اعلیٰ بننا ان کے دل کی مراد تھی۔ انہوں نے بصد شکر اسے قبول کیا اور کجریوال کو نیچا دکھانے کے لئے اپنے آپ کو جھونک دیا۔
امت شاہ کا خزانہ، شری مودی کا اقتدار اور کرن بیدی کی رات دن کی محنت۔ اس لئے کوئی اثر نہ دکھا سکیں کہ مودی کے 2014 ء میں دکھائے ہوئے سنہرے خوابوں کی حقیقت عوام کے سامنے آنے لگی تھی۔ وہ جو 15 لاکھ کی دولت تھی یا وہ جو مہنگائی خود بخود ختم ہونے کی یقین دہانی تھی یا وہ جو بھرشٹاچار یعنی رشوت کا وجود بھی ختم کرانے کا وعدہ تھا اور وہ جو اچھے دن آنے والے تھے۔ ان میں سے کوئی ایک بات بھی نہ ہونا کرن بیدی کو کھا گیا۔ اور بی جے پی کو دو سیٹیں اپنی ملیں اور ایک وہ جس کی اس نے حمایت کی۔ انتہا یہ ہے کہ جسے وزیر اعلیٰ بننا تھا وہ اسمبلی کی ممبر بھی نہ بن سکیں۔ اس کے بعد بہار کا الیکشن آگیا۔ تو مودی صاحب اور ان کی پارٹی نے فیصلہ کیا کہ وزیر اعلیٰ کون ہوگا؟ یہ بعد میں طے کیا جائے گا۔ لیکن بہار میں دہلی جیسا برا حشر تو نہیں ہوا۔ لیکن دہلی میں تو صرف ایک کجریوال فاتح بن کر سامنے آیا تھا لیکن بہار میں وہ راہل اور وہ لالو جن کا نام لینا بھی مودی کو گوارہ نہیں تھا وہ بھی 56 اِنچ کی چھاتی کھول کر سامنے آگئے۔
اب بنگال، کیرالہ، تمل ناڈو میں تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ وزیر اعلیٰ کون ہوگا؟ اس لئے ابھی سے یہ بحث چل پڑی ہے کہ اُترپردیش میں وزیر اعلیٰ کا نام طے کرکے الیکشن لڑا جائے یا نام بعد میں۔ اور اگر نام پہلے ظاہر کردیا جائے تو گورکھ پور کے یوگی آدتیہ ناتھ یا ورون گاندھی، اسمرتی ایرانی یا ان کے نائب رام شنکر کٹھیریا؟؟ ان میں سے ہر کسی کی کچھ خصوصیات ہیں جیسے یوگی اگر وزیر اعلیٰ بن جاتے ہیں تو الہ آباد، فیض آباد، مراد آباد اور مظفرنگر جیسے اضلاع جن میں مسلمان کا نام آتا ہے۔ سب سے پہلے وہ نام تبدیل کئے جائیں گے۔ جیسے گورکھ پور کے اردو بازار کو ہندی بازار کردیا گیا۔ پھر اس کے بعد ہوسکتا ہے کہ سادھوی، اومابھارتی کی طرح دو ہفتہ کے بعد انہیں ہٹا دیا جائے کہ حکومت الگ چیز ہے سنت فقیر الگ!۔
دوسرا نام مسٹر ورون گاندھی کا ہے۔ جن کو پیلی بھیت سے لوک سبھا کا ٹکٹ دیا گیا تو وہ کالے کپڑے پہن کر ایسے میدان میں آئے جیسے وہ یدھ (;q)) کرنے جارہے ہیں۔ ہر تقریر میں گیتا کی قسم کہ سب کے ہاتھ توڑ دوں گا اور سب کو بھسم کردوں گا۔ اور جب وہ پوری طرح آپے سے باہر ہوگئے تو مایاوتی صاحبہ نے انہیں بند کردیا۔ چندن کے پالنے میں جھولنے والے سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کے پوتے۔ اور اپنے وقت کے سب سے طاقتور حکمراں سنجے گاندھی کے لخت جگر نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ انہیں کوئی ترچھی نظر سے دیکھ بھی سکتا ہے؟ لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ مس مایاوتی کیا چیز ہیں؟ بہرحال وہ جیل میں رہے اور واپس آئے تو سب کچھ جیل میں ہی چھوڑ آئے اور اب ان کی سنجیدگی ہی ان کی سفارشی ہے۔
رہیں اسمرتی ایرانی تو وہ انتہائی اہم وزیر ہیں اور انہوں نے لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں مخالفوں سے لوہا لے کر اور ان کی بولتی بند کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ ہر محاذ پر مورچہ لینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ لیکن ذات برادری والے صوبہ اُترپردیش میں ان کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد ہر برادری ہاتھ ملتی رہ جائے گی کہ اسے کیا ملا؟ اسمرتی ایرانی کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ امت شاہ کی پسند ہیں۔ رہے وزیر اعظم تو وہ تو دو سال پہلے انہیں امیٹھی میں اپنی بہن کہہ چکے ہیں اور یہ بات پورا ملک جانتا ہے کہ آخری فیصلہ پر موہن بھاگوت صاحب کی مہر لگنا ہے۔ تو وہ یہ ضرور سوچیں گے کہ ان کو مرکز میں رکھ کر پورے ملک میں تعلیم کا بھگوا کرن کرائیں یا اُترپردیش کو فتح کرلیں؟ اور ان کے بعد ان کے آگرہ والے نائب کا نام ہے۔ جنہوں نے اپنے پرانے ساتھیوں سے کہا تھا کہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ میں وزیر بن کر۔۔۔ ہوگیا ہوں۔ میں آج بھی وہی ہوں جس کے ہاتھ میں لاٹھی ڈنڈا ہر وقت رہتا تھا۔ اور یہ ان کے خطرناک تیور ہی تھے جنہیں دیکھ کر وزیر داخلہ انہیں کلین چٹ دینے پر مجبور ہوگئے۔
ایک بات جو بہت غلط ہورہی ہے وہ یہ ہے کہ ہر صوبہ کا الیکشن وزیر اعظم اتنی ہی سنجیدگی سے لڑتے ہیں جیسے انہوں نے وہ الیکشن لڑا تھا جس میں وہ امیدوار تھے۔ پنڈت نہرو نے جتنے الیکشن بھی لڑے وہ صرف ایک ضلع میں ایک تقریر کرتے تھے۔ صوبوں کے الیکشن ان کے زمانہ میں الگ نہیں ہوتے تھے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ 1963 ء میں جب آچاریہ کرپلانی، رام منوہر لوہیا اور مینو مسانی کانگریس کے مقابلہ پر تھے تو وہ کسی کی آواز پر بھی نہیں گئے۔ صوبوں کے الیکشن کی وباء اندرا جی نے ملک پر مسلط کی تھی۔ لیکن وہ صرف ایک شہر میں ایک تقریر کرتی تھیں مودی صاحب کی طرح ایک شہر میں تین۔ چار نہیں۔ وزیر اعظم کوئی بھی ہو اُسے صوبہ کا الیکشن اس طرح نہیں لڑنا چاہئے جیسے وہ دشمن سے لڑرہا ہے۔ اس لئے کہ پھر دلوں میں گرہ نہ رہے یہ ممکن ہی نہیں؟ جو صوبوں اور وزیر اعظم دونوں کے لئے مضر ہے۔
ایک بات اور دیکھنا چاہئے کہ اُترپردیش میں بی جے پی کی ہوا کسے نظر آرہی ہے؟ وزیر اعظم اور پارٹی کو یہ نہ بھولنا چاہئے کہ جھوٹے وعدے اور سنہرے خواب دکھاکر لوک سبھا میں جو ووٹ لئے تھے اور پھر ایک سال اور دو سال میں جو حقیقت سامنے آئی ہے اور جس نے دہلی اور بہار میں پارٹی کو منھ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔ اس میں کمی نہیں آئی اضافہ ہی ہوا ہے۔ ایسی صورت میں جسے وزیر اعلیٰ بناکر پیش کیا جائے گا یہ سمجھ کر کیا جائے کہ اس کا جھٹکا کیا جارہا ہے۔ کیونکہ اکھلیش یادو، مایاوتی اور راہل کے منھ سے بوٹی چھیننا ایسا ہی ہے جیسے بلی کتوں کے منھ سے چھیننے کی کوشش کرے۔ اب فیصلہ پارٹی کرے کہ پہلے مرغی یا پہلے انڈا؟

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا