English   /   Kannada   /   Nawayathi

بھارت کی تہذیب نظریوں کا سنگم

share with us

آدی واسیوں کے الگ الگ قبیلے ان کے ریتی رواج ، بھگوان اور پوجا کے مختلف طریقہ بھی اس کا ثبوت ہیں ۔بہار ، بنگال ،آسام ،چھتس گڑھ ، مدھیہ پردیش جھار کھنڈ اور اڑیسہ کے آدی واسیو ں میں کوئی میل نہیں ہے سوائے اس کے کہ وہ جنگلات میں رہتے ، کھیتی کرتے اور جانوروں کو پالتے ہیں ۔ سرکار کی کوشش سے جو آدی واسی تہذیب یافتہ ہوئے اور جنگل سے نکل کر سماج کا حصہ بنے ان کے رسن سہن میں ضرور تبدیلی آئی ہے ۔ویسے عام طور پر جنگلات سکڑنے سے آدی واسی خراب اور مشکل حالات سے گزر رہے ہیں ۔ کھانے پینے و علاج معالجہ کی مناسب سہولت بھی انہیں میسر نہیں ہے ۔کم عمر میں ہی وہ بوڑھے نظر آنے لگتے ہیں اور چالس پنتالیس کی عمر کو پہنچتے پہنچتے مر جاتے ہیں ۔

اسلام کے ماننے والوں یا مسلمانوں کی بات کی جائے تو وہ شیعہ و سنی دو خانوں میں بٹے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ذرا سا دھیان دینے پر معلوم ہوتا ہے کہ شیعہ و سنی کے درمیان بے شمار نظریاتی گروپ موجود ہیں ۔ ہر ایک کا دعویٰ ہے کہ وہ صراط مستقیم پر ہے باقی بھٹکے ہوئے ہیں ۔ مثلا اثناء عشری ، بوہرے (داؤدی و ابراہیمی ) آغا خانی ، فاطمی شیعہ مسلک سے متعلق مانے جاتے ہیں ۔سنیوں میں پہلے چار اماموں (ابو حنیفہ ، شافعی ، مالک ، احمد بن حمبل ) کے فقہ پر عمل کرنے والے ہیں انہیں مقلد کہا جاتا ہے ۔ جو ان کے فقہ کو نہیں مانتے وہ غیر مقلد ، سلفی ، اہل حدیث ، یا وہابی کہلاتے ہیں ۔ہر امام کے ماننے والے بھی کئی کئی مکاتب فکر میں بٹے ہوئے ہیں جیسے رضا خانی ( بریلوی) دیو بندی (قاسمی ، ندوی ، اصلاحی وغیرہ ) صوفیوں کا سلسلہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے شروع ہوتا ہے اور سنی مکتب فکر سے تعلق رکھتا ہے ۔کئی نظریاتی گروپ ایسے بھی ہیں جو اپنے کو مسلمان کہتے ہیں لیکن دنیا کے اکثر دینی عالم انہیں اسلا م سے خارج مانتے ہیں جیسے قادیانی ، خوارج اور بہائی وغیرہ ۔دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ان سب کی نمائندگی بھارت میں ہوتی ہے ایک دوسرے سے بالکل مختلف نظریہ و فکر رکھنے کے با وجود ملک میں یہ نہ صرف امن و سکون سے رہتے ہیں بلکہ اپنی پہچان کو باقی رکھتے ہوئے ترقی کررہے ہیں ۔ یہ بھارت کے علاوہ اور کہیں ممکن نہیں ۔دہلی میں مارچ کے دوسرے عشرے کے دوران چار پروگرام منعقد ہوئے جن میں سے دو کا افتتاح وزیر اعظم نریندر مودی نے کیا تھا ۔ایک جمنا کنارے جس کا اہتمام سری سری روی شنکر کی تنظیم آرٹ آف لیونگ نے کیا تھا ۔ اس میں ملک و بیرون ملک کے لاکھوں لوگوں کے علاوہ 155ممالک کے بیس ہزار سے زائد فنکار شریک ہوئے تھے ۔اس تہذیبی پروگرام کا افتتاح کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا تھا کہ جمنا کے کنارے دنیا کی سنسکرتیوں کا ایک ساتھ آنا تہذیبوں کا عالمی مہا کمبھ ہے ۔بھارت کا وسودیو کٹم بکم کا فلسفہ جو پوری دنیا کو ایک ہی خاندان کا حصہ مانتا ہے آج اس کا یہاں مشاہدہ ہو رہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ بھارت کی تہذیب دنیا کی تہذیبوں کی رہنمائی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ اس پروگرام کے ذریعہ وزیر اعظم نے دنیا کو امن شانتی اور محبت کا پیغا م دیا اور اس کو بھارت کی روح بتایا ۔ 
جمعیت علماء ہند نے قومی یکجہتی کے موضوع پر اندرا گاندھی انڈور اسٹیڈیم میں یک روزہ کانفرنس منعقد کی ۔ اس مولانا ارشد مدنی کی کال پر ہزاروں لوگوں کے ساتھ سیکولر سیاسی پارٹیوں کے نمائندے ، سماجی وملی کارکنان ، مذہبی رہنما اور سوامی وآچاریہ پرمود کرشنن جیسے سنتوں نے کانفرنس میں شرکت فرمائی اس موقع پر آچاریہ جی نے کہا کہ ملک میں نفرت کی جو دیواریں کھڑی کی جا رہی ہیں انہیں گرانا بہت ضروری ہے ۔ کرشچن کونسل کے سیکریٹری جرنل جان دیال نے اپنے خطاب میں کہا کہ مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے لوگوں نے جن خطرات اور خدشات کا اظہار کیا تھا اب وہ صحیح ثابت ہوتے جا رہے ہیں ۔اس لئے ملک کی سیکولر روایات ، مذہبی آزادی ، اظہار رائے کی آزادی اور قومی ہم آہنگی کے تحفظ کے لئے سیکولر سوچ کے لوگوں کا متحد ہونا ضروری ہے جبکہ مولا نا ارشد مدنی نے کانفرنس میں ملک کی گنگا جمنی تہذیب ،روایات قومی یکجہتی اور سیکولر آئین کے تحفظ کے لئے خون کے آخری قظرے تک جد وجہد جاری رکھنے کے عزم کو دہراتے ہوئے ملک کو فرقہ پرستی کی بنیاد پر تقسیم نہ ہونے دینے کا اعلان کیا ۔کانگریس پارٹی کے غلانم نبی آزاد ہندوستانی کمیونسٹ پارٹی کے محمد سلیم کے علاوہ کئی سیاسی لیڈروان نے کانفرنس سے خطاب کیا ۔یہ ایک طرح سے حزب اختلاف کی کانفرنس محسوس ہو رہی تھی ۔
اسی عشرے میں ایک اور پروگرام منعقد ہوا رام لیلا میدان میں جہاں جمعت اہل حدیث نے دہشت گردی ، فتنہ و فساد کی حوصلہ شکنی کے لئے عوامی محفل سجائی تھی ۔اس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مولا نا اصغر علی اما م مہدی سلفی نے کہا کہ آج پوری عالم انسانیت کو مختلف چیلنجوں و مسائل کا سامنا ہے انہوں نے دہشت گردی کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ داعش اور اس جیسی تنظیموں کا اسلا م سے کوئی تعلق نہیں ۔وہ اپنی ظلم و بربریت کی وجہ سے ہلاکو و چنگیز کی جماعت سے جا ملے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اس وقت علماء کرام کی ذمہ داری اور بڑھ گئی ہے کہ وہ نو جوان نسل کو اسلام کی امن و شانتی اخوت و نرم دلی شفقت و بھائی چارے کی تعلیمات کا درس دیں تاکہ داعش جیسی تنظیموں سے بھارت کے نو جوان متاثر نہ ہوں ۔ انہوں نے جماعت اہل حدیث ہند کے جنگ آزادی میں نا فراموش کارناموں کو یاد دلاتے ہوئے داعش جیسی دہشت گرد تنظیم کے خاتمے کی امید ظاہر کی ۔جماعت اہل حدیث اس سے قبل 2006میں بھی دہشت گردی کے خلاف فتویٰ جاری کرچکی ہے ۔یہ پہلی وہابی تنظیم ہے جس نے اسلام کے نام پر چل رہی دہشت گردی کی پر زور مذمت کی ہے جبکہ وہابی نظریات کی جڑ میں شدت پسندی موجود ہے اسی شدت پسندی کے سہارے 1932میں عرب کے درمیانی حصہ پر انگریزوں کی مدد سے وہابی نظریہ کے ماننے والوں کی حکومت قائم ہوئی تھی جسے سعودی عرب کے نام سے جانا جاتا ہے ۔
بھارت ماتا کی جے کا مدا بھی انہیں دس دنوں میں منظر عام پر آیا جس نے اسد الدین اویسی کی وجہ سے طول پکڑا ۔ صوفی کانفرنس میں بھارت ماتا کی جے کے نعروں نے صرف صوفی روایت کو ہی شرمسار نہیں کیا بلکہ بھارت کی ملی جلی تہذیب سے بھی انحراف کیا ہے ۔ واضح ہو کہ صوفی کانفرنس کا افتتاح وزیر اعظم نریندر مودی کے ہاتھوں وگیان بھون میں ہوا تھا اس موقع پر وزیر اعظم نے اسلام کے اصولوں کی تعریف کرتے ہوئے صوفی کانفرنس کو وقت کے لئے مرہم بتایا ۔ انہوں نے کہا کہ تشدد کے اندھیرے میں یہ روشنی کی کرن ہے ۔اسلامی تہذیب نے دنیا کو بہت کچھ دیا ہے 15ویں صدی تک مسلمانوں نے سائنس ، طب ، ادب ، فن ، آرٹ ،شلپ کاری اور تکنیکی ہنر کے علاوہ کاروبار کے میدان میں بھی غیر معمولی کامیاب کیا ہے ۔ انہوں نے قدیم اسلامی تاریخ کا حوالہ دیا اور کہا کہ کتنی ہی کتابیں عربی و فارسی سے سنسکرت اور سنسکرت سے عربی و فارسی میں ترجمہ ہوئیں جس سے دنیا علم و فنون سے مالا مال ہوئی ۔انہوں نے کہا کہ اللہ کے ۹۹ناموں میں سے کوئی نام بھی تشدد کا پیغام نہیں دیتا ۔یہ حقیقت ہے کہ دنیا کو آج تشدد و دہشت گردی اور خون خرابے سے صوفی نظریہ ہی نجات دلا سکتا ہے کیونکہ صوفیوں کے یہاں امن ، شانتی ، مافی ، فنا اور توازن کی تعلیمات پائی جاتی ہیں ۔صوفی کے آستانے پر آنے والے سے اس کا مذہب ، نظریہ ، ذات ، رنگ ، مال و دولت یہاں تک کہ نام کی بنیاد پر بھی کوئی بھید بھاؤ نہیں کیا جاتا ان کے نزدیک انسانیت سب سے بڑا مذہب ہے ان کے طریقہ عبادت و ریاضت کو دیکھ کر کئی لوگ انہیں ہندو میتھالوجی سے قریب مانتے ہیں ۔ کئی لوگ یہ سوال کررہے ہیں کہ وزیر اعظم مودی کا صوفیوں سے پیار کی وجہ کیا ہے ؟ جبکہ ان کے وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے کئی صوفیوں کی درگاہوں کو نقصان پہنچا تھا جن کی مرمت ابھی تک التوا میں ہیں ۔کئی لوگ صوفی کانفرنس کو مسلما نو ں کے درمیان نظریاتی خلیج بڑھانے و آپس میں الجھانے کی شروعات کے طور پر بھی دیکھ رہے ہیں ۔ صوفی کانفرنس میں 25نکات پر مشتمل جو ڈکلیریشن پیش کیا گیا ہے اس میں سے کئی قوم کی بھلائی سے تعلق رکھتے ہیں ۔ جیسے مسلمانوں کی ہر سطح پر حصہ داری اور ان کی درسگاہوں کے اقلیتی کردار کی بحالی ۔
خیر یہ ہولی کا موقع ہے ایسا مانا جاتا ہے کہ ہولی نئی فصل آنے کا پیغام اور مل کر خوشی منانے کا تہوہار ہے اس وقت نفرت ، بھید بھاؤ ، برائی ، پاپ ، اونچ نیچ اور اختلافات کو ہولی کی آگ میں جلایا جاتا ہے ۔ غلطیوں کو معاف کر رشتوں کی گانٹھوں کو سلجھایا جاتا ہے ۔ رنگ لگا کر پرانی باتوں کو بھلانے اور نئی زندگی شروع کرنے کا عہد کیا جاتا ہے مغل اس تیوہار کو گلابی عید کہاکرتے تھے یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ پچھلے دس دنوں میں جو عوامی پروگرام ہوئے ان میں نفرت کو بھلا کر محبت بانٹنے ، روادای بڑھانے اور عدم تحمل کو دور کرنے پر زور دیا گیا ہے تو کیا اس بار کی ہولی میں فرقہ واریت ، نفرت ، شدت پسندی ، بھید بھاؤ اور غصہ کو جلایا جا سکے گا ۔ بھارت کی روایت و تہذیب کو اپنے میں سمانے اور آسرا دینے کی رہی ہے یہی اس کی خوبصورتی بھی ہے اور روح بھی جو نفرت و بھید بھاؤ سے مجروح ہوتی ہے ۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا