English   /   Kannada   /   Nawayathi

ہندوراشٹر یا سیکولر بھارت؟

share with us

تمام تعلیمی اداروں میں آرایس ایس اور مودی سرکار کے مفاد کی محافظ بن کر اے بی وی پی کیوں سامنے آرہی ہے؟ ان سوالوں کا جواب ہر کوئی اپنے انداز میں سوچ رہاہے مگر ایک بات تو طے ہے کہ یہ سبھی تعلیمی ادارے ہیں اوران میں آرایس ایس کے ماتحت چلنے والی مودی سرکار کی مداخلت خواہ مخواہ نہیں ہے۔ اس کے پیچھے طویل مدتی پروگرام ہے۔ دراصل آرایس ایس ایک نظریاتی تنظیم ہے ۔ وہ پانچ سالہ پروگرام لے کر نہیں چلتی ہے بلکہ پانچ سو سالہ منصوبے پر کام کرتی ہے۔ اسے معلوم ہے کہ سال 2020 میں ہندوستان دنیا کا سب سے زیادہ نوجوان آبادی والا ملک ہوگا۔دنیا کی سب سے بڑی نوجوان آبادی ہمارے ملک میں ہوگی۔ اس ملک پر قبضہ کرنے کے لئے ملک کے دل ودماغ پر قبضہ لازمی ہے اور انسانی دماغ تک پہنچنے کا راستہ درسگاہوں سے ہوکر ہی جاتا ہے۔یہی سبب ہے کہ آرایس ایس نے تعلیمی اداروں پر قبضہ کے لئے اپنی کوششیں تیز کردی ہیں۔ اس وقت ملک کے جوتعلیمی ادارے اس کے نشانے پر ہیں وہ محض اتفاق نہیں ہے اور حیدر آباد سنٹرل یونیورسٹی سے لے کر جواہر لعل نہرویونیورسٹی تک جتنے واقعات رونما ہورہے ہیں وہ اچانک نہیں ہورہے ہیں بلکہ منصوبہ بند طریقے سے ہورہے ہیں۔ پوری سوچی سمجھی اسکیم ان واقعات کے پیچھے ہے۔آرایس ایس کو معلوم ہے کہ بھارت آئینی اعتبار سے ایک سیکولر ملک ہے اور فی الحال اس کے سیکولر کردار کو ختم کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ ملک کے عوام کی ذہنی ساخت بھی سیکولر ہے، ایسے میں جب تک تعلیمی اداروں پر قبضہ نہیں کیا جائے گا اور طلبہ کے ذہنوں کو بھگوا رنگ میں نہیں رنگا جائے گا تب تک اس ملک کو ہندوراشٹر نہیں بنایا جاسکتا ہے۔ آج جن اداروں پر آرایس ایس حملے کر رہاہے ان میں سرفہرست وہ ادارے ہیں جہاں کمیونسٹوں کا کنٹرول رہاہے یا پھر اقلیتی ادارے ہیں۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی اور ایف ٹی آئی آئی پر ہمیشہ سے کیمونسٹ نظریات کے لوگ حاوی رہے ہیں لہٰذا ایف ٹی آئی آئی میں آرایس ایس کے گجیندر چوہان کو بھیجا گیا۔ اسی طرح جے این یو پر حملہ کے پیچھے بھی یہی سبب تھا۔ یہاں سبرامنیم سوامی جیسے متنازعہ اور مشکوک
شخص کو وائس چانسلر بناکر بھیجنے کی بات تھی مگر اس کے لئے حالات سازگار نہ ہونے کے سبب انھیں بھیجنے کا فیصلہ ملتوی کرنا پڑا۔ 
نوجوانوں پر نظر کیوں ہے؟
دنیا بھر میں طلبہ کے ذریعے بڑے بڑے انقلاب آئے ہیں اور تعلیمی اداروں نے انقلابات کو جنم دیا ہے۔ عالمی تاریخ کو چھوڑ اگر ہم بھارت کے ہی حالات پر نظر ڈالیں تو احساس ہوتا ہے کہ ہماری تاریخ میں طلبہ اور نوجوانوں نے کس قدر اہم کردار نبھائے ہیں۔ ملک کی آزادی کی تحریک میں اگرچہ مہاتماگاندھی جیسے بزرگ پیش پیش تھے مگر ان کی اس تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرنے والے مجاہدین آزادی میں اکثریت نوجوانوں کی ہی تھی۔ وہ لوگ جنھوں نے ملک کو آزاد کرانے کی خاطر پھانسی کے پھندے چومے تھے وہ بھی نوجوان ہی تھے۔ بھگت سنگھ اور منگل پانڈے کوئی بزرگ نہیں تھے۔ اسی طرح نیتاجی سبھاش چند بوس کی فوج میں شامل جنگ جو بھی جوان تھے۔ ۱۹۷۷ء میں لوک نائک جے پرکاش نارائن کی تحریک بھی طلبہ اور نوجوانوں کے سبب ہی کامیاب ہوئی تھی اور آزادی کے بعد پہلی غیر کانگریسی سرکار مرکز میں بنی تھی۔ملائم سنگھ یادو، لالو پرساد یادو، نتیش کمار اور اس وقت کے بیشتر بزرگ لیڈران تب نوجوان یا طالب علم تھے۔ ہمارے ملک کی آبادی کی اکثریت آج بھی نوجوان ہے اور آنے والے انتخابات میں ووٹروں کی بڑی تعداد نوجوان ہی ہوگی۔ اس لئے سیاست بھی نوجوانوں کے بیچ ہی ہونی چاہئے اور ان کے دل ودماغ پر قبضہ کی کوشش ہونی چاہئے۔ آر ایس ایس نے اسی منصوبے کے تحت تعلیمی اداروں پر قبضے کا پلان بنایا ہے مگر اس کے منصوبے کو اپوزیشن پارٹیوں نے بھی سمجھ لیا ہے اور اسی کے ہتھکنڈے کو اس کے خلاف استعمال کرنے میں لگی ہیں۔چونکہ ان کے ووٹ کے بغیر مستقبل میں کوئی سرکار نہیں بن سکتی ا سلئے 2016 کی بھارتی سیاست نوجوانوں میں سرمایہ کاری کرنا چاہتی ہے ۔ اس معاملے میں سب سے آگے آرایس ایس ہے جو آگے کے لئے منصوبہ بنارہاہے اور اپوزیشن پارٹیاں اس کے پیچھے پیچھے چل رہی ہیں۔ بھارت میں ووٹنگ کے قابل کل 81.4 کروڑ آبادی میں سے 37.8 کروڑ آبادی 18 سے 35 سال کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جے این یو کے واقعہ کے فورا بعد وہاں تمام بائیں بازو کے رہنماؤں کے علاوہ کانگریس نائب صدر راہل گاندھی بھی پہنچے۔ پارلیمنٹ میں بھی بحث کی کمان نوجوان رہنماؤں کے ہاتھوں میں رہی۔سی پی ایم کی طلبہ تنظیم اسٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا کے قومی صدر وی پی سانو بتاتے ہیں کہ ملک کا 65 فیصد 40 سالہ نوجوان توانائی سے بھرا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کو اس کی ضرورت ہے۔ 
تعلیمی اداروں پر آرایس ایس کا حملہ
گزشتہ سال وزیر اعظم نریندر مودی کی مبینہ تنقید کرنے پر آئی آئی ٹی، مدراس کی ایک طلبہ تنظیم ’’امبیڈکر پیریار اسٹڈی سرکل کی منظوری منسوخ کردی گئی تھی، فلم اینڈ ٹیلی ویڑن انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا (ایف ٹی آئی آئی) میں گجیندر چوہان کی تقرری کا تنازعہ، حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی میں تین دلت طالب علموں کے خلاف اقدام اور روہت ویمولا کی خود کشی، پھر آر ایس ایس کے دفتر کے سامنے لڑکیوں کی پٹائی جس میں پولس اور آرایس ایس کے لوگوں نے دہلی کی سڑکوں پرلڑکو ں اور لڑکیوں کو دوڑا دوڑا کر پیٹا۔ یہ تمام
واقعات منصوبہ بند تھے اور آرایس ایس کی اسکرپٹ کے مطابق رونما ہورہے تھے مگر کئی بار چالاکی بھی الٹی پڑجاتی ہے اور یہی ہوا بھی۔جے این یو کے واقعہ نے ایک کام کیا کہ اس نے بھارتیہ جنتا پارٹی کی طالب علم یونٹ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) کے علاوہ تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی طلبہ تنظیموں کو حکومت کے خلاف متحد کردیااور ان تنظیموں کے بہانے کچھ سیاسی پارٹیاں بھی متحد ہو گئیں۔
یہ تیور کچھ کہہ رہے ہیں
ماضی میں طلبہ تنظیمیں بے حدمضبوط رہی ہیں۔بعد کے زمانے میں مذہب اور ریزرویشن کے نام پر نوجوان کو بانٹ دیا گیا۔ جیسے جیسے سیاسی پارٹیوں میں ذات اور مذہب کے نام پر بٹوارہ ہوا طلبہ تنظیمیں بھی کمزور ہوتی گئیں۔لیکن اب ایک بار پھر نوجوان متحد ہورہے ہیں۔ آرایس ایس کی کوشش رہی ہے کہ وہ اے بی وی پی کو طاقتوربنائے اور اس کے ذریعے تعلیمی اداروں پر اپنا تسلط قائم کرے مگر اس کا پانسہ الٹا پڑ رہا ہے۔ ان دنوں حکومت کے بعض اقدام نے طلبہ کو ناراض کردیا ہے اور یہ غصہ سرکار کے خلاف پھوٹ سکتا ہے۔ نوجوانوں کے تیور بتا رہے ہیں کہ اگر حکومت نے ان کے مسائل کوحل نہیں کیا تو اقتدار اور نوجوانوں کے درمیان جنگ رکنے والی نہیں۔ کانگریس کی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس یونین آف انڈیا (این ایس یو آئی) کے قومی صدر روزی ایم جان کہتے ہیں کہ مسائل آئیں گے تو نوجوان سیاست میں حصہ لیں گے۔اس وقت نوجوان حکومت کی گلے کی ہڈی بن گئے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا تھا کہ وہ بنارس ہندو یونیورسٹی کو آکسفورڈ بنا دیں گے لیکن گزشتہ بجٹ میں تعلیم کا 24 فیصد بجٹ کم کر دیا گیا۔ا سکالرشپس بند ہو رہی ہیں، روزگار نہیں ہے، اسکل ڈیولپمنٹ کا کوئی سانچہ نہیں، ایسے میں سوال پوچھنے کی آزادی ختم کی جا رہی ہے۔ ہم سڑکوں پر نہیں اتریں گے تو کیا کریں گے؟ 
تعلیمی اداروں میں جنگ کیوں؟
حکومت کے ایک خیمے کا کہنا ہے کہ یونیورسٹیوں کو سیاست کا اڈہ نہیں ہونا چاہئے۔اس لئے ملک کی آدھی سے زیادہ یونیورسٹیوں میں آج بھی طلبہ یونین انتخابات نہیں کروائے جاتے ہیں۔دہلی، کیرل، آسام، اڑیسہ، چھتیس گڑھ، پنجاب، اتر پردیش، تریپورہ میں تو انتخابات ہو رہے ہیں جبکہ ہماچل پردیش، بہار، ہریانہ، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، کرناٹک، آندھرا پردیش، تمل ناڈو میں مدت سے نہیں ہوئے۔طلبہ یونین کے انتخابات کروانے کی ذمہ داری ریاستی حکومتوں کی ہے ۔طلبہ یونینوں کی طرف سے انتخابات کی مسلسل مانگ بھی اٹھ رہی ہے۔عام طور پرطلبہ یونینوں نے ہمیشہ مہنگائی، فیس اضافہ کے خلاف آواز اٹھائی ہے مگر اسی کے ساتھ کرپشن، بابری مسجد، سکھ فسادات پر بھی انھوں نے کھل کر اپنا موقف رکھا ہے۔ ایمرجنسی کے بعد جے این یو طالب علموں نے سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی تک کو یونیورسٹی میں آنے سے روکا تھا۔ اس لئے حکومت اور اپوزیشن دونوں کی لڑائی یونیورسٹیوں کے کیمپس میں پہنچ چکی ہے ۔اس جنگ میں اگر جیت آرایس ایس کی ہوئی اور طلبہ کے ذہن ودماغ پر اس کا قبضہ ہوا تب ہی
ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کی طرف وہ قدم بڑھا پائے مگر یہ آسان کام نہیں ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا