English   /   Kannada   /   Nawayathi

ثناخوانی گلشن کو الفاظ کا پابند نہ کر

share with us

تعجب کی بات ہے کہ لوگ اویسی کو کوس رہے ہیں۔ کیا ہندوستان میں ہم اتنے مجبور ہو گئے ہیں کہ کسی ناروا سوال کا صحیح جواب بھی نہیں دے سکتے ہیں؟ اویسی نے موہن بھاگوت کا جواب ہی تو دیا تھا، لوگ کیوں نہیں سمجھ رہے ہیں کہ آر ایس ایس تھپکی دے کر آہستہ آہستہ اپنی تہذیب کو مسلط کر رہا ہے اور حق اختیار کو بھی چھین لینا چاہتا ہے، اویسی کی لڑائی حق اختیار کو چھیننے والے کے خلاف ہے، نام نہاد سیکولر پارٹیاں کہاں ہیں جو مسلمانوں کا دم بھرتی ہیں اور میڈیا کے سامنے بھگوا جماعتوں کو گالیاں دیتی ہیں سچ کہا کسی نے الکفر ملی واحد۔
یاد رکھیں ہمارے یہاں جو ماں اور مادر کا تصور ہیوہ صرف اور صرف ایک خونی اور نسبی رشتہ کا ہے اس کے علاوہ اشیاء4 پر مجازاً کسی بھی شئے کی اصل اور بنیاد یا جڑ ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے لیکن ہندؤوں کے یہاں ماتا کا اطلاق جب اپنی نسبی ماں پر ہوتا ہے تو اسوقت نسبی ماں مراد ہوتی ہے لیکن جب اس کے علاوہ پر اس لفظ کا اطلاق ہوتا ہے تو کہیں نہ کہیں وہ ذات مراد ہوتی ہے جو لائق پرستش بھی ہو جیسے درگا ماتا، کالی ماتا، گنگا ماتا اور بھارت ماتا وغیرہ، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ساری کی ساری چیزیں ان کے یہاں لائق پرستش ہیں ،ہمارے ہاں نہیں۔ہمارے لیے بھارت ماتا کی جے بالارادہ کہنا کہاں تک جائز ہوگا، یہ تو علمائے کرام ہی بتائیں گے، تاہم غیرمناسب تو معلوم ہوتا ہی ہے۔ سب سے عمدہ بات تو یہ کہ یہ میرے اختیار کا مسئلہ ہے، حق اختیار سے ہم دستبردار کیوں ہو جائیں؟اس تناظر میں اویسی کی لڑائی بالکل صحیح ہے۔ اویسی اور وارث پٹھان کی جرا ت کو ہم سلام کرتے ہیں کہ اس دور پرفتن میں جب کہ الحاد و ارتداد اور خدا بیزاری کی آندھی اور طوفان اپنے ہر قسم کے ہتھیاروں سے لیس ہو کر خرمنِ اسلامی کو خاکستر کرتا جا رہا ہے اور مسلم سرکاری ملازمین، مسلم افسران اور سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے طلبہ اس قسم کے جبریہ ترانے اور نعرے کو وہاں کے جبری ماحول میں پڑھنے پر مجبور ہیں اور بہت سارے کمزور دل مسلمان حالات سے سمجھوتہ کرنے ہی میں بھلائی محسوس کرتے ہوئے بصد شوق اس سے بڑھ کر شرکیہ ترانے پڑھتے ہیں۔ اویسی نے قدامت پسند، شدت پسندی اور بنیاد پرستی کے طعنے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے امید کی ایک لو جلائی ہے، ان کے اس بے باک رد عمل سے بہت سے مصلحت کوش لوگوں کی ہمت بھی بلند ہو گئی ہے، جو مصلحت کی چادر اوڑھ کر ہر چیز پر خاموش ہو جایا کرتے تھے۔
اس موقع سے روشن خیال روشن دماغ جاوید اختر صاحب پر بھی تعجب ہوا، تعجب ان کے بھارت ماتا کی جے کا نعرہ لگانے پر نہیں ہوا، کیونکہ ان سے اس سے بھی زیادہ اسلام مخالفت کی امید ہے، ایک سیکولر اسٹیٹ میں ان کو بھی آزادی ہے کہ وہ ملحدانہ زندگی گزاریں یا مذہبی قید و بند کے ساتھ حیاتِ ابدی کے طلب گار بنیں۔ یہ ان کا اختیاری معاملہ ہے ، اور کم از کم ہم جیسے لوگ ان کے اس اختیار کے ساتھ چھیڑ چھاڑ تو نہیں کریں گے، لیکن 
یہی اختیار جب اویسی صاحب ان سے مانگ رہے ہیں تو وہ ان کو دینے کے لیے تیار نہیں ہیں، اور مطالبہ پر ان کی پیشانی پر بل بھی آگیا اس پر مجھے ضرور تعجب ہوا، اس سے بھی زیادہ تعجب اویسی کے جواب میں ان کی دلیل پر ہوا، اویسی کے اس سوال پر کہ ا?ئین میں کہاں لکھا ہے کہ بھارت ماتا کی جے کہنا ضروری ہے انہوں نے کہا کہ آئین میں کہاں لکھا ہے کہ شیروانی، ٹوپی، کرتا پاجامہ پہن کر آنا چاہیے، اس بیوقوفانہ سوال پر کافی تعجب ہوا، اگر وہ آنکھوں پر آ?ر ایس ایس کا چشمہ لگا کر ا?ئین کا مطالعہ نہ کرتے تو آئین کے بنیادی حقوق والے دفعات ان کی نظروں کے سامنے سے ضرور گزرتے، جو بھارت کے ہر شہری کو اپنے مذہب، سماجی اور علاقائی رسم و رواج، خاندانی طور طریقوں کے مطابق لباس پہن کر نکلنے، رہنے اور زندگی گزارنے کی اجازت دیتا ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا