English   /   Kannada   /   Nawayathi

خانگی تشدد پر قابو پانے کیلئے قانون کے ساتھ سماجی بیداری ضروری ہے

share with us

جہیز کیلئے بہوؤں کو زندہ جلا دینا یا بیویوں سے نجات حاصل کرنے کے لئے انہیں خود کشی پر مجبور کردینے کی لعنت بھی مسلمانوں میں کم دوسری ذاتوں اور برادریوں میں کافی پائی جاتی ہے کیونکہ ان کے مذہب اور روایات کی وجہ سے طلاق کے حصول میں کافی دشواری پیش آتی ہیں جبکہ مسلمانوں کے عائلی قوانین کی رو سے اس میں کافی سہولت ہے۔نہ انہیں ناپسندیدہ بہوؤں کو زندہ جلانا، نہ بیویوں سے چھٹکارا پانے کے لئے انہیں خود کشی پر مجبور کرنا پڑتا ہے، اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ اقتصادی ترقی اور تعلیم کے فروغ کے باوجود خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔متحدہ ترقی پسند محاذ (یوپی اے) حکومت نے خانگی تشدد کے اس ابھار پرقابو پانے کے لئے ۲۰۰۶ء میں پارلیمنٹ سے منظور کراکرقانون نافذ کردیا تھا۔ لیکن اس کے بعد بھی خواتین پر تشدد کا سلسلہ جاری ہے۔ 
ایک سروے کے مطابق ملک کی چالیس فیصد خواتین اپنے شوہروں یا خاندان کے مردوں کے غیر ضروری ظلم وغصہ کی شکار بن رہی ہیں، سب سے زیادہ افسوس وتعجب کا پہلو یہ ہے کہ ۵۴ فیصد خواتین شوہروں کے اس رویہ کو ان کا حق قرار دیکر جائز ٹھہراتی ہیں۔ یہ وہ صورت حال ہے جس میں کوئی بھی قانون تشدد پر قابو پانے میں کارگر ثابت نہیں ہوسکتا۔
ہندوستانی سماج میں صدیوں سے جاری روایات کے مطابق خاندانی معاملے داخلی طور پرہی سلجھا لئے جاتے ہیں اور کسی نہ کسی طرح کے خاندانی، سماجی اور ذات وبرادری کے سمجھوتے کے تحت یہ گاڑی آگے بڑھتی رہتی ہے، لیکن یہ تصور کا ایک پہلو ہے جبکہ دوسرا پہلو بتاتا ہے کہ اس طرح کے تمام خانگی سمجھوتے کسی نہ کسی دباؤ کے تحت ہوتے ہیں۔ خاص طور پر خاندان کی عزت کے نام پر خواتین کو جھکنے کے لئے مجبور کیا جاتا ہے۔ پورے ملک میں ہونے والے نصف سے زیادہ عصمت دری کے واقعات میں عزیز و رشتہ دار یا متعارف شخص ملزم ہوتا ہے لیکن عام طور پر خاندان کی عزت وناموس کی دہائی دیکر عورت کا منہ بند کردیا جاتا ہے، جہیز کے مطالبات سے لیکر روزمرہ کے معمولی معمولی واقعات تک کے لئے زیادتی کا شکار ہونے والی عورت اسی لئے کچھ نہیں کرسکتی کہ اسے ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کا حق نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ خانگی تشدد کے صحیح اعداد وشمار بھی فراہم نہیں ہوتے۔ خواتین کمیشن نے عورتوں کے خلاف ہونے والے ۲۲ قسم کے تشدد کی فہرست تیار کی ہے لیکن اس میں بھی کمیشن کے پاس ان ہی لوگوں کے اعداد وشمار ہیں جو اس سے شکایت کرنے کے لئے پہونچتے ہیں، ظاہر ہے کہ ایسے لوگو ں کی تعداد کافی کم ہے، عورتوں کے خلاف تشدد روکنے کا سیل تو تھانوں میں قائم کردیا جاتا ہے لیکن جن دیہی علاقوں میں اور جن ناخواندہ عورتوں کے ساتھ سب سے زیادہ تشدد ہوتا ہے وہاں ان کی پہونچ نہیں ہے۔بہتر یہ ہوگا کہ عورتوں کے خلاف خانگی تشدد پر قابو پانے کیلئے قانون بنانے کے ساتھ ساتھ لوگوں میں سماجی بیداری بھی لائی جائے تبھی اس میں خاطر خواہ کمی آسکتی ہے۔ اس کے ساتھ خاتون تحفظ کے مذکورہ قانون کے بارے میں مردوں کے خلاف بیجا استعمال کی جو شکایات مل رہی ہیں، ان پر توجہ دینا بھی ضروری ہے کیونکہ ایک ترقی یافتہ سماج کی پہچان یہ ہے کہ اس میں خواتین کو جہاں ان کے خاطر خواہ حقوق میسر ہوں،وہیں مردوں کے ساتھ بھی ناانصافی نہ ہو، ویسے ہندوستان اس بارے میں بہت بدنام ہے کہ یہاں سب سے زیادہ خواتین کو ظلم وزیادتی کا شکار بنایا جاتا ہے، اس داغ کو مٹانے کی فکر ہونا چاہئے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا