English   /   Kannada   /   Nawayathi

آگ، شعلہ اور بھارتی سیاست

share with us

اگر سبرامنیم سوامی، آدتیہ ناتھ، ساکشی مہاراج، پراچی، گری راج، کملیش تیواری کو ہفوات کیلئے آزادی ہے کہ وہ جب چاہیں بے دریغ لصوت الحمیر کا مظاہرہ کریں ان پر کسی طرح کی قانونی گرفت نہیں ۔ ایک بے جی پی کا نوجوان لیڈر الہ آباد میں اویسی کی زبان کاٹ کر لانے پر ایک کروڑ کا اعلان کر رہا ہے اسے کس افتادِ طبع سے تعبیر کریں گے،کیا یہ انتقامی سیاست نہیں ہے؟ اسی کو انتقامی سیاست کہا گیا ہے ۔ اگر یہی اعلان کوئی مسلمان کردے تو اس وقت سیاسی کیف و کم کی تمازت قابل دید ہوگی ۔ جس طرح بزعم خویش سبرامنیم سوامی جیسے فاترالعقل افراد برسراقتدار طبقہ کیلئے جزولاینفک ہیں اسی طرح بعینہ بھارتی سیاست اور آئین کیلئے اویسی بھی جزولاینفک ہیں؛ کیونکہ مکمل اکثریت کیساتھ ایک مخصوص علاقہ کے افراد نے اپنا نمائندہ منتخب کرکے ایوان میں بھیجا ہے ۔ لیکن "بھارت ماتا کی جے " کہنے سے انکار کرکے گویا جس طرح خود کو فرقہ پرستوں کے نرغہ میں ڈال دیا ہے قابل غور ہے اور پھر طرہ یہ کہ میڈیا ٹرائل، قطع لسان پر انعام اور غدارء وطن جیسے الزامات و مبینہ مہلکات بھی قابل غور ہیں کہ اگر یوں ہی سلسلہ چلتا رہا تو پھر اس بھارتی جمہوریت اور سیاست کا کیا ہوگا؟ کیا ہمارے سیاستداں اور ملک کے رہمنا چاہتے ہیں کہ ایک بار پھر یہ آزاد بھارت غلامی کا طوق گلے میں ڈال لے؟ 
"بھارت ماتا کی جے" یا اس جیسے دوسرے مترادف الفاظ کہ جن سے شرک لازم آتا ہو یا ان جیسے دوسرے الفاظ کہ جن سے اسلام و ایمان خطرے میں پڑتا ہو ایک مسلمان کا کہنا کسی بھی رو سے درست نہیں ? اہل فتاوی اور فقہاء کا یہی فتویٰ ہے اور اسی کو راجح بھی قرار دیا ہے، اس ذیل میں عالمگیری، شامی درمختار جیسی فتاوی کے دوسرے مستدلات دیکھی جا سکتی ہیں ۔ اب جبکہ ان الفاظ کے تلفظ پر اکثریتی طبقہ مصر ہے کہ جب تک مسلمان بھارت ماتا کی جے نہ کہہ لیں محب وطن نہیں، جب کہ یہ آئینی رو سے زیادتی اور شر انگیزی ہے۔بھارتی آئین میں دوسرے مذاھب کے احترام اور مذھبی ارکان کی ادائیگی کیلئے مکمل طور پر رعایت برتی گئی ہے، گویا بات وہی ٹھہری کہ وندے ماترم کیا ہے اور اس کا کہنا کیسا ہے؟ علماء اور ارباب فقہ و فتاویٰ نے حلت و حرمت کے تئیں اسلامی موقف کی توضیح کر دی ہے، یہی بعینہ بھارت ماتا کی جے کا قضیہ بھی ہے ۔لفظ ’’جے‘‘ بلندی، سرفرازی اور عبادت کیلئے مختص ہے فرعون نے موسیٰؑ کے مقابلے میں جادوگروں کو اتارا تھا تو جادوگروں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈالتے ہوئے فرعون کی ’’جے‘‘ کا نعرہ لگایا تھا ، اب اس جگہ تمام جذبات سے بالاتر ہوکر غور کی ضرورت ہے کہ آخرش جادوگروں نے کیوں بعز فرعون کا نعرہ لگایا تھا؟ معلوم ہونا چاہیے کہ بنی اسرائیل بشمول تمام مصری رعایا فرعون کی بالجبر عبادت کرتی تھی جس کی تفصیل قرآن مقدس اور دوسرے آسمانی صحائف میں موجود ہے ؛ لہذا تمام استخراجاتِ فقہیہ کے تناظر میں ’’جے کار ‘‘ لگانا یا وندے ماترم کہنا شرک جلی ہے لہذا شرک جلی ہو یا خفی مسلمان کیلئے احتراز ضروری ہے ۔ستم تو یہ ہے کہ بعض نام نہاد لبرل طبقہ فرقہ پرست اور انتہا پسند ہندوؤں کیساتھ اس ’’جے‘‘ کی رستخیز میں کود پڑے اور صراحت کیساتھ اس کے تلفظ پر زور دیا جبکہ اس امر کی تائید بد دینی اور ذہنی خرافات کا کرشمہ ہے ۔ جاوید اختر جیسے لبرل افراد اس مسئلہ کا درست ادراک نہیں رکھتے اگر رکھتے تو محض چند شر پسندوں کی حمایت کیلئے مخالفت پر آمادہ نہیں ہوتے ۔ اب آیا حب الوطنی’’بھارت ماتا کی جے ‘‘ میں ہی کیوں پوشیدہ ہے؟ ان جیسے دوسرے کلمات کہنے کو کافی کیوں نہیں سمجھا جارہا ہے۔۔۔’’بھارت کی جے ‘‘ اور "ہندوستان زندہ آباد "کیوں نہیں روا ہوسکتے ؟ اس سراسیمگی کی تخلیق اور فضا سازی بایں معنی ہو رہی ہے کہ چند دنوں کے بعد پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں اور بھاجپا کبھی بھی ترقی کے نام پر کامیاب نہ ہوسکی ہے؛ بلکہ مذہبی جذبات سے کھیل کر ووٹ حاصل کیا ہے بایں وجہ فطرت کا اظہار ہونا ہے اور بھاجپا یہی کر رہی ہے ۔ بنگال میں سروے کے مطابق کہیں بھی بھاجپا نہیں ہے ممتا بنرجی کے مقابلے میں کوئی بھی بھاجپائی کھڑا نہیں ہے خواہ مودی ہی کیوں نہ ہو ۔ جس غبارے میں ہوا بھر کر جموں و کشمیر، ہریانہ وغیرہ ریاستوں کے انتخاب جیت لئے اب اس غبارے کی ہوا نکل چکی ہے اور عوام نے بھی اچھے دنوں کا خوب تر مظاہرہ کرلیا ہے ۔ آرایس ایس ہمیشہ ملک کو حب الوطنی کا درس دیتا رہا ہے، لیکن یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ جس نے جنگ آزادی میں حصہ نہ لیا ہو، جس کے کارندے ناتھو رام گوڈ سے نے مہاتما گاندھی کا قتل کیا ہوا اور اسی قاتل کو اپنا معبود بھی سمجھتا ہو وہ بھلا کس منہ سے اور کس حیا سے حب الوطنی کا درس دے رہا ہے؟ یقیناً ملک پہلے انگریزوں کے قبضہ میں تھا اب بھگوا دہشت گردوں کے قبضہ میں ہے جس سے آزاد کرانا ہندوستانیوں پر لازم ہے آرایس ایس ایک موقعہ پرست اور روباہ صفت جماعت ہے اور اس نے ہمیشہ اسی کا اظہار اور اعادہ بھی کیا ہے ۔ 
دادری، سہارنپور جیسے مقامات میں بالترتیب اخلاق اور نعمان کی شہادت کا غم ابھی ہلکا بھی نہ ہوسکا تھا کہ رانچی سے یہ خبر آ رہی ہے کہ محض شک کی بنیاد پر بھینس بازار لے جارہے دو مسلم نوجوان کو تمام انسانی تقاضوں سے بالا ہوکر بہیمانہ طریقہ سے قتل کرکے درختوں سے پھانسی پر لٹکا دیا سوشل میڈیا اور اردو میڈیا میں اس واقعہ کی بازگشت دیکھنے اور سننے کو مل رہی ہے، البتہ الیکٹرانک میڈیا اس سے پاک ہے؛ کیونکہ یہ واقعہ شرپسندوں کو "دیش بھکتوں" کے ذریعہ ٹھکانے لگانے پر مبنی ہے؛ لہذا اس کے کوریج کو غیر ضروری خیال کیا گیا، بھینس گائے اور اس جیسے جانور اپنے دودھ چارے سے عوام میں خوشی اور امن لاسکتے ہیں اگر اس کا غیر ضروری استعمال کیا جائے تو نتیجہ تباہ کن ہی ہوگا جیسا کہ دادری، سہارنپور اور اب لاتیہار میں وقوع ہواہے ۔ تاہم اس کلیہ سے سوا ہوکر بھگوا تنظیمیں ایسے امور کو اپنا لازمہ سمجھتی ہیں کہ جو سرے سے ملک مخالف ہیں،جب اس ملک سے دعوی الفت ہے تو بھلا فہم اس سے عاری کیوں ہے کہ وہ عمدا شدت پسندی پر آمادہ ہوجاتے ہیں؟ بیف اصل مسئلہ نہیں ہے؛ بلکہ اس رست خیز کے پس پردہ اس عظیم اقتصادیات کو کساد بازاری جیسی تباہ کاری سے ہمکنار کرنے کی مہیب سازش کارفرما ہے کہ جس سے اس ملک کا اقلیتی طبقہ جڑا ہے؛ کیونکہ سنگھ کے نظریات اور عزائم میں یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کے معاش کو تباہ و برباد کر دیئے جائیں تاکہ وہ( مسلمان) معاشی طور سے بے دست و پا ہوکر مفلوج ہوجائیں اور یہ سازش سرکاری محکموں میں بھی جاری ہے جس کا انکشاف ایک انگریزی روزنامہ نے کیا جس سے مزید بوکھلاہٹ کے شکار ھوگئے ہیں ۔ 
ورلڈ صوفی کانفرنس میں وزیراعظم امن و سلامتی کا قصیدہ پڑھ رہے ہیں اور ادھر رانچی سے سو کیلو میٹر دور لاتیہار میں بھینس بازار لے جانے کے پاداش میں دو نوجوان کو پھانسی پر چڑھایا جارہا ہے، ایک طرف تو یہ کہا جا رہا ہے کہ مسلمان امن اختیار کریں تو دوسری طرف ان کے حلیف و ہمنوا قتل و غارت گری پر اتر آئے ہیں ۔ صوفی کانفرنس میں وہی باتیں ہوئیں جن کا خدشہ پہلے سے تھا اور پھر طاہر القادری نے اپنے مقالہ سے مزید تقویت پہنچا دی ۔تصوف کی حقیقت جس کے اظہار و بیان کیلئے یہ کانفرنس منعقد کی گئی اس تصوف سے اسلام کا کوئی بھی رشتہ نہیں ہے ۔ رقص قونیہ، وجدان، سرور، کیف، گریہ، بیزاری اور بے رغبتی اسلامی تعیلمات نہیں ۔تصوف بس خشیت الہی، اتباع رسول اور عشق رسول ہے اس کے ماسوا ساری تکلفات نفس کی پیروی ہے ۔شاہد و شراب ان کی ہی ایجاد کردہ ہیں، ناؤ نوش اور رقص و موسیقی لہوالحدیث کی تقلید ان ہی جماعتوں کی طرف سے کی جاتی رہی ہے ۔صوفیا اور مشائخ نے ان چیزوں کو اسلام مخالف قرار دیا ہے، تعلیم تصوف میں کہیں بھی اور مشیخیت کے کسی بھی طریق کی تعلیم میِں اس کا ذکر نہیں ہے ۔وزیراعظم نے بڑے طمطراق سے عامۃ المسلمین کو دہشت گردی اور انتہا پسندی سے دور رہنے کی ترغیب دی، لیکن ان کو کون منافرت سے روکے گا جو آئے اپنی برق سامانی سے کاشان نحیف کو خاکستر کرتے رہتے ہیں! ساکشی، سبرامنیم، پراچی، آدتیہ ناتھ اور گری راج جیسے روباہ صفت پر قدغن ضروری ہے تاکہ پند و موعظت کا فوری اثر ظاہر ہو ۔ ذرا سوچیے! ملک ٹوٹتا جارہا ہے، سیاست خوب چمک رہی ہے اور ترقیاتی عنوانات ہنگامۂ رستخیز میں دب کر رہ گئے ۔ ضرورت ہے کہ بے حسی اور مفاد پرستی چھوڑ کر ملک کی ترقی کیلئے غور کرنا چاہیے؛ کیونکہ ملک ترقیوں میں پیچھے ہوگیا اور موجودہ مرکزی اقتدار اس سے بہت دور کھڑا ہو کارِ عبث میں محو ہے۔ 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا