English   /   Kannada   /   Nawayathi

اب مغربی طاقتوں کے راڈار پر لایا جارہاہے ترکی

share with us

ممکن ہے اسے ذرائع ابلاغ نظرانداز کردیں ،اس لئے کہ ماضی بعید میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ہونے والے دھماکوں میں بھی اسرائیلیوں کی ہلاکت اور اس کی سازشوں پر انگشت نمائی سے گریز کیا تھا ۔اسی طرح 2008کے ممبئی دھماکوں میں اسرائیلی شہریوں کی کاکردگی یاشمولیت پر میڈیا مہاجنوں نے چپی سادھ لی تھی۔آخر کیاو جہ ہے کہ اسرائیلی مظالم اور سازشی نظریات کو کھلی آ نکھوں دیکھ کر بھی اس موضوع پر خاموشی اختیار کرلی جاتی ہے۔حالاں کہ ہم اس کی تہ میں جائیں تو پتہ چلے گا کہ مسلم ممالک میں پائی جانے والی دہشت گردانہ کارروائیوں کو پس دیوار سے اسرائیل کے ذریعہ آکسیجن ضرور پہنچائی جا رہی ہے۔
اس وقت عالم اسلام میں خصوصی طور پرترکی کو ہدف بنا یا جارہاہے ۔قابل ذکر ہے کہ گذشتہ 13مارچ کوبھی ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں ہونے والے دھماکے میں 37 افراد ہلاک ہوئے تھے اور کرد عسکریت پسند تنظیم ٹی اے کے نے اس حملے کے ذمہ داری قبول کی تھی۔یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ اس وقت جبکہ شام کیخلاف مزاحمت میں ترکی اسلامی ممالک کے تحفظ کیلئے امریکہ اور سعودی عرب کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔اس کے باوجود کردوں کو اکساکر اپنے ہی ملک میں افراتفری مچانے کیلئے تیار کرنا مغربی استعمار اورروس کی کمینہ ذہنیت کا نتیجہ ہی ہوسکتا ہے۔چو نکہ روس ابتدا سے ہی ترکی کو اپنا روایتی دشمن سمجھتا رہا ہے اور سفارتی و معاشی سطح پر ترکی کو کمزور کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگاتا رہا ہے ،ایسے میں شک کی سوئی پیوتن کی روباہ فطرت کی جانب ہی گھوم رہی ہے ،اس کے باوجود اگر امریکہ بشمول یوروپ اور اقوام متحدہ صرف مذمتیں پیش کرکے خاموش ہوجاتے ہیں تو یہی کہا جا ئے گا کہ عراق، افغانستان،پاکستان اور لیبیا کومفلوج کرنے کے بعد روس ،امریکہ اور برطانیہ کا انسانیت دشمن مثلث اب ترکی کو بے دست و پا کرنے کی سازش پر کاربند ہونا چاہتا ہے۔ 
انقرہ دھماکوں کے بعد ملک کے صدر رجب طیب اردگان نے کہا تھا کہ حکومت دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے گی اور انہیں ’گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دے گی۔‘ ترک صدر کا کہنا تھا کہ اس قسم کے حملوں سے ملک کی افواج کا عزم مزید مضبوط ہی ہوتا ہے۔کرد باغیوں نے حالیہ مہینوں میں ترک علاقے میں کئی حملے کیے ہیں، جبکہ شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ بھی انقرہ کو نشانہ بنا چکی ہے۔گزشتہ برس 2015کے اواخر میں ترکی نے فضائی حدود کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے ایک روسی جنگی جہاز مار گرایاتھا۔ روس نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ترکی پر معاشی پابندیاں عائد کر دی تھیں ،جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔مگر اپنے شانہ بشانہ کھڑے ترکی کی حمایت سے امریکہ اور سعودی عرب کا گریز کرناکئی تشویش کو تقویت دیتا ہے۔ روس کی سرگرمیوں اور مغربی طاقتوں کی خاموشی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ترکی کوشام کی خانہ جنگی میں دن بدن ویسے ہی پھنسا جا رہا ہے جیسے افغانستان میں پاکستان کوپھنسا یا گیاتھا اور آج بھی پاکستان اس کی سزا بھگت رہاہے۔ ترکی اسی طرح دمشق مخالف مسلح گروہوں کی پشت پناہی کر رہا ہے جیسے پاکستان نے امریکہ کی ایما پر مجاہدین کی مدد کی تھی۔ اگر یہ بات درست ہے تو سمجھ لینا چاہئے کہ ترکی پاکستان کی طرح دہشت گردی کا شکار ہو سکتا ہے اور اس کے معاشی ترقی کے منصوبے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ ایسے میں کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے رجب طیب اردگان اورمسٹر اوغلو کو اپنے دفاع کا بیڑا اپنے ہی دم پر اٹھا نا ہوگا۔
ترکی مسلم دنیا کا وہ ملک ہے، جس کی حدود بیک وقت یورپ اور ایشیا دونوں براعظموں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ ترکی کی آبادی تقریباً ساڑھے سات کروڑ ہے۔ ترکی میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی 2002ء سے اب تک برسراقتدار ہے۔ طیب اردگان پہلے وزیراعظم تھے، اب صدر ہیں۔ اس وقت احمد داؤد اوغلو ملک کے وزیراعظم ہیں۔ اس پارٹی کو مغربی قوتوں اور ان کے ہم نوا عناصر کی طرف سے ’اسلامسٹ‘ (اسلام پسند) کہا جاتا ہے۔ ان کے نزدیک ترکی میں ’اسلامسٹ‘ پارٹی کا برسراقتدار آنا خطرناک ہے ۔ اسی وجہ سے امریکہ اور مغربی و سیکولر قوتیں اس حکومت سے ناخوش ہیں، حالانکہ ترکی نیٹو کارکن بھی ہے۔اس سیملک کے اندر کردودہشت گردوں کی حمایت کی مغربی وجوہات بالکل واضح ہیں کہ ترک حکومت پوری دنیا میں امت مسلمہ کے مسائل پر جرأت مندانہ مؤقف اختیار کرتی اور ظلم کیخلاف کھل کر کھڑ ی ہوجاتی ہے۔ غزہ کی حمایت میں جانے والا فلوٹیلا اور اس کے نتیجے میں اسرائیل کی غنڈا گردی اب تک لوگوں کو یاد ہے۔ اہلِ غزہ اپنے ترک بھائیوں کے اس جرأت مندانہ اقدام اور قربانیوں پر آج بھی ان کی تحسین کرتے ہیں۔20 مارچ 2003ء کو امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تو ترکی سے اپنی فوج کی نقل و حرکت کیلئے زمینی راستہ مانگا، جس سے ترک حکومت نے انکار کر دیا تھا۔ امریکہ نے 10 اَرب ڈالر امداد کی بھی پیشکش کی، جو مصلحت پسندوں کے نزدیک اس زمانے میں ترکی کی بیمار معیشت کیلئے نسخہ شفا تھا۔ جسٹس پارٹی کی غیرت مند قیادت نے اس پیش کش کو بھی ٹھکرا دیا تھا۔ امریکہ نے ہو ا ئی راستہ مانگا تو حکومت نے اس سے بھی معذرت کردی ۔ کوئی مسلمان ملک آج کے دور میں ایسی جرأت مندانہ مثال مشکل ہی سے قائم کرسکا ہے۔رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان جان کربی نے ایک بیان داغا ہے، جس میں ترکی میں علیحدگی پسند کردش ورکرز پارٹی اور ترک حکومت کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا ہے۔ یہ پارٹی علیحدگی پسند اور دہشت گرد سمجھی جاتی ہے۔ ترکی میں داعش کی طرح یہ بھی آئے دن دھماکے کرتی رہتی ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ وہ ترکی کے جنوب مشرقی علاقے کو علیحدہ کرکے اپنی حکومت قائم کرے گی۔ 18 فروری کو 24 گھنٹوں میں ترکی کی سرزمین پر دہشت گردی کے چار خطرناک واقعات ہوئے۔ انقرہ میں ہونے والے دھماکے میں 28 افراد موقع پر جاں بحق ہوگئے۔ اس کی ذمہ داری کرد علیحدگی پسندوں نے قبول کرلی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ کردوں کو اب تک امریکہ نے اپنی حمایت جاری رکھی ہے۔امریکی ترجمان کی اس ناروا مداخلت کے جواب میں ترک وزارتِ خارجہ کے ترجمان تانجوبالجیس نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی یہ مداخلت ناروا ہے اور انقرہ امریکی حکومت کی طرف سے علیحدگی پسند اور دہشت گرد تنظیم کو منتخب دستوری حکومت کے برابر درجہ دینے پر سراپا احتجاج ہے۔
شام میں بشارالاسد کی نصیری اور آمرانہ حکومت نے اہلِ شام کو جس بدترین ظلم کا شکار بنایا ہے، اس پر بھی ترکی نے اسلامی اخوت اور غیرتِ مومنانہ کا مظاہرہ کیا ہے۔ مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دینا اور ظالم کا ہاتھ روکنے کی عملی کاوشیں ترک حکومت کا بہت بڑا اور انسان دوستی پر مبنی مظاہرہ ہے۔ ترکی کی یہ جہودِ مسعودہ روس کو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ روس شام پر مسلط ظالم حکمران کا پشت پناہ ہے اور اپنی عسکری قوت بشار مخالف تحریک کو کچلنے کیلئے بڑی بیدردی سے استعمال کررہا ہے۔ اسی سلسلے میں ایک روسی طیارہ 24 نومبر 2015ء کو ترکی کی حدود میں غیر قانونی طور پر داخل ہوا۔ ترک فوج نے اپنا حقِ دفاع استعمال کرتے ہوئے یہ طیارہ مار گرایا۔ روسی صدر ولادیمیر پیوتن نے ترکی کو سخت دھمکی دی اور ترک حکومت سے اس ’گستاخی‘ پر فی الفور معذرت اور معافی مانگنے کیلئے دباؤ ڈالا۔ ترک حکومت نے دیگر مسلمان ملکوں کی روش سے ہٹ کر پوری جرأت کے ساتھ جواب دیا کہ انہوں نے کوئی جارحیت نہیں کی، جس پر معافی مانگیں۔ اپنی فضائی حدود کی حفاظت ان کا بنیادی حق ہے اور روس نے ان حدود کو پامال کرکے خود ایسی حرکت کی ہے، جس پر اسے معذرت کرنی چاہیے۔یہی وہ جرأتمندانہ موقف ہے جسے کسی اسلامی طاقت کے اندر دیکھنا پسند نہیں کیاجاتا۔اس معاملے میں روس ،اسرائیل اور سارا مغرب ایک ہی صف میں کھڑا ہے۔لہذا اپنے اسلامی تشخص کی حفاظت کیلئے آواز اٹھانے والا کوئی بھی ملک مذکورہ طاقتوں کی نظر میں دہشت گرد قرار دے دیا جاتا ہے۔مگر مغربی استعما ر کو نہیں بھولنا چاہئے کہ مسلم دنیا میں پیدا کیا جانے والا بحران ایک ایسا خطرناک کھیل ہے جس کے نتائج بھیانک برآمد ہوں گے۔ دہشت گردی نے مسلم معاشروں کے تانے بانے بکھیر دیے ہیں۔ مسلم دنیا نے اپنی پوری طاقت جھونک کر اور وسائل کا استعمال کرتے ہوئے دہشت گردی کا مقابلہ شروع کیا ہے۔ اس میں کامیابی ملنا مشکل ہے کیوں کہ یہ الزام عائد کیا جارہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مسلم دنیا نے بین الاقوامی حقائق کو مدنظر نہیں رکھا۔مطلب یہ کہ اپنے ہی بھائیوں کے خلاف عسکری محاذ قائم کرنے سے پہلے یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ کہیں اس کا فائدہ مسلم طاقتیں نہ اٹھالیں؟۔ ایک اسلامی ملک کے مفتی اعظم نے داعش کو ’’اسرائیلی فوج‘‘ یا جاسوسی ایجنسی ’موساد‘ کا ’’خفیہ ادارہ‘‘ قرار دیا ہے۔ داعش یا دولت اسلامیہ کے کارکنوں کی جانب سے جو حرکتیں ہورہی ہیں۔ اس سے اسلام اور مسلمانوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس جنگ میں اگرچہ بظاہر شام کے مسلمانوں کو بشار کی غاصب حکومت سے نجات دلانے کی بات کی جارہی ہے ۔مگر حقیقت یہ ہے کہ شام کے بہانے روس اور امریکہ ویوروپ مسلم ممالک کی بچی کھچی طاقتوں کو بھی بے دستو پا کردینا چاہتاہے۔جس کی ابتدا تر کی سے کی جاچکی ہے،لہذا عالم اسلام کو ایک بار نئے سرے موجودہ صورت حال پر نظر ڈال کر منظم لائحہ عمل مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا