English   /   Kannada   /   Nawayathi

جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے

share with us

یہ پوری خبر اُن کے ہی الفاظ میں اس لئے نقل کردی کہ ہمارے بھی ریکارڈ میں محفوظ ہوجائے۔ اب اگر کوئی یہ درخواست کرے کہ کیا یہ زیادہ اچھا نہ ہوتا کہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے ان لڑکوں سے جنہوں نے دہلی کی ناکارہ پولیس کے کہنے کے مطابق ملک مخالف نعرے لگائے اور دشمن ملک کو زندہ باد کے نعروں سے یاد کیا اور پارلیمنٹ پر حملہ کی سازش میں شریک رہنے کے جرم میں پھانسی پانے والے افضل گرو کی برسی منائی۔ مودی سرکار نے اپنے کو اُن سے الگ کرلیا اور وزیر داخلہ نے دہلی سرکار کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اگر ضروری سمجھے تو اُن کے خلاف کارروائی کرے؟
گوڈسے کی کتنے ہندوؤں کے دل میں وہ عزت ہے جو بھگت سنگھ کی بھی نہیں۔ اس کا ریکارڈ مہاراشٹر پولیس کے پاس موجود ہے۔ رہا اس کی پوجا کرنا اور کھلے میدان میں کرنا یا کسی بند کمرے میں کرنا۔ یہ پوجا کرنے والوں پر منحصر ہے۔ 1948 ء سے اب تک نہ جانے کتنی جگہ اور کتنی بار اسے اچھے الفاظ سے یاد کیا گیا اس کا ریکارڈ بھی موجود ہے اور اس کا بھی ہے کہ کہیں کسی کے خلاف بھی معمولی سی کارروائی اس لئے نہیں کی گئی کہ جن کے ہاتھ میں کارروائی کرنے کی طاقت ہے و خود گوڈسے کو برا نہیں سمجھتے۔
اب رہی بات جے این یو کی تو بالکل ایک عام آدمی کی حیثیت سے ہم معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ کیا نعروں سے ملک ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتے ہیں؟ ہندوستان کے دو ٹکڑے ہوئے تھے تو اس کے لئے 23 مارچ 1940 ء کو لاہور میں مسلم لیگ کے اجلاس میں ایک قرارداد پاکستان پیش ہوکر پاس ہوئی تھی۔ پھر 1946 ء تک پورے چھ برس ملک کے 6 کروڑ مسلمانوں نے رات دن شہر شہر گاؤں گاؤں اور گلی گلی نعرے لگائے تھے کہ 146لے کے رہیں گے پاکستان۔145 اور اس کے بعد بھی انہیں نہ پاکستان ملتا نہ ملک ٹکڑے ٹکڑے ہوتا اگر سردار ولبھ بھائی پٹیل ملک کو بانٹنا نہ چاہتے یا جواہر لال نہرو اور مہاتما گاندھی نے پٹیل کی بات نہ مانی ہوتی۔ جس آدمی کا نام محمد علی جناح تھا وہ نہ اکیلے ملک کو تقسیم کراسکتا تھا اور نہ چھ کروڑ مسلمان ملک کے ٹکڑے کرسکتے تھے۔
پھر جب پاکستان کے دو ٹکڑے ہوئے تو وہ بھی کسی یونیورسٹی کے لڑکوں کے نعروں سے نہیں ہوئے بلکہ پہلے تو ہندوستان کی وزیر اعظم مسز اندرا گاندھی نے مشرقی پاکستان سے ایک کروڑ ہندوؤں کو ہندوستان بلایا۔ پھر پوری دنیا سے کہا کہ یہ ایک کروڑ ہندو پاکستان کے ظلم سے ڈر کر میرے ملک میں آگئے ہیں۔ انہیں میں مہینوں سے کھلا رہی ہوں۔ آخر کب تک اور کہاں سے کھلاؤں گی؟ اور دنیا کے بڑے ملکوں نے مسئلے کو سمجھے بغیر اندرا گاندھی کو اطمینان دلا دیا کہ آپ جو مناسب سمجھیں کریں ہم دخل نہیں دیں گے۔ اور اس گرین سگنل کے بعد ہماری فوجوں نے مشرقی پاکستان میں داخل ہوکر اسے بنگلہ دیش بنوا دیا اور پاکستان کے دو ٹکڑے ہوگئے۔ یہ بھی کسی ایک یا دس بیس یونیورسٹیوں کے لڑکوں کے نعروں سے نہیں ہوا۔
جواہر لال یونیورسٹی کی پروفیسر جیتی گھوش صاحبہ نے کہا ہے کہ یونیورسٹی میں نقاب پوش آئی بی کے لوگوں نے نعرے لگائے تھے۔ انہوں نے 09 فروری کے واقعہ کے بارے میں کہا ہے کہ وہ مرکز کی ایک سازش تھی انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت یونیورسٹی کو زبردستی نشانہ بنا رہی ہے۔ وہ لڑکوں سے ڈری ہوئی ہے۔ پروفیسر گھوش نے کہا کہ گذشتہ کئی برسوں سے حکومتیں اپنے سیاسی مخالفین پر کارروائی کرنے کے لئے ملک دشمن لفظ کا استعمال کرتی چلی آرہی ہیں۔ انہوں نے صرف مودی سرکار کو نہیں دوسروں کو بھی اسی لائن میں کھڑا کردیا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ دس بیس لڑکوں کی بچکانہ شرارت کے لئے ایک بھاجپائی لیڈر کا یہ کہنا کہ وہ جے این یو میں جناح پیدا نہیں ہونے دے گا اور وزیروں کا یہ کہنا کہ تیرے قاتل زندہ ہیں۔ اور ملک ٹکڑے ٹکڑے ہوگا۔ انشاء اللہ انشاء اللہ۔ کیا انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ جب مسلمان انشاء اللہ کہہ دیتا ہے تو وہ سب کچھ اللہ کے اوپر چھوڑ دیتا ہے۔ یعنی اگر اللہ نے چاہا۔ اور یہ تو ہر مسلمان کا ایمان ہے کہ اگر اللہ نہ چاہے تو ایک پتہ بھی نہیں ہل سکتا۔ تو پھر عمر خالد کی گردن پکڑنے کا کیا جواز ہے؟ 146146اس نے کہہ دیا کہ اگر اللہ نے چاہا۔145145 وہ اگر دعا کرتا کہ اے اللہ اس ملک کے ٹکڑے ٹکڑے کردے تب بھی شکایت ہوسکتی تھی کہ اس نے بددعا دی۔ لیکن انشاء اللہ کے بعد تو فیصلہ اللہ پر چھوڑنا ہوا۔ اور اگر اللہ نہ چاہے تو اپنے ملک کا گھاس کا ایک تنکا بھی دشمن نہیں توڑ سکتا اور اگر چاہے تو دنیا کی ساری حکومتیں مل کر بھی نہیں روک سکتیں۔
یونیورسٹی یونین کے معاملہ میں دو تجربے ہیں۔ ایک اُترپردیش کا ہے کہ یونین کی لازمی رُکنیت نہیں ہے۔ برسوں پہلے جب ہم پریس کی نگرانی کرتے تھے تو ہر سال ہزاروں ہزار روپئے کا کام یونیورسٹی یونین کے الیکشن کا ہوتا تھا اور لڑکوں کے دبدبے کا یہ حال تھا کہ ایک گروپ اپنے صدر کا پوسٹر چھپوانے آیا اور سب باتیں ہوجانے کے بعد جب ان سے کہا کہ دو تین ہزار روپئے پیشگی دے دیجئے کیونکہ کاغذ تو بازار سے آتا ہے۔ تو یہ بھی دیکھا کہ ابھی آئے کہہ کر گئے اور ایک گھنٹہ کے بعد پانچ ہزار روپئے لاکر دے دیئے بعد میں معلوم ہوا کہ فلاں جویلرس کی دکان میں سب گھس گئے اور پانچ ہزار لے کر آگئے۔ اور یہ بھی ہوا کہ بھولا ناتھ سیتا رام کاغذ والے کے ہاں گئے اور دس رِم کاغذ اٹھا لائے۔ اور اگر پریس کے ہزار دو ہزار باقی رہ گئے تو یہ کہہ کر چلے گئے کہ چچا ہم بھی تو آپ کے بچے ہیں۔
دہلی میں آج بھی یونین کے الیکشن ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے کارپوریشن کے۔ اور ہارجیت لڑکوں کی نہیں، پارٹیوں کی ہوتی ہے۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہاں اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کا یونین پر کبھی قبضہ نہیں ہوا۔ جبکہ دہلی یونیورسٹی پر اس کا قبضہ ہے اور اسے بی جے پی کی تنظیم ہونے کی وجہ سے حکومت کی سرپرستی حاصل ہے۔ وزیر داخلہ اور دوسرے وزیروں کا جے این یو کے ساتھ جو رویہ ہے وہ باپ بیٹوں کا نہیں ہے اور یہ بات حکومت کے سوچنے کی ہے کہ کیا تعلیم گاہوں کی قسمت کا فیصلہ وہاں پڑھنے والے لڑکوں کے مذہب اور ان کی سوچ پر ہوگا یا پڑھنے والوں کی صلاحیت اور ان کی قابلیت پر؟
ایک طرف وزیر داخلہ کہتے ہیں کہ گوڈسے کی پوجا یا مندر سے مودی سرکار نے اپنے کو الگ کرلیا ہے۔ اور ایک خاتون پروفیسر گھوش الزام لگاتی ہیں کہ نعرے نقاب پوش لگا رہے تھے اور پورے ملک کو حکومت دہلا رہی ہے جیسے دس دہشت گرد پاکستان سے گجرات میں داخل ہونے کے بعد سیدھے نہرو یونیورسٹی میں گھس کر بیٹھ گئے۔ ہونہار نوجوان کنہیا کمار کی زبان نہیں 146146جیبھ145145 (thHk) کاٹ کر لانے والے کو پانچ لاکھ کا انعام۔ اور دہلی میں پوسٹر لگتے ہیں کہ اسے گولی مارنے والے کو گیارہ لاکھ کا انعام۔ لیکن وزیر داخلہ کا کوئی بیان نہیں آتا؟ تین دن کے بعد جسے گرفتار کیا جاتا ہے وہ کنگال ہے۔ تو ان کی گرفتاری کا کیا ہوا جنہوں نے ہزاروں روپئے پوسٹروں پر خرچ کئے؟ اطمینان رکھئے کہ کوئی اور گرفتاری اس لئے نہیں ہوگی کہ کوئی اپنے ورکروں کو یعنی سیاسی بیٹوں کو گرفتار نہیں کرتا ہے۔ جس کا ثبوت وہ ہے جس نے جیبھ کاٹ کر لانے والے کو پانچ لاکھ کے انعام کا اعلان کیا تھا تو پارٹی نے اپنے کو اس سے بھی الگ کرلیا۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا