English   /   Kannada   /   Nawayathi

طہارت ونظافت ایک تہذیبی پہچان ہے

share with us

یہی وجہ ہے کہ اسلام نے صفائی ستھرائی اور طہارت و نظافت پر خاص توجہ دی ہے اور قرآن و حدیث میں متعددمقامات پر لوگوں کواس کی اہمیت پر متوجہ کیاگیاہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’ بلا شبہ اللہ خوب توبہ کرنے والوں اور خوب پاک و صاف رہنے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘۔ (سورۂبقرہ:222)اس آیتِ کریمہ میں ان لوگوں کی دوصفات بیان کی گئی ہیں،جواللہ کے محبوب ہیں،ایک تویہ کہ وہ لوگ اپنے گناہوں اور کوتاہیوں پر توبہ کرتے ہیں اوردوسرے یہ کہ وہ لوگ پاک صاف رہتے ہیں۔ایک دوسری جگہ نبی اکرم ﷺکے واسطے سے تمام انسانوں کومخاطب کرکے کہاگیاہے کہ:’’ اور اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو اور اپنے کپڑے پاک رکھو‘‘۔(سورۂ مدثر: 3-4)یعنی اپنے خالق و مالک کی کبریائی کایقین رکھناہے،اس پر ایمان لاناہے اوراس کی بڑائی کااعتراف واظہارکرناہے اور ساتھ میں اپنے جسم اور ظاہرکوپاک صاف رکھناہے۔
ہمارے محبوب نبیﷺنے بھی صفائی اور نظافت کی خصوصی تاکید فرمائی اور اس ضمن میں لوگوں کوخاص توجہ دلانے کے لیے ارشاد فرمایا:’’ طہارت آدھا ایمان ہے‘‘۔ (صحیح مسلم: 223)اس حدیث پاک کا مطلب یہی ہے کہ اسلام میں طہارت کا غیر معمولی مقام ہے اور ایک مومن کی شان یہ ہونی چاہیے کہ وہ ہمیشہ پاک رہے،صاف رہے اورہر قسم کی گندگی سے پرہیز کرے۔اس سلسلے میں ہمیں عہدِ نبویﷺکے ایک واقعے سے بھی واضح تعلیم حاصل ہوتی ہے،حضرت عطاء بن یسارؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ: ’’اللہ کے رسول ﷺ مسجد میں تھے، اسی دوران ایک شخص داخل ہوا جس کے سر اور داڑھی کے بال پر اگندہ تھے، رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کرکے اس شخص سے کہا کہ چلے جاؤ، گویا کہ رسول اللہ ﷺ اس کو سر اور داڑھی کے بال کی اصلاح کرنے کا حکم دے رہے تھے، اس شخص نے ایسا ہی کیا پھر واپس آیا ، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا : کیا یہ بہتر نہیں ہے اس کے مقابلہ میں کہ تم میں سے کوئی شخص اس حال میں آئے کہ ا س کے بال پرا گندہ ہوں گویا کہ وہ شیطان لگ رہاہو‘‘۔ (موطأ مالک: 756)
اسلام میں جمعہ کے دن کی اپنی الگ شناخت اور فضیلتیں ہیں،اس دن کے لیے الگ نمازہے اوراسے ہفتے کی عیدکہاگیاہے،اس دن کے حوالے سے ہدایتِ نبویﷺکی نشان دہی کرتے ہوئے أم المؤمنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :’’ تم میں سے کسی کے لیے اس میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے کہ اگر اس کو گنجائش ہوتووہ جمعہ کے دن کے لئے اپنے عام کپڑوں کے علاوہ دومخصوص کپڑے رکھے‘‘ ۔(سنن ابوداؤد: 1078)اس کا مقصدجمعہ کے دن کا خصوصی اکرام بھی ہے اور ساتھ ہی صفائی اور نظافت کاخیال و اہتمام کرنے کی تلقین بھی مقصود ہے۔ 
صفائی کے تعلق سے انتہائی واضح اورتفصیلی ہدایت فرماتے ہوئے اللہ کے نبیﷺنے چھوٹے چھوٹے اور بظاہر معمولی سمجھے جانے والے اعمال پربھی توجہ دلائی اور انھیں اسلامی فطرت میں شمارکیا،حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:’’پانچ چیزیں فطرت کاحصہ ہیں: ختنہ کرنا، زیرِ ناف بال صاف کرنا، ناخن کاٹنا، بغل کے بال صاف کرنا، مونچھیں کاٹنا‘‘۔(متفق علیہ)
مذکورہ بالاآیاتِ قرآنی اور چنداحادیث سے ہمیں معلوم ہواکہ اسلام نے طہارت اور صفائی کو بہت بلند مقام عطا کیا ہے یہاں تک کہ ایمان میں اس کو اولیت اور اہمیت کا درجہ حاصل ہے، کیونکہ اس کو نصف ایمان قرار دیاگیا ہے ،جبکہ نصفِ آخر عقیدہ ،عبادات اور عمل کو قرار دیاگیا ہے، صفائی مسلمان کی ایک اہم پہچان ہے،البتہ ہمیں اس سلسلے میں مزیدتفصیل ذہن میں رکھناچاہیے کہ طہارت دو طرح کی ہوتی ہے: 
1: معنوی طہارت:اس کامطلب ہے ایسی طہارت جس کے ذریعہ غلط عقائداور منحر فانہ افکار سے چھٹکارا حاصل کیا جاتا ہے، اس کے ذریعہ نفس کو گناہوں اور برے اعمال سے پاک کیا جاتا ہے اور یہ دل کو ہر قسم کی بیماریوں سے پاک کرتی ہے، یہ نہایت اہم اورضروری طہارت ہے اس لئے کہ کردار کو بہتر بنانے میںیہ نہایت مؤثر ہے، رسول اللہ ﷺ نے اس جانب اپنے اس ارشاد کے ذریعہ اشارہ کیا ہے: ’’ سن لو! جسم میں ایک ایسا گوشت کا لوتھڑا ہے کہ اگر وہ درست رہا تو پورا جسم درست رہے گا اور اگر وہ خراب ہوگا تو پورا جسم فساد کا شکار ہوگا ،آگاہ رہو، وہ دل ہے‘‘۔ (متفق علیہ ) یعنی دل کے اچھے یابرے ہونے کا اثردیگر اعضاء پر پڑتا ہے، اگردل پاک ہے،تواعضائے جسم اس طہارت کے اثر کی وجہ سے خیر کے کاموں کی جانب متوجہ ہوتے ہیں اوراگردل میں فسادہے،تواس کے برے اثرات بھی جسم کے دوسرے اعضاء پر پڑتے ہیں اور انسان برے اعمال میں ملوث ہوجاتاہے۔ 
2: نظافت کی دوسر ی قسم ہے حسی یا جسمانی اور ظاہری طہارت، اس (ظاہری)طہارت کا تعلق جسم، کپڑے اور خاص و عام جگہ سے ہے ،رسول اللہ ﷺ نے اس نظافت کی بھی بہت زیادہ ترغیب دی ہے اور مسلمانوں کو اپنے بدن کی صفائی اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھنے کا حکم دیا ہے، اپنے گھروں کی دیکھ ریکھ کرنے، اپنے راستوں سے گندگی اور تکلیف دہ چیزوں کوہٹانے کا حکم دیا ہے۔حسی اور معنوی طہارت کا اہتمام شرعی طور پر مطلوب ہے ،یہ مسلمان کی بہترین صفت اور اسلامی تہذیب کے اہم ترین مظاہر میں سے ہے۔
جہاں تک عبادات کا تعلق ہے تو ان میں سے بعض وہ عبادات ہیں جو حسی طہارت کے بغیر درست نہیں ہوتی ہیں، جیسے کہ نماز، قرآن کو چھونا، حج اور 
عمرہ کے وقت طواف وغیرہ، اسی لئے وضو اور غسل مشروع کئے گئے ہیں،ان کا مقصدیہی ہے کہ انسان جب اپنے رب کی بارگاہ میں جائے توجہاں اس کا نفس اور قلب مکمل طورپرصاف ہووہیں اس کے ظاہری اعضاء اور کپڑے بھی صاف ہوں،ہر قسم کی گندگی اور آلودگی سے محفوظ ہوں،مثلاً وضو،یہ عربی زبان کا لفظ ہے اوروضاء ت(نور اور چمک) سے بنا ہے ،اس کو وضو اس لئے کہاجاتا ہے کیونکہ جب نمازی اس کے ذریعہ نظافت حاصل کرتا ہے تو گویاوہ روشن اور پرُ نور ہوجاتا ہے، اور وضو نام ہے جسم کے ظاہری اعضاء کو پاک و صاف کرنے کا۔ جہاں تک غسل کا تعلق ہے تو اس کوبھی اہم مقاصد اور اہم فوائد کے لئے مشروع کیا گیا ہے،جیسے جنابت دور کرنے،بدن کو پاک کرنے، اور جسم کوترو تازہ کرنے کے لئے، اس اعتبار سے شرعی طہارت معقول اور فطرت پر مبنی ہے، کیونکہ وہ مہذب انسانی ذوق کے اصول و اقدار کے عین مطابق ہے، اس لئے کہ میل کچیل اور ناپاکی کو انسانی فطرت نا پسند کرتی ہے۔ طہارت و نظافت کی مزید تا کید کے لئے اسلام نے مسنون و مستحب غسل کی بھی ترغیب دی ہے، جیسے کہ جمعہ کا غسل ،عیدین کے دن غسل، اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے سونے سے پہلے وضو کرنے کی ترغیب دی ہے۔جمعہ کے دن ہمارے لئے رسول اللہ ﷺ نے ایسے اعمال مسنون فرمائے ہیں جن میں سے اکثر کا تعلق نظافت اورحسنِ مظہر سے ہے، جیسے غسل کرنا،خوشبو لگانا، ناخن تراشنا، مونچھیں تراشنا،صاف ستھرے کپڑے پہننا وغیرہ۔ 
نبی کریمﷺ نے طہارت و پاکی حاصل کرنے والوں کو خوشخبری سنائی ہے کہ ان کی طہارت قیامت کے روز ان کے حق میں گواہ بنے گی، آپ ﷺ کا فرمان ہے:’’ بلاشبہ میری امت کو قیامت کے دن اس حال میں بلایا جائے گا کہ ان کے اعضاء وضوء کے آثار کی وجہ سے چمک رہے ہوں گے، لہذا تم میں سے جو اپنی چمک کو بڑھا سکتا ہو اسے ضرور ایسا کرنا چاہئے‘‘۔ (صحیح بخاری: 136) اسی طرح احادیث میں رات کوسونے سے قبل گھرکادروازہ بند کرنے اور برتنوں کوڈھکنے کی بھی تلقین ملتی ہے،اس کا مقصدجہاں یہ ہے کہ کوئی نقصان پہنچانے والی چیزگھرمیں یاکھانے پینے کے برتن میں گھسنے نہ پائے وہیں صفائی اور نظافت کے نقطۂ نظرسے بھی یہ تلقین اہمیت کی حامل ہے۔
اس طرح اگر ہم غور کریں تومعلوم ہوتاہے کہ ہمارے مذہب نے صفائی،پاکیزگی اور نظافت کاغیر معمولی اہتمام کیاہے اوراس حوالے سے معمولی کوتاہی کی بھی گنجایش نہیں چھوڑی ہے،مگر افسوس کی بات ہے کہ آج اسی مذہب کے ماننے والے صفائی ستھرائی کے تئیں حد درجہ غفلت شعار اور کوتاہی کے شکار نظرآتے ہیں،دورجانے کی ضرورت نہیں ،اپنے ملک کے شہروں اور گاؤں پرہی ایک نظرڈال کر دیکھیں تومحسوس ہوگا کہ جہاں برادرانِ وطن کی اکثریتی آبادی والے علاقے نسبتاً زیادہ صاف ہوتے ہیں،وہیں مسلم اکثریتی آبادی والے محلے اور آبادیاں بہت ہی آلودہ اور گندگی سے بھری ہوتی ہیں،اس سلسلے میں عام طورپرلوگوں کی ذہنیت یہ ہے کہ وہ مقامی سرکاری انتظامیہ کوموردِ الزام ٹھہراتے ہیں کہ صفائی عملہ توجہ نہیں دیتااور کوتاہی برتتاہے،مگر جس محلے میں ہم رہتے ہیں اس کوصاف ستھرارکھنے کی ذمے داری خودہماری بھی ہے اس کا احساس شایدہی کسی کوہو،گھرصاف کرکے راستے پر کوڑاڈال دینا،چلتے چلتے کہیں بھی تھوک دینا،کسی بھی جگہ پانی بہادینایہ سب وہ خرا بیاں ہیں ،جوہمارے اندرگھرکرچکی ہیں اورپھراس کے برے نتائج بھی ہمیں خود بھگتنے پڑتے ہیں،بیماریاں پھیلتی ہیں،انسانی صحت پر اس کے مضراثرات مرتب ہوتے ہیں اورسب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اس طرح ہمارے معاشرے کی ایک غلط اورگندی تصویرابھرکرسامنے آتی ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ ہم صفائی ستھرائی کو اسلامی تہذیب کا حصہ سمجھیں اوراپنے جسم،گھراورماحول سمیت جس علاقے میں رہتے ہوں،اس کوصاف ستھرارکھنے کے جتن کریں،جولوگ اس حوالے سے غفلت برت رہے ہیں،انھیں نظافت وپاکی کی اہمیت سے روشناس کرائیں اوراس عمل کویہ سمجھ کرکریں کہ صفائی ستھرائی اورطہارت ونظافت ہمارے ایمان کے کمال کی دلیل اورمسلمانوں کاشعارہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا