English   /   Kannada   /   Nawayathi

ہر اعتبار سے ملک کی منفرد یونیورسٹی

share with us

ہو سکتا ہے کہ کانگریس کی طرف سے کسی کو خوش گمانی ہو۔ لیکن اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کا مسئلہ آج تک جو لٹکا ہوا ہے وہ کانگریس کی ہی اس سے دشمنی کی وجہ سے ہے۔ کانگریس نے ہی اسے پاکستان کا ذمہ دار قرار دیا اور جواہر لال نہرو ، مولانا آزاد اور ڈاکٹر ذاکرحسین کی ہر ممکن کوشش کے بعد بھی کانگریسیوں نے ہی اسے دشمن کی اولاد سمجھا۔ آج اس نے اسے اپنا مسئلہ بناکر اپنے دشمن کو یہ موقع دے دیا کہ انتظامیہ کے ممبر کے لئے فروغ انسانی وزارت کی طرف رجت شرما کا نام صدر کی خدمت میں بھیجا گیا جن کی پہچان یہ ہے کہ سونے سے پہلے وہ ہنومان چالیسا کی طرح مودی چالیسا پڑھتے ہیں۔ اور صبح اٹھنے کے بعد پھر مودی چالیسا پڑھتے ہیں۔ وہ اپنے کو صحافی کہتے ہیں۔ لیکن ان کی صحافت کا قبلہ ناگپور ہے۔ اگر مسلم یونیورسٹی کے لئے ایسے ہی نمائندوں کی حکومت کو ضرورت ہے تو ساکشی مہاراج ، یوگی ادتیہ ناتھ یا بابارام دیو کیا برے ہیں؟ ان پرایرانی صاحبہ غور کرلیں۔
وزیر مملکت برائے پالیمانی امور مختار عباس نقوی نے کہہ دیا کہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ جیسے سیکڑوں خود مختار ادارے اور سینٹرل یونیورسٹی ہیں۔ وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ اس کی نہ کوئی امتیازی حیثیت ہے نہ تاریخی۔ وہ وزیر ہیں ان کی معلومات بھی ظاہر ہے ہم سے کہیں زیادہ ہوگی لیکن ہم وہ ہیں جومانتے ہیں کہ مسلم یونیورسٹی اپنی نوعیت کی اکیلی ہے۔ نقوی نام کے نائب وزیر کہتے ہیں کہ سیکڑوں ہیں۔ تو ہو سکتا ہے دوچار ان کے گھر میں ہوں اور دو چار ان کی سسرال میں ہوں ۔ لیکن ہم تو یہ جانتے ہیں کہ یہ ملک کی واحد یونیورسٹی ہے جس پر آنچ آنے کی خبر عام ہو تو صرف ہندوستان نہیں دنیا کے ہر ملک میں ہندوستانی مسلمانوں کا بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے۔ یہ ایسی اکیلی یونیورسٹی ہے جس میں پڑھے ہوئے لڑکے ایک دوسرے کو سگا بھائی سمجھتے ہیں۔ یہ مختار عباس نقوی بتا دیں کہ وہ جو سیکڑوںیونیورسٹیاں ہیں کیا ان میں کوئی ایک بھی ایسی ہے جس نے ہم سبق لڑکوں کو خونی رشتہ دار بنا دیاہو؟ 
مسلم یونیورسٹی کے بانی سر سید ؒ کی وہ اکیلی ذات ہے جنہیں علماء نے نیچری بھی کہا۔ حد یہ ہے کہ بعض نے کافر تک کہہ دیا۔ اور انگریزوں کاایجنٹ کہنے والے تو نہ جانے کتنے ہونگے۔ لیکن وقت بدلانتیجہ کچھ کا کچھ نکلا تو آج کوئی عالمِ دین ایسا نہیں ہے جو انہیں رحمۃ اللہ علیہ نہ لکھتا ہو۔ اور ہمیں ایسا دوسرا کوئی نام نہیں معلوم جس نے اپنے مقصد کو صحیح سمجھ کر ہر طبقہ کی مخالفت برداشت کی ہو لیکن اس کے عزائم میں کمی نہ آئی ہو؟ مسلم یونیورسٹی ملک میں نہیں پوری دنیا میں صرف ایک ہے اور وہ ایک ہی رہے گی اس لئے کہ اسکول یا کالج ہزاروں ہو سکتے ہیں یونیورسٹیاں بھی سیکڑوں ہو سکتی ہیں لیکن علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ صرف ایک ہے اور ایک ہی رہے گی۔ کیونہ وہ سانچہ ٹوٹ گیا جس میں یہ یونیورسٹی بنی تھی۔ پروفیسر رمیش دکچھت نے مسلم یورنیورسٹی علی گڑھ سے متعلق ایک کتاب کی رسم رونمائی میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھاکہ
’’ ۔۔۔۔۔۔ایک بات آج کے حالات پر اس کتاب کے مادھم سے کہہ دوں کہ جب ہندو لفظ ہٹانے کی بات تھی یا B.H.U اور مسلم لفظ ہٹانے کی بات تھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تو اس وقت میں ART FACULTY کی طرف سے نمائندہ تھا۔ شاسن میں لکھنؤ۔یونیورسٹی کی اور ہماری ایک ٹیم گئی تھی۔ اشوک نگم جو اس وقت جنرل سکریٹری تھے ہمارے ساتھ بنارس گئے تھے۔ اس بات کے لئے کہ کیا ہو رہا ہے؟ در اصل میرا ماننا صاف ہے جو کل بھی تھا آج بھی ہے کہ بنارس ہندو یونیورسٹی سے ہندو کا لفظ ہٹانے کی بات صرف اس لئے تھی کیونکہ در اصل کانگریس حکومت کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے لفظ مسلم ہٹانا تھا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا مزاج بدلنے کے لئے ہی یہ سارے قواعد کئے گئے تھے۔ اس میں مجھے کوئی شک نہیں ہے۔ ہمارا ماننا یہ ہے کہ جب آپ نے اس یونیورسٹی کو بنایا نہیں تھا۔ بنانے والے کوئی اور تھے تو اس کے مزاج کو بنے رہنا چاہئے۔ اور ایک بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جو حیثیت مسلم یونریوسٹی کے کردار کی مسلمانوں کے دماغ میں ہے ایسی کوئی پہچان بنارس ہندو یونیورسٹی B.H.U کی نہیں ہے۔ اس کی وجہ آپ کو بتاؤں؟ وہ یہ ہے کہ انگلش میں تو بنارس ہندو یونیورسٹی ہے ، مگر ہندی میں شبد ہے ’’کاشی وشوودھیالیہ ‘‘ کاشی ہندو وشو ودھیالیہ نہیں ہے۔ اسی لئے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جو لگاؤ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے مسلمانوں کو ہے وہ لگاؤ بنارس ہندو یونیورسٹی سے ہندوؤں کو نہیں ہے‘‘
اور یہ تو آج ہی کے ایک اخبار کی سرخیاں ہیں کہ ’’الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس راجن نے کہا کہ اے ایم یو پورے ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کی علامت ہے ۔ اور جسٹس سدھیر کمار نے کہا کہ پوری دنیا میں اے ایم یو کی شناخت ہے۔‘‘
ہمارا شروع سے خیال ہے کہ مسئلہ کو وزیر اعظم سے ملکر حل کرنا چاہئے۔ وہ زمانے لد گئے جب وزیر تعلیم ملک کے تعلیمی اداروں کی علمی تربیت کرتے تھے۔ وائس چانسلر نے وزیر اعظم سے چالیس منٹ کی ملاقات کر کے اور تمام مسائل ان کے گوش گزار کر کے بال حکومت کے پالے میں ڈال دی ہے۔ یونیورسٹی نے علم کا فیض جاری کر نے کے لئے پانچ صوبوں میں کالج کھولنے کی اجازت لی تھی۔ ان کالجوں کا قیام یونیورسٹی کو رٹ ایگزیٹو کونسل اور صدرجمہوریہ کی منظوری کے بعد ہی عمل میں لایا گیا ہے۔ جن میں مغربی بنگال اور بہار کے کالج ابھی باقی ہیں۔ مرکزی حکومت نے یونیورسٹی مراکز کے لئے 447کروڑ روپئے مخصوص کئے تھے جس میں سے اے ایم یو کو 130کروڑ ہی حاصل ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم کو بتایا کہ بنارس ہندو یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ کے مقابلہ میں مسلم یونیورسٹی کو جو فنڈ ملتا ہے وہ بہت کم ہے۔ 
وائس چانسلرنے وزیر اعظم کے سامنے یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کا معاملہ بھی پیش کیا اور یاد دلایا کہ جنتا پارٹی کی حکومت میں جن سنگھ نے اقلیتی کردار کی حمایت کی تھی۔ انہوں نے افسوس کے ساتھ کہا کہ این ڈی اے حکومت نے اپنا رخ تبدیل کر دیا۔ یونیورسٹی کے وفد کی ملاقات اس لئے زیادہ مفید ہے کہ لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں یونیورسٹی کو فٹ بال بنا لیا جاتا ہے اور جو حمایت میں آتش بیانی کرتے ہیں وہ حمایت نہیں کرتے مسلمانوں کے ووٹ پکّے کرتے ہیں۔ سماج وادی پارٹی ہو یا بی ایس پی ان میں کون ہے جو اثر انداز ہو سکے؟
رہے مختار عباس نقوی صاحب تو ایک بات ان سے کہتے چلیں کہ ملک میں صرف مسلم یونیورسٹی ہی ایک ایسی یونیورسٹی ہے جس کے لئے اس کے پڑھنے والے ہی نہیں۔ اس میں ہمارے جیسے نہ پڑھنے والے بھی وقت پڑتا ہے تو قربانی دینے سے نہیں ہچکچاتے۔ ہم وہ ہیں جنہوں نے مسلم یونیورسٹی کا مقدمہ دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لئے 150صفحات کا مسلم یونیورسٹی نمبر نکالا تھا جو حکومت نے ضبط کیا وہ بھی 12ہزار سے زیادہ تھا۔ اور ہم نے نو مہینے ڈی آئی آر کے تحت جیل میں بھی گزارے۔ اور آج پھر قلم کو تلوار بنا کر لکھ رہے ہیں کہ مودی صاحب نے جسے فروغ انسانی وسائل کا وزیر بنایا ہے وہ لیاقت اور صلاحیت کی بنا پر نہیں بنایا بلکہ صرف اس لئے بنایا ہے کہ ان کی اپنی کوئی تعلیمی پالیسی نہیں ہے اور وہ پوری فرماں برداری کے ساتھ ناگپور سے آئی ہوئی ہدایات پر عمل کرتی رہیں گی۔ کیونکہ آر ایس ایس ہمیشہ سے ملک میں تعلیم کو زعفرانی بنانے کے لئے سازشیں کرتا رہا ہے۔ اور اب تو اس کی اپنی حکومت ہے۔ 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا