English   /   Kannada   /   Nawayathi

قرعۂ فال بنام کنہیا کمار

share with us

دوسری بات یہ تھی کہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی یونین کا صدر اور کل کا بننے والا ایک بہت ممتاز لیڈر بے گناہ ہوتے ہوئے صرف دلت ہونے اور جواہر لال یونیورسٹی کا ہیرو ہونے کی وجہ سے بیس دن تہاڑ جیل میں رہ کر رِہا ہوا تھا اور یہ رہائی ہائی کورٹ نے صرف 6 مہینے کے لئے دی تھی۔ اس کے باوجود کہ دہلی کی جس پولیس نے گرفتار کیا تھا اور جس کے کمشنر فطری غلام نے کہا تھا کہ ان کے پاس کنہیا کے خلاف ٹھوس ثبوت ہیں اور گرفتاری کے بعد کہا تھا کہ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟ اور آگے آگے یہ ہوا کہ کمشنر تو بھوت پور ہوکر اپنے ہی بال نوچ رہے ہیں اور ان کی پولیس 20 دن میں بھی وہ ٹھوس ثبوت پیش نہ کرسکی جس کے لئے آگے آگے دیکھنے کی خوشخبری سنائی تھی اور اس کے بعد بھی کچھ نہ کرسکی کہ وزیر داخلہ نے اس کے رشتے حافظ سعید سے ملاکر انہیں سب سے خطرناک ہتھیار دے دیا تھا۔
اور تیسری بات یہ تھی کہ وزیر داخلہ شری راج ناتھ سنگھ صاحب کو مودی سرکار کے اس نائب وزیر کے بھاشن میں کوئی بات قابل اعتراض نظر نہیں آئی جس نے بہت کچھ کہنے کے بعد یہ بھی کہا تھا کہ کوئی میرے وزیر بننے کے بعد یہ نہ سمجھے کہ میں۔۔۔ ہوگیا ہوں میں آج بھی وہی ہوں جو اپنی۔۔۔ حرکتوں اور لاٹھی ڈنڈوں کے لئے مشہور تھا۔ یہ بات اس لئے اب بھول جانا چاہئے کہ کان اور آنکھ کے اتنے تیز کہ نہرو یونیورسٹی میں حافظ سعید کی آواز بھی سن لیں اور اس کا سراپا بھی دیکھنے کی صلاحیت رکھنے والے راج ناتھ کو اپنی سرکار کے نائب وزیر کی تقریر کی سی ڈی سننے کے بعد بھی نہ کوئی بات سنائی دی اور نہ دکھائی دی تو رونا ہی کیا؟ اور ویسے بھی انہیں کوئی بات اس لئے کہنے سے بچنا چاہئے تھا کہ مودی صاحب اسے کلین چٹ دے چکے تھے۔
کنہیا کمار کے ساتھ جو کچھ پولیس نے کیا اور جو اپنے نزدیک اونچی ذات والے وکیلوں نے کیا اس کا تقاضہ تو یہ تھا کہ حکومت میں جتنے دلت رنویر ہیں، یا جو پارلیمنٹ کے ممبر ہیں وہ اعلان کردیتے کہ ایک دلت مگر ابھرتے ہوئے نوجوان کی اس بے عزتی پر پولیس کمشنر معافی مانگے اور ان تمام وکیلوں کے لائسنس کینسل کئے جائیں اور دہلی اسمبلی کے ایم ایل اے کو پارٹی سے نکالا جائے۔ نہیں تو ہم پارٹی بھی چھوڑ دیں گے اور پارلیمنٹ سے بھی استعفیٰ دے دیں گے۔ لیکن یہ اس لئے نہیں ہوسکا کہ ہزاروں برس سے دلت اس لئے اس حال میں ہیں کہ وہ سر نہیں اٹھاتے اور اب جو نہرو یونیورسٹی میں آزادی آزادی آزادی کے نعرے گونجے جسے ملک دشمن اور بغاوت قرار دے دیا گیا۔ وہ اب بہار کے ضلع بیگو سرائے کے ایک گاؤں تک پہونچ گئے اور کنہیا کمار کے گاؤں میں اس کی عارضی ضمانت کی خوشی میں ہولی منائی گئی گلال اڑایا گیا رنگ کھیلا گیا۔ اور سب سے زیادہ اہم بات یہ ہوئی کہ مردوں، عورتوں، لڑکوں، لڑکیوں اور بچوں نے آزادی آزادی کے نعرے لگائے اور یہ سمجھے بغیر کہ آزادی کس سے؟
اعلیٰ ذات کے بے وقوف ہندوؤں نے اپنی حماقت سے کانشی رام کو پیدا کیا اور اپنی ایسی ہی حماقتوں سے مایاوتی کو لیڈر بنایا اور یہ بھی ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ لال جی ٹنڈن اپنے ہاتھ سے مایاوتی بہن جی کو مٹھائی کھلا رہے ہیں۔ اور جب حکومت بنائی تو وہ برہمن جو دلت کے سایہ سے ناپاک ہوجاتے تھے وہی بہن جی کے پاؤں چھوکر حلف لینے جارہے ہیں۔ اور کیا خبر اسی پٹیالہ ہاؤس عدالت کے باہر وہی وکیل کل کنہیا کے پاؤں چھوکر ان سے وہ مانگیں جو برہمن یا چوہان نہ دے سکیں؟
کنہیا کمار نے جیل سے آکر کسی تلخی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اس نے صرف یہ کہا کہ مجھے ٹھیک کو ٹھیک اور غلط کو غلط ثابت کرنے کے لئے ایک لمبی لڑائی لڑنا ہے۔ اور ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی لڑائی پارلیمنٹ سے شروع کرے۔ کنہیا نے نہرو یونیورسٹی میں جو تقریر کی تھی اس میں اس نے کہا تھا کہ ہمیں آر ایس ایس سے حب الوطنی کا سرٹی فکیٹ نہیں چاہئے۔ ہمیں اس ملک سے پیار ہے اور ہمیں اس دستور پر یقین ہے جو بابا صاحب امبیڈکر نے بنایا تھا۔ کنہیا نے کہا تھا کہ ہمیں اس پر فخر ہے کہ ہم جے این یو سے وابستہ ہیں کیونکہ ہم ملک کے بنیادی مسائل پر گفتگو کرتے ہیں۔ کنہیا نے آر ایس ایس کے نظریات کو چیلنج کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم ان سے ہر وقت بحث کرنے کے لئے تیار ہیں۔
کنہیا کمار نے 09 فروری کے واقعہ کی کھل کر مذمت کی۔ انہوں نے وضاحت کی کہ یونیورسٹی کے اور باہر کے لڑکے آگئے تھے جنہوں نے غیرآئینی نعرے لگائے۔ کنہیا کمار جس صلاحیت کا لڑکا ہے اس سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ کوئی ایسی بات کرے گا۔ وہ ایک بہت غریب گھر کا لڑکا ہے۔
اور یہ بہت بڑی بات ہے کہ گھر کے حالات کے پیش نظر بی اے کے بعد کہیں نوکری ڈھونڈنے کے بجائے وہ مزید اور مزید تعلیم حاصل کرکے وہ بننا چاہتا ہے جس سے اپنے طبقہ کو کچھ بنا سکے۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی یونین کا اس کا صدر بننا اور یہ سننے کے بعد اسے صدر بنانا کہ ’’میری ماں ایک آنگن باڑی کی کارکن ہیں اور میرا گھر تین ہزار روپئے میں چلتا ہے۔‘‘ اس لئے بہت بڑی بات ہے کہ جو وزیر اعظم کے امیدوار بننے کے بعد مودی صاحب نے کہنا شروع کیا تھا کہ میں نے بچپن ایسے گذارا ہے کہ میرا باپ چائے بناتا تھا اور میں چھینکے میں چائے کے گلاس رکھ کر گاہکوں کو دیا کرتا تھا۔ اور اس کے بعد ملک کے 75 فیصدی غریب ووٹوں کے لئے انہوں نے اپنے کو ایک چائے بیچنے والا بناکر ہی پیش کیا اور مزید آگے بڑھ کر انہوں نے اپنی محترمہ ماتاجی کو بھی میدان میں اتار دیا کہ وہ دوسروں کے گھر کا پانی بھرتی تھیں اور ان کے جوٹھے برتن دھوتی تھیں۔ لیکن یہ سب اس وقت کہا جب انہیں ملک کے کروڑوں غریب ووٹوں کی ضرورت تھی اور وہ 12 برس سے گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔ لیکن کنہیا نے اس وقت اپنی گھر کی حیثیت بتائی ہے جب وہ زیرتعلیم ہے اور اس کے جسم پر معمولی کپڑے ہیں۔
کنہیا کی ضمانت 02 مارچ کو شام 6 بجے منظور ہوئی۔ یہ عدالتوں اور جیل کی حرکتیں ہیں کہ وہ 25 گھنٹے کے بعد باہر آیا۔ جیل کی فطرت بالکل بینک جیسی ہے۔ کہ اگر اپنے کتے کے گلے میں ایک لاکھ روپئے باندھ کر بینک بھیج دیجئے تو وہ جمع کرلیں گے اور نکالنے کے لئے بیٹے اور بیٹی کو بھی دینے میں سو نخرے کریں گے۔ کنہیا 03 کو 10:30 بجے اپنے ساتھیوں کے پاس آسکا۔ اس نے جو تقریر کی اس میں وضاحت کردی کہ آزادی ہند سے نہیں ہند میں چاہئے۔ اب یہ نعرہ ایسے ہی مقبول ہوجائے گا جیسے بی ایس پی کی حکومت بننے سے پہلے یہ نعرہ مقبول ہوا تھا کہ تلک ترازو اور تلوار۔ مارو جوتے ان کے چار۔ اور اب کنہیا کا نعرہ لے کے رہیں گے آزادی رفتہ رفتہ پورے ملک میں گونجے گا۔ اور ہوسکتا ہے جے رام جی کے بجائے لال سلام اور نیلا سلام بھی گاؤں گاؤں سننے کو ملے۔ اور یہ صرف اس لئے کہ سبرامنیم سوامی جیسوں کو مودی صاحب نے مشیر بنا لیا ہے۔
کنہیا کمار کو عبوری ضمانت صرف 6 مہینے کی دی ہے جبکہ اُمید تھی کہ ہائی کورٹ ثبوت نہ ہونے اور دو سی ڈی میں چھیڑچھاڑ ثابت ہونے کے بعد اسے باعزت بری کردے گی۔ ہم فیصلہ پر تنقید کرکے توہین عدالت کا جرم نہیں کرسکتے۔ لیکن پوری عمر میں یہی دیکھا ہے کہ عدالتیں اسے بھی پیش نظر رکھتی ہیں کہ حکومت کیا چاہتی ہے؟ اور ہمارے نزدیک حکومت چاہتی تھی کہ
؂ باغباں بھی خوش رہے راضی رہے صیاد بھی

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا