English   /   Kannada   /   Nawayathi

خود حکومت قومی بینکوں کی حالت بگاڑ رہی ہے

share with us

سہ ماہی کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ اِس دوران ملک میں لسٹیڈ ۳۹ بینکوں میں سے ۱۹ کا نفع ۹۵ سے ۸۱ فیصد کے آس پاس کم ہوا۔ ان میں ۱۴ عوامی شعبہ کے بینک ہیں۔ منافع اضافہ شرح میں تیزی درج کرانے والے بقیہ ۲۰ بینکوں میں سے گیارہ خانگی ہیں۔ حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ گزشتہ سال کے مقابلے خانگی بینکوں کا نفع ۱۰ء۱ فیصد بڑھ گیا۔ جبکہ عوامی شعبہ کے بینکوں کا منافع ۲۱ فیصد کم ہوگیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو سرکاری بینک نفع دکھا رہے ہیں ان کی حالت بھی بہت اچھی نہیں ہے۔ بینک کسی بھی ملک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی تصور کئے جاتے ہیں اور جب اُن کی حالت خستہ ہو تب معیشت میں اصلاح کے دعوے بے معنی مانے جائیں گے۔
یہاں دو باتوں پر توجہ مرکوز کرنی ضروری ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ ملک میں بینکنگ انڈسٹری میں سرکاری بینکوں کی حصہ داری ۷۰ فیصد سے زائد ہے۔ دوسری بات یہ کہ ان میں سے بیشتر آج بیمار ہیںَ آر بی آئی ان تلخ حقائق سے واقف ہے۔ اِسی وجہ سے سرکاری دباؤ کی پروا کئے بغیر اُس نے اگست میں بینک شرح گھٹانے سے انکار کر دیا۔ آربی آئی محض تھوک مہنگائی گھٹنے کم ہونے کی بنیاد پر ریٹ گرانے کو راضی نہیں ہے، اُسے سب سے زیادہ سرکاری بینکوں کی صحت کی فکر ہے۔
ریزروبینک آف انڈیا کی فکر مندی بے وجہ نہیں ہے۔ آج جن ۱۷ بینکوں کی این پی اے پانچ فیصد کی خطرناک سطح پار کرچکی ہے، اُن میں سے ۱۵ سرکاری اور محض دو خانگی بینک ہیں۔ سب سے بری حالت یونائٹیڈبینک (این پی اے ۵۷ء۹ فیصد) کی ہے اور اس کے بعد انڈین اوورسیز بینک (این پی اے ۴ء۹ فیصد) کا نمبر ہے۔ عوامی شعبہ کے بینکوں کی بد حالی کے لئے سیدھے سیدھے سرکار ہی ذمہ دار ہے۔ بینکوں کے طریقہ کار میں وزرت خزانہ کی دخل اندازی رہتی ہے جس کی وجہ سے وہ پیشہ ورانہ رویہ نہیں اپنا پاتے ہیں۔ عوامی فلاح و بہبود سے جڑے مسائل اور سرکاری منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کا بوجھ اُن کے سر پر رہتا ہے۔ بازار میں نجی بینکوں کی حصہ داری ۳۰ فیصد ہے، لیکن خسارے کا کوئی کام ان پر نہیں تھوپا جاتا۔ جن دھن یوجنا کی تازہ مثال لے لیں، جس میں ملک بھر کے بینکوں میں غریبوں کے کروڑوں زیرو بیلینس کھاتے کھولے گئے۔ ایسے کھاتوں سے بینک کی کمائی نہیں ہوتی، بلکہ خرچ ہوتا ہے۔ قاعدے سے ۷۰ فیصد کھاتے عوامی شعبہ کے بینکوں میں ۳۰ فیصد نجی بینکوں میں کھولنے چاہئے تھے، لیکن سرکاری دباؤ کے باعث ۹۶ فیصد کھاتے عوامی بینکوں کو کھولنے پڑے اور نجی بینکوں نے محض چار فیصد کھاتے کھول کر پلہ جھاڑ لیا۔ اسی طرح سے منموہن سنگھ سرکار نے ہر عوامی شعبہ کے بینک کے لئے کسانوں کو قرض مہیا کرانے کا ہدف متعین کیا تھا، جس سے انہیں بڑا مالی جھٹکا لگا۔ ایسے میں محض منافع کا پیمانہ اپنا کر نجی اور عوامی بینکوں کا تقابل کرنا ناانصافی ہوگی۔ یہ حقیقت ہے کہ بینکوں کی حالت جیسی دکھائی دے رہی ہے، اس سے کہیں زیادہ خراب ہے۔ ایسے کئی قرض ہیں جن کی وصولی کا دور دور تک کوئی امکان نہیں ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا