English   /   Kannada   /   Nawayathi

مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

share with us

وجہ صرف یہ تھی کہ ان سے پہلے بھی نہ جانے کتنے لڑکوں کو مودی کی پولیس نے یہی کہہ کر مارا تھا کہ وہ مودی کو قتل کرنے جارہے تھے۔ لیکن یہ آج تک معمہ ہے کہ ملک میں جتنے صوبے ہیں ان سب میں وزیر اعلیٰ ہندو ہیں۔ سوائے کشمیر کے۔ اور کوئی نہیں ہے جس سے مسلمانوں کو تفریق کی شکایت نہ ہو۔ لیکن کہیں سے خبر نہیں آتی کہ کوئی وزیر اعلیٰ کو مارنے جارہے تھے اور راستہ میں مار دیئے گئے۔ پھر مودی نے ہی ایسا کیا کیا ہے کہ ہر ایک مہینہ کے بعد مسلمان لڑکوں کو جوش سوار ہوتا ہے اور وہ مارنے میں تو کامیاب نہیں ہوتے اپنی جان دے دیتے ہیں۔
وہ چار جن میں ایک عشرت نام کی لڑکی بھی تھی نریندر مودی اور امت شاہ کے حلق میں اٹک گئے۔ اس کے بعد مودی کے سامنے اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا کہ ان سب کی رشتہ داریاں حافظ سعید سے ثابت کردی جائیں۔ لیکن تین ایجنسیوں نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں یہی کہا کہ یہ فرضی انکاؤنٹر تھا۔ اور پھر یہ بھی معلوم ہوا کہ عشرت تو دو دن سے گجرات میں تھی۔ اور چاروں ایک گروپ کی شکل میں کہیں بھی نہیں تھے۔ اس وقت سے اب تک بارہ سال میں کیا کیا ہوا یہ ایسی بات نہیں ہے جو اخبارات میں نہ آئی ہو۔ مودی اور امت کی پریشانی یہ ہے کہ اب معاملہ عدالت میں ہے اور عدالت کے پاس جو رپورٹیں ہیں ان کو نظرانداز کرنا انصاف کے بس کی بات نہیں ہے۔ اب بچنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ عدالت میں فائل ایسے ہی رکھی رہے جیسے رکھی ہے۔ یعنی فیصلہ نہ ہونے پائے۔
جن کے خلاف مقدمہ ہے ان میں ایک اپنے بیان کے مطابق ممبروں کی تعداد کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی پارٹی کا صدر ہے اور دوسرا 125 کروڑ انسانوں کے ملک کا وزیر اعظم۔ وہ اگر چاہیں تو دونوں کی زندگی میں مقدمہ کا فیصلہ نہیں ہوسکتا۔
ہم تو معمولی آدمی تھے۔ 1968 ء میں ہمارے وکیلوں نے بتایا کہ اب جو سینئر جوڈیشیل مجسٹریٹ آئے ہیں ان کی شہرت مسلمانوں کے معاملہ میں بہت خراب ہے۔ وہ مسلمان کو سزا دینے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ کے کسی مقدمہ کا فیصلہ ان کی عدالت میں نہ ہونے دیا جائے۔ ہم نے فیصلہ ان کے اوپر ہی چھوڑ دیا اور یہ واقعہ ہے کہ وکیل صاحب نے دنیا کا کوئی ایسا بہانہ نہیں تھا جو ڈھونڈ کے نہ نکالا ہو۔ اور ان کے تبادلہ تک 18 مقدموں میں سے کسی ایک کا فیصلہ بھی نہیں ہونے دیا۔ ایک دوسرا مقدمہ ہمارا اور بھی ایسا ہی تھا جیسا کنہیا کمار کا یا عمر خالد کا ہے۔ ہمارے وکیل غلام حسین نقوی صاحب نے کہا کہ اس عدالت میں آپ کا مقدمہ نہیں ہونا چاہئے۔ ہم نے کہہ دیا جو آپ مناسب سمجھیں۔ انہوں نے پیشی کی تاریخ پر اپنے چیمبر کی پچاس سے زیادہ موٹی موٹی کتابیں کار میں رکھیں اور عدالت آگئے۔ جب مقدمہ کی پکار ہوئی تو وکیل صاحب نے کہا کہ حضور یہ ملک سے غداری اور بغاوت کی دفعات کا مقدمہ ہے۔ یہ بند عدالت میں ہونا چاہئے۔ عدالت کی طرف سے حکم ہوا کہ سب کو باہر نکالو اور دروازے بند کرادو۔ چلے گئے۔
عدالت خالی ہوگئی تو وکیل صاحب کے منشی جی چار کتابیں لائے۔ وہ میز پر رکھ کر پھر گئے اور پھر چار کتابیں لائے۔ چوتھے چکر کے بعد مجسٹریٹ صاحب نے کہا کہ اور بھی کام ہیں آپ اپنی بات شروع کیجئے۔ وکیل صاحب نے کہا حضور کتابیں آجائیں۔ معلوم نہیں کس موڑ پر کس کتاب کی ضرورت پیش آجائے؟ اور آدھے گھنٹے کے بعد جب پوری میز کتابوں سے بھر گئی تو ہم نے ہدایت کے مطابق نقوی صاحب کو ایک درخواست دی۔ انہوں نے اسے پڑھنے کا ڈرامہ کیا اور کہا حضور یہ تو غضب ہوگیا۔ میرے مؤکل حفیظ نعمانی نے یہ درخواست دی ہے۔ جس میں ایسے تین واقعات کا ذکر ہے جن میں آپ کے اور ان کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا تھا۔ اور حفیظ نعمانی کا کہنا یہ ہے کہ انہیں آپ کی عدالت سے انصاف ملنے کی اُمید نہیں ہے۔ اس لئے مقدمہ کسی اور عدالت میں منتقل کردیا جائے۔ مجسٹریٹ کا رنگ گورا تھا۔ درخواست سن کر انگارے کی طرح سرخ ہوگیا اور وہ یہ کہتے ہوئے اٹھ گئے کہ اب لنچ کے بعد۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب ہم جیسے فقیر دو برس مقدمہ کی سماعت نہ ہونے دیں یا مجسٹریٹ کو ناکوں چنے چبوادیں تو دنیا کے دو بڑے آدمی اگر چاہیں تو کیوں نہ اپنی آخری سانس تک مقدمہ کو فائل میں بند رہنے دیں گے؟ کیونکہ اب ایک تحقیقاتی کمیشن اس کی تحقیق کرنے کے لئے بنایا جاسکتا ہے کہ اپنے چہرہ پر دو رنگ کی آنکھوں والا حکومت کا وعدہ معاف گواہ کے حلق سے جو سرکاری وکیل نے بمشکل عشرت جہاں کا نام اور لشکر سے مرحومہ کے تعلق کے جملے نکلوائے ہیں اور جس کے بعد بی جے پی کا ہر ورکر ہیڈلی کو دنیا کا سب سے عظیم آدمی ماننے لگا ہے کیا وہ بے گناہی کا ثبوت بن سکتا ہے؟ اور ایک کمیشن سابق وزیر داخلہ کی اس حرکت کی تحقیق کے لئے بنایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے جو حلف نامہ میں تبدیلی کرائی تھی۔ اس کا عشرت جہاں کے دہشت گرد ہونے نہ ہونے پر کیا اثر پڑے گا؟
ہم جیسے لوگ جنہوں نے انکاؤنٹر فرضی مان لئے جانے کے بعد عشرت کو شہید ماننا شروع کردیا تھا کیونکہ وہ ’’من قتل مظلوماً فی و شہید‘‘ کے اعلان کے بعد شہید مانی جائے گی۔ لیکن ہیڈلی کو اگر دھرم گرو مان لیا گیا یا شری چدمبرم کے ذریعہ حلف نامہ کی تبدیلی ایک سازش قرار دے دی گئی اور عشرت جہاں کی رشتہ داری حافظ سعید سے ثابت ہوگئی تو ہم عشرت کو شہید لکھتے وقت یہ سوچنے لگیں گے کہ کہیں ہمارا حشر بھی کنہیا جیسا نہ ہو؟ عشرت شہید ہونے کی وجہ سے جو کسی حساب کے بغیر جنت میں ہوگی۔ اس پر تو دنیا کے فیصلوں کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ یہاں تو بات عشرت کی نہیں ہے امت اور مودی کی ہے۔ کیونکہ تلوار ان کے اوپر ہی لٹکی ہوئی ہے اور ان کی حیثیت کو دیکھتے ہوئے یہ سزا بھی کم نہیں ہے۔
عشرت جہاں اگر سپریم کورٹ سے دودھ کی دُھلی پاک صاف ثابت ہوجائے تب بھی اس کی تو کسی کو توقع نہ رکھنا چاہئے کہ اس کی ماں بہن کو وزیر اعظم 20 لاکھ روپئے دے دیں گے۔ کیونکہ وہ تو صاف صاف کہہ چکے ہیں کہ نہ کھاؤں گا نہ کھانے دوں گا۔ اور اگر ہیڈلی کے فرمانے کی وجہ سے اسے لشکر کی خواتین کا کمانڈر بھی عدالتیں مان لیں تب عشرت کو قبر سے نکال کر پھانسی نہیں دی جاسکتی ہے۔ شاید امت شاہ دل کی تسلی کے لئے اتنا کردیں کہ اس کی قبر کے پینتانے ایک پتھر لگوادیں جس پر لکھا ہو کہ اس قبر میں ایک لشکر طیبہ کی کمانڈر سو رہی ہے۔ غرض کہ جو بھی ہو ہر بات باعث شرم ہے۔ اس لئے کہ کروڑوں روپئے صرف اس جھوٹ پر پردہ ڈالنے کے لئے خرچ ہورہا ہے کہ عشرت شہید اور اس کے تینوں ساتھیوں کو پولیس نے نہیں مارا بلکہ گجرات کے اقتدار نے صرف اس لئے شہید کرایا ہے کہ وہ ملک میں یہ ڈھول بجوا سکیں کہ ہندوستان اور پاکستان کے چالیس کروڑ مسلمان صرف ایک نریندر مودی سے خوفزدہ ہیں۔ اس لئے اسے مارنا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ نہیں بتاتے کہ عشرت کی شہادت کے بعد وہ مسلمانوں کے لئے خوفزدہ کیوں نہیں رہے۔ خدا عشرت کے درجات بلند کرے اور اس کے پسماندگان کو صبر بھی دے اور بزدلوں سے لڑنے کی طاقت بھی دے۔ آمین۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا