English   /   Kannada   /   Nawayathi

ایک دوسرے کو کاٹتی ہوئی تیز لہروں کاٹکراؤ اور تعطل

share with us

انہوں نے ہر شعبے میں ہندوستان کی پیش قدمی کو سراہا لیکن ان ستائشی جملوں کے درمیان ان کا ایک جملہ حکومت کو چوکنا کرنے کیلئے کافی تھا۔ دہلی میں ٹاؤن ہال جیسی ایک تقریب میں عوام سے خطاب کرتے ہوئے صدر امریکہ نے کہا کہ ’’ہندوستان اسی وقت تک کامیاب رہے گا جب تک کہ فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم نہ ہوجائے‘‘۔ یہ ایک عالمی طاقت کے سب سے بڑے نمائندے کی طرف سے ہندوستان میں عدم رواداری پر ایک محتاط ، سفارتی تبصرہ تھا جس کو کھل کر دیکھا جائے تو سیدھا مطلب یہ نکلتا ہے کہ ہندوستان میں اگر معاشرہ کو فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کیا جاتا رہے تو ملک کی کامیابی خطرہ میں پڑ جائے گی۔ اوباما نے یہ بات مودی حکومت کے اقتدار میں آنے کے صرف 9 مہینوں کے اندر کہ دی تھی۔ وہ بھی ہندوستان کی سرزمین پر ، ہندوستانی حکام اور عوام کے سامنے۔ 9 مہینوں میں نریندر مودی حکومت نے ایسا کیا کیا تھا کہ ہندوستان کو اپنا قریب ترین پارٹنر ماننے کے باوجود امریکہ اس ردِ عمل کا مظاہرہ کرنے پر مجبور ہوا۔ سنگھی جارحیت اور اقلیت دشمنی کے خلاف یہ پہلی بین الاقوا می نمایاں آواز تھی جو ایک مہمان صدر نے بلند کی اور اسے حکومت ہند یا ہندوستانی عوام نے ہندوستان کے داخلی معاملات میں مداخلت قراردینے سے انکار کیا۔ ورنہ آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا کہ ہندوستان جیسے آزاد اور خود مختار ملک کے اندرونی معاملات میں کسی کو بولنے کا حق حاصل نہیں ۔ صدر امریکہ بارک اوباما نے جنوری 2015 کے آخری دنوں میں دہلی میں اس تقریر کے ایک ہفتہ کے اندر امریکہ میں 3000 سے زائد بین الاقوامی نمائندوں کی موجودگی میں ہندوستان میں عدم رواداری کا معاملہ پھر اٹھایا اور وہاں بھی پوری متانت کے ساتھ ہندوستانی معاشرہ میں رواداری کے فروغ کی ضرورت پر زور دیا۔
ابھی پچھلے دنوں امریکی پارلیمنٹ یعنی ایوان نمائندگان اور سینیٹ کے 34 ممبروں نے وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک خط لکھ کر اقلیتوں خاص کر عیسائیوں ، مسلمانوں اور سکھوں پر ظلم و زیادتی کے معاملات اٹھائے ہیں اور ملک میں رواداری کو بڑھاوا دینے کی ضرورت پر زور دیاہے۔ 
گوکہ وزاراتِ خارجہ کے ترجمان نے اس خط پر حکومت ہند کاردعمل ظاہر کرتے ہوئے اس کی وضاحت کر دی ہے کہ "ہندوستان میں آئین کی برتری اور قانون کی حاکمیت کا لحاظ رکھا جارہا ہے لیکن امریکی ممبران پارلیمنٹ نے کبھی کبھار رونما ہونے والی چھوٹی موٹی وارداتوں کو اپنا موضوع سخن بنا کر وزیر اعظم مودی کو خط لکھا ہے۔ "
سرکار ی رد عمل امریکی ممبران پارلیمنٹ کیلئے اطمینان بخش ہے یا کہ نہیںیہ ہماری گفتگو کاموضوع نہیں ہوسکتا۔ ہماری گفتگو تو اسی پر محدود رہے گی کہ ادھر کے 21-22 مہینوں میں ملک کے مختلف فرقوں کے درمیان ہم آہنگی اور رواداری کو چوٹ پہنچانے والی وارداتیں زیادہ برہنگی اور بربریت کے ساتھ سامنے آئی ہیں اور ان پر حکومت کا رد عمل ویسا شدید نہیں جیسے شدید ردعمل کی توقع فکر مند، انصاف پسند ہندوستانی کرتا ہے۔ ہندوستانی معاشرہ میں تبدیلی آرہی ہے ۔ سرمایہ سے ٹیکنالوجی تک جو کچھ بھی بیرونی ملکوں سے ہندوستان آرہاہے اس کے ساتھ بیرونی قدریں ، طرز حیات اور سماجی رویہ بھی ہندوستانی زندگی میں تبدیلیاں لانے کا سامان کررہے ہیں۔ یہ ایک لہر ہے ۔ ایک لہر ہندوستان میں اپنے کام سے کام رکھتے ہوئے قوم کی ترقی میں حصہ دار بنے رہنے کے جذبہ کی ہے۔ اسی طرح ایک لہر سرکاری جبر یا غلط پالیسیوں کے خلاف کہیں پرامن کہیں پرتشدد احتجاج کی ہے۔ ایک لہر کسی بھی طرح سے اچھی بری زندگی گزار کر محفل سے اٹھ جانے کی بھی رہی ہے لیکن یہ جو ایک نئی لہر اٹھی ہے جس میں اپنی بھلائی کی طرف کم اوردوسروں کو نقصان پہنچانے کی طرف زیادہ توجہ دی جارہی ہے۔ اس لہر کی منفیت بہت تیزی کے ساتھ ہندوستان سے باہر نگاہوں میں آگئی۔ ہندوستان جیسا پھولتا پھلتا معاشرہ اور بڑی طاقت بننے کی اہلیت سے روشن معیشت ترقی کیلئے امن کو سماجی ہم آہنگی کو اور ایک دوسرے کو ساتھ لے کر چلنے کے جذبہ کو لازمی شرط سمجھنے پر مجبور ہے۔ لیکن جارحیت پسند عناصر اسی شرط کو ماننے سے انکارکررہے ہیں۔یہ انکار انفرادی سطح پر بھی ہے، اجتماعی سطح پر بھی۔ یہ انکار عوامی سطح پر بھی ہے سرکاری سطح پر بھی۔ یہ انکار انتظامی سطح پر بھی ہے اورافسرشاہی سطح پر بھی۔ 
آج یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ غلطی کہاں ہوئی ؟ سدھار پر توجہ کس مرحلے میں ضروری تھی مگر دی نہیں گئی ؟اور اب کیا کیا جائے ؟تینوں سوال کا جواب ایک ہے۔ 
حکومت بننے کے بعد حکمران جماعت ، اس کی حلیف پارٹیوں اورہمشیر تنظیموں نے آئین اور قانون کی برتری کو ماننے سے انکار کر کے اپنی ذاتی ضد عوام پر تھوپنے کی کوشش شروع کی۔ آر ایس ایس کے جو کارکن بی جے پی کو اقتدار تک لانے کیلئے کوشاں تھے انہوں نے اپنی خدمات کا معاوضہ سماج میں اپنے لئے جگہ تلاش کرنے کی کوشش کے ذریعہ حاصل کرنا شروع کر دیا۔ دادری ، آگرہ ، مظفر نگر ، کوہیما جیسی وارداتیں اس اجتماعی فکر کو عام کرنے کا نتیجہ ہیں کہ حکومت آئین یا قانون کی نہیں سنگھی کارکنوں کی ماتحت ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی، وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ اور وزیر قانون سدانندگوڑا نے سرمنظر آکر قانون شکنی پر آمادہ پرچارکوں ، مہنتوں اور ممبران پارلیمنٹ کو یہ بتانے سے گریز کیا کہ ہندوستان ایک آئین کا پابند ہے اور ملکی قوانین ہر حال میں پابندی کا تقاضہ کرتے ہیں۔ نتیجہ میں ایک ایسی صورتحال بنی ہے جس میں حکومت اپنے تمام تردعوؤں کے باوجود پارلیمنٹ نہیں چلا پا رہی ہے، اہم قانون سازی ٹھپ پڑی ہے ، سالانہ بجٹ جیسے تیسے پیش کیا جارہا ہے ، انتظامی مشنری تقریبا ہر موقعہ پر ناکام ہورہی ہے اور سماج مذہبی خطوط پر بہت شدت کے ساتھ تقسیم ہوتا جارہا ہے۔ ہندوستان میں فکر مند ، انصاف پسند، سیکولر، سوشلسٹ ، جمہوریت نواز ، ترقی پسند حلقہ اب یونیورسٹیوں میں دلت اسکالروں اور آزاد خیال طلبہ کے خلاف جابرانہ کارروائیوں کے بعدتھوڑا بہت بیدار ہوا ہے۔ ایک اور لہر بن رہی ہے جو حکومت کی بے حسی کے خلاف عوام میں بیداری لانے کی ہے اور اگر یہ لہر شدت اختیار کرگئی تو شاید ہندوستان کے چہرہ کے گم ہوتے ہوئے نین نقوش بحال ہونے کی امید میں جان پڑ جائے۔ 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا