English   /   Kannada   /   Nawayathi

آزاد دیش کے ذہنی غلام

share with us

وطن سے غداری کے لئے اس کا استعمال ہوتا۔ بال گنگادھر تلک اور گاندھی جی کے خلاف بھی اس دفعہ کے تحت غداری کا مقدمہ دائر کیا گیا تھا۔ پنڈت نہرو نے واضح الفاظ میں اس کی مخالفت کرتے ہوئے اسے غیر دستوری قرار دیا تھا اور ترمیم کا وعدہ بھی کیا تھا مگر اس کا نہیں موقع نہیں ملا۔
دیش سے غداری کا مقدمہ، کسی کی آواز بند کرنے، طاقت کچلنے کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ اب یہ ہتھیار اپنے ہی ملک کے نوجوانوں کے خلاف استعمال کیا جانے لگا ہے۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے صدر کنہیا کمار کے خلاف غداری کا مقدمہ دائر کیا گیا۔ جس کے خلاف ملک کے عوام کی اکثریت احتجاج کررہی ہے۔ یہ احتجاج واجبی ہے‘ کیوں کہ کنہیا کمار ایک اسٹوڈنٹ لیڈر ہے وہ مستقبل کے معماروں میں شامل ہے جس سے ملک کا مستقبل وابستہ ہوسکتا ہے۔ آنے والے کل وہ ملک کا ایک عظیم سیاستدان بن کر قومی منظر پر اُبھر سکتا ہے۔
کنہیا کمار پر الزام اے بی وی پی نے عائد کیا ہے کہ اس نے افضل گرو کی برسی کے موقع پر جے این یو کیمپس میں نہ صرف افضل گرو کی حمایت کی بلکہ مخالف ہند نعرے لگائے۔ سوشیل میڈیا پر جو ویڈیو کلیپنگ عوام ہوچکی ہے اس کے مطابق موافق پاکستان نعرے اے بی وی پی کارکنوں نے بلند کےئے۔ کنہیا کمار کے خلاف ابھی تک کوئی ثبوت نہیں مل سکا۔ اس کے باوجود پولیس ریمانڈ میں ہے۔ اس کی حمایت میں طلباء، اساتذہ سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ کیوں کہ یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آچکی ہے کہ حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی سے لے کر جے این یو تک اے بی وی پی انتشار، خلفشار کے لئے ذمہ دار ہے۔ حیدرآباد یونیورسٹی میں روہت نے خودکشی کیوں کی تھی اے بی وی پی کے لیڈر سوشیل کمار کی جھوٹی شکایت پر کہ اسے روہت اور اس کے ساتھیوں نے زدو کوب کیا تھا۔ اور اے بی وی پی کی شکایت پر کاروائی کے لئے مرکزی وزراء دتاتریہ اور سمرتی ایرانی کا رول بھی بے نقاب ہوا تھا۔ جے این یو میں بھی شکایت اور الزام اے بی وی پی ہی کا ہے۔ اتفاق کی بات ہے کہ روہت اور کنہیا کمار دونوں کا تعلق سماج کے اس طبقہ سے تھے جس کی آواز کو ایک مخصوص طبقہ صدیوں سے کچلتا آیا ہے۔ روہٹ نے اپنے ساتھ کی جانے والی ناانصافی’ امتیازی سلوک، معاشی تحدیدات سے دلبرداشتہ ہوکر موت کو گلے لگایا۔ اس کی موت نے پسماندہ مظلوم طبقات میں زندگی کی لہر پیدا کی اور کنہیا کمار نے جے این یو کیمپس میں سماجی عدم مساوات، ملک کے اصل غداروں کے خلاف آواز بلند کی۔ ان عناصر کے خلاف جو گاندھی جی کے قاتل کو اپنا ہیرو مانتے ہیں جو اس ملک کی تعمیر اور ترقی میں مسلمانوں کے رول کو نظر انداز کردینا چاہتے ہیں۔ کنہیار کمار نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ جس دن ملک کے لئے قربانی دینے والوں میں اشفاق اللہ خان کا نام بھی لیا جائے گا۔ وہ دن اہم ہوگا‘ انہوں نے بھارت ماتا کی جئے کے نعرے لگانے والوں سے سوال کیا کہ وہ کس طرح بھارت ماتا کی عزت کرسکتے ہیں۔ جب وہ اس ملک کی غریب پسماندہ طبقات کی ماؤں کی عزت نہیں کرسکتے۔
انہوں نے قانون کے غلط استعمال سے متعلق بھی کئی سوال اٹھائے تھے۔ اور سمجھا یہی جارہا ہے کہ ان کی اس بے باکانہ تقریر کو بنیاد بناکر انہیں نشانہ بنایا گیا۔ اور ملک سے غداری کا الزام تک لگادیا گیا۔
جے این یو واقعہ کا سیاسی جماعتیں استحصال کررہی ہیں۔ ہر ایک اپنی سیاسی دکان چمکانے میں لگا ہوا ہے۔ سنگھ پریوار اور اس کے ہم خیال تشدد پر اترپڑے ہیں۔ قانون و انصاف کے اداروں میں تک انصاف کے لئے لڑنے والے اب اپنے عمل سے یہ ظاہر کرنے لگے ہیں کہ ان کا ظاہر ہی نہیں بلکہ ان کا باطن بھی سیاہ ہے۔ میڈیا کے نمائندوں، بائیں بازو کی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے طلباء قائدین کو پولیس کی موجودگی میں جس طرح زدوکوب کیا گیا ہے اس سے ایمرجنسی کے دور کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ ساری دنیا میں اپنا امیج بہتر بنانے کی کوشش کرنے والے وزیر اعظم جنہوں نے اچھے دنوں کا وعدہ کیا تھا۔ ملک کے اندرونی معاملات میں ناکام نظر آرہے ہیں۔ حال ہی میں امریکہ‘ آسٹریلیاء میں انہوں نے فخریہ انداز میں کہا تھا کہ ہندوستان کا 65فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ہندوستان نوجوان ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہندوستان کے طلباء اور نوجوانوں کو تقسیم بھی کیا جارہا ہے اور ان پر اپنے نظریات مسلط کرنے کی کوشش بھی کی جارہی ہے۔ جو ان کے ہمخیال نہیں وہ دیش کے غدار ہیں۔
طلباء کے خلاف کاروائی کرنے والوں سے دنیا پوچھ رہی ہے کہ افضل گرو کی برسی پر کوئی پروگرام منعقد ہوتا ہے تو اس پر اعتراض کیوں؟ افضل گرو کی تائید کرنے والے دیش کے غدار کیوں، پی ڈی پی نے تو جموں و کشمیر اسمبلی میں افضل گرو کی پھانسی کے خلاف قراداد منظور کی‘ اس جماعت کے ساتھ کشمیر میں مخلوط حکومت تشکیل کیوں دی گئی؟ پاکستان کے حق میں نعرے لگائے (سوشیل میڈیا کے مطابق) تو پھر اچانک پاکستان پہنچ کر پاکستانی وزیر اعظم سے بغل گیر ہوجانے والے کیا ہیں۔ کالجس اور یونیورسٹیز تو طلباء کی شخصیت سازی‘ ان کی صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے کے مراکز ہیں۔ مختلف موضوعات پر تقاریر مباحث کے ذریعہ ہی تو ان میں تقریر کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے‘ ان کی قائدانہ صلاحیتیں ابھر کر آتی ہیں۔ اظہار خیال کی آزادی بھی تودستوری حق ہے۔ اس پر پابندی کیوں؟ ہم ایک آزاد ملک کے شہری ہیں۔ اور اس ملک کا کوئی شہری دیش کا غدار نہیں ہوسکتا۔ ہاں غدار وہ ہے جو مذہب، ذات پات، طبقہ واریت کے نام پر اس ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرتے ہیں۔ جو اپنے مفادات کے لئے دفاعی راز بھی دشمن کو بیچ دیتے ہیں اور اپنی بقاء کے لئے اپنے ملک کی آزادی کو بھی بیرونی طاقتوں کے پاس رہن رکھ دیتے ہیں۔
طلباء اور نوجوان کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے وہ اس ملک کے حق میں بہتر نہیں ہے۔ جنہوں نے یہ چنگاری لگائی وہ آگے اس آگ میں جھلس جائیں گے۔ ہندوستان ابھی تک انفارمیشن ٹکنالوجی میں ترقی کررہا تھا۔ حالیہ عرصہ کے دوران اس ترقی کرنے والے طبقہ میں انتشار پیدا کردیا گیا‘ جو نوجوان ملک کا اثاثہ ہیں انہیں مجرم اور ملزم بنایا جارہاہے۔ یہ نوجوان اپنے مستقبل سے کھلواڑ کو معاف نہیں کریں گے۔ یونیورسٹیز کے ماحول کو پراگندہ کرنے کے لئے وائس چانسلرس ذمہ دار ہیں۔ یہ سلسلہ مولانا آزاد اردو یونیورسٹی سے شروع ہوا تھا۔ جس کے سابق وائس چانسلر نے اردو یونیورسٹی کے ماحول کو پراگندہ کیا۔ حیدرآباد یونیورسٹی اور پھر جے این یو کے وائس چانسلرس یہاں کے کیمپس میں بدامنی کے لئے ذمہ دار ہیں۔ سیاسی پیروکاری سے اعلیٰ منصب پر فائز ہونے والے وائس چانسلرس اصل دشمن قوم اور وطن ہیں۔ انہیں ان کی کارستانیوں کی سزا ملنی چاہئے۔
’’جے این یو‘‘ واقعہ نے وکلاء برادری کی ساتھ کو بھی متاثر کیا ہے۔ میڈیا نمائندوں پر ان کے حملے افسوسناک ہیں۔ اگرچہ کہ بعض میڈیا چیانلس نے یکطرفہ من گھڑت کہانیاں بیان کیں اور نفرت و دشمنی کا ماحول پیدا کیا۔ جے این یو کا معاملہ طول پکڑے گا... وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کو ثبوت پیش کرنا ہوگا کہ جے این یو کے واقعہ میں حافظ سعید ملوث ہیں۔ اگر واقعی ایسا ہے تو یہ ناقابل معافی ہے۔ اگر الزام بے بنیاد ہے تو قابل مذمت... ہمیں یقین ہے کہ الزامات غلط ہی ثابت ہوں گے۔ کیوں کہ اس ملک کا نوجوان گمراہ ہوسکتا ہے دیش کا غدار نہیں... ہاں کچھ عناصر بیرونی طاقتوں کے غلام ضرور ہوسکتے ہیں۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا